وزیرِ اعظم عمران خان کے ’بے پردگی اور فحاشی‘ کو ریپ کی وجوہات قرار دینے والے بیان پر شدید تنقید

جاسم محمد

محفلین
وزیرِ اعظم عمران خان کے ’بے پردگی اور فحاشی‘ کو ریپ کی وجوہات قرار دینے والے بیان پر شدید تنقید، معافی مانگنے کا مطالبہ
7 اپريل 2021
_107818480_gettyimages-1077013004.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

’لباس ہی زیادتی کی وجہ نہیں۔۔ پانچ چھ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی اور لباس کا آپس میں کیا تعلق؟؟؟ دیہی علاقوں میں خود کو ڈھانپ کر رکھنے والی خواتین کے ساتھ کیوں زیادتی ہوتی ہے؟ ریپ کا ذمہ دار ریپ کرنے والا ہے نہ کہ جس کا ریپ ہوا اس کا لباس۔‘

’ریپ کا پردے اور لباس سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کو کیا پتہ اسلام کا؟ جو عورت برقعہ پہنتی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔‘

’یہ معاشرہ ذہنی طور پر مفلوج اور الجھن کا شکار ہے اور عمران خان اسی معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مذہب کے پیچھے چھُپنا ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ محض روایات کو مذہب سمجھ لیا گیا ہے اور بنیادی اخلاقیات جو مذہب سکھاتا ہے، ان کا خانہ بلکل خالی ہے۔ حالانکہ ریاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔‘

یہ تبصرے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا ایک نمونہ ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی کو قرار دیا تھا۔

ادھر برطانوی میڈیا میں عمران خان کے اس بیان سے متعلق خبریں چھپنے کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'جس عمران کو میں جانتی تھی وہ تو کہتا تھا کہ مرد کی آنکھوں پر پردہ ڈالنا چاہیے ناکہ عورت پر'۔


اس سے پہلے پاکستان میں کئی معروف خواتین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی حلقوں نے ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ’ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے‘۔

مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذمہ دار اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نہیں بلکہ وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایسا بیان دیا گیا ہے بلکہ یہ بیان ریپ اور جنسی تشدد کے بارے میں ان کی سوچ کا عکاس ہے۔

عمران خان نے کیا کہا تھا ؟

تین اپریل کو عوام سے ’براہ راست‘ کال وصول کرنے والے ایک پروگرام میں ایک کالر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا ’معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘

_109623395__89330128_child.jpg

،تصویر کا ذریعہTHINKSTOCK

سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان دے کر عمران صاحب نے ریپ کا شکار ہونے والوں اور ان کے گھر والوں کا دل دکھایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے دیا گیا یہ بیان ’ہر باشعور شخص کے لیے حیران کن ہے‘۔

پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان نے سوال اٹھایا کہ ’کمسن بچوں کو جو ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیا اس کی وجہ بھی فحاشی ہی ہے؟‘

دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

_114306888_4539fbc3-3c8e-4094-a8e2-1ea609b1761c.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SKHANATHLETE

،تصویر کا کیپشن
کچھ عرصہ قبل پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان نے بھی اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ شئیر کیا تھا۔ سڑک کے بیچ پر کھڑے ہو کر انھوں نے ویڈیو میں کہا کہ: 'آپ نے ہمیشہ میری طرف سے لڑکیوں کے سائیکل چلانے پر حوصلہ افزائی کا سنا ہوگا۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی۔ یہ غیر محفوظ ہے۔ میں اسلام آباد میں سائیکلنگ کر رہی تھی۔ 'فیض آباد کے قریب ایک بندہ آیا جو شاید دفتر سے آرہا تھا۔ اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا اور بھاگ گیا۔‘

سوشل میڈیا پر ردِعمل

سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے اس بیان پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف صارفین ان پر شدید تنقید کر رہے ہیں وہیں ان کے بیان کی حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم کے بیان کے خلاف ایک مذمتی خط بھی شیئر کیا جارہا ہے جس میں اب تک 200 سے زائد افراد اور خواتین کے حقوق سے وابستہ تنظیموں کے دستخط موجود ہیں۔

اس خط میں ان کے بیان کی مذمت کے ساتھ ساتھ عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

_117873164_mediaitem117873163.jpg

،تصویر کا ذریعہ@IMAANZHAZIR

وزیر اعظم نے عوام کے ساتھ خطاب کے دوران خواتین کے پردے کی اہمیت پر بھی زور دیا جس کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث چل پڑی ہے۔

نجی ٹی وی سے وابستہ اینکر شہزیب خانزادہ نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم کا ریپ واقعات کو لباس اور پردے سے جوڑنا افسوسناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔ براہ راست وِکٹم بلیمنگ ہے۔ ریپ کا لباس سے کوئی تعلق نہیں، شہوانیت بھی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔‘

ایک صارف لکھتی ہیں کہ ’کسی نے کیسا لباس پہنا ہے، کیسا دوپٹہ اوڑا ہے اور میڈیا پر کیا دیکھاتا ہے اس بارے میں فیصلہ کرنا ریاست کا کام نہیں‘۔ انھوں نے کہا کہ ’کوئی انسان برقع پہنے ہو جینز پہنے ہو، اپنے محرم کے ساتھ ہو یا اکیلی ہو، وہ پورن دیکھتی ہو یا ارتغرل کے ڈرامے، ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔‘

_117874167_mediaitem117874166.jpg

،تصویر کا ذریعہ@BENAZIR_SHAH

اس بحث کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں ایک لڑکی نے اپنا سر دوپٹے سے ڈھانپا ہوا ہے اور وہ ایک گلی میں سے گزر رہی ہے، اسی دوران اس کی مخالف سمت سے آنے والا ایک موٹر سائیکل سوار اس لڑکی کی چھاتی کو زبردستی ہاتھ لگا کر فرار ہو جاتا ہے۔

اس ویڈیو کو شیئیر کرنے والے اس کے ساتھ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اس ویڈیو میں تو لڑکی نے ڈوپٹہ اوڑہ رکھا ہے تو پھر اس کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ لباس کیسے ہوئی؟

خاتون وکیل جلیلہ حیدر لکھتی ہیں کہ ایسے واقعات میں ریپ کرنے والے کی طاقت اور اس کے کسی کو زیر اثر لانے کی سوچ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

_117874171_mediaitem117874170.jpg

،تصویر کا ذریعہ@ADVJALILA

’عمران خان صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لباس کا بہت عمل دخل ہے‘

کئی افراد عمران خان کے بیان کی حمایت کرتے بھی نظر آئے۔ روبینہ بشیر لکھتی ہیں ’عمران خان صاحب نے بالکل ٹھیک کہا، لباس کا بہت عمل دخل ہے اور پاکستان میں فحاشی عروج پر ہے۔ لباس پورا ہو گا تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ یورپ میں مسلمان خواتین مکمل حجاب میں ہوتی ہیں مگر پاکستان میں تو خواتین کے لباس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ یہاں بے حیائی عام ہے۔‘

اس کے جواب میں حسن نامی صارف نے ان سے پوچھا کہ ’جو چھوٹی معصوم بچیاں ریپ کرنے کے بعد مار دی گئیں انھوں نے کون سے کپڑے پہن رکھے تھے؟ کیا زینب کے ساتھ زیادتی کپڑوں کی وجہ سے ہوئی؟‘

_117873172_mediaitem117873171.jpg

،تصویر کا ذریعہ@SOBIAAKBAR99

اس ساری بحث میں عمران خان کی فالوورز ان کے بیان پر تنقید کو خود عمران خان پر تنقید مانتے ہوئے ان کا دفاع کررہے ہیں جبکہ کچھ مداحوں کو ان کے بیان پر صدمہ بھی پہنچا ہے۔

حارث الدین نامی صارف نے لکھا ’بھائی جو بات کہی بہت اعلیٰ کہی وزیرِ اعظم صاحب نے۔ پتہ نہیں لوگوں کو اسلام کے احکامات سے کیا چڑ ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ لباس کا صحیح نہ ہونا فحاشی نہیں پھیلاتا تو پھر لباس ہی سے آزاد ہو جاؤ۔‘

ثوبیہ اکبر نے اس حوالے سے ایک تھریڈ پوسٹ کیا۔ انھوں نے لکھا ’خان صاحب نے قطعی نہیں کہا کہ ریپ کا شکار ہونے والی متاثرہ خواتین یا بچیوں کا لباس ان واقعات کی وجہ بنتا ہے۔ انھوں نے بحیثیت مجموعی معاشرے میں فحش مواد تک بڑھتی ہوئی رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اخلاقی گراوٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک پردے کی بات ہے تو ضروری نہیں کہ پردہ صرف عورت کے لباس کا ہو، پردہ مرد کی آنکھ کا بھی ہوتا ہے۔‘

_117873656_mediaitem117873655.jpg

،
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کا کہنا ہے کہ ریپ کیسز میں اضافے کی وجہ فحاشی ہے۔
دوسرے الفاظ میں خان صاحب یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ فحاشی اگر کم ہوجائے تو ریپ کیسز بھی کم ہوجائیں گے۔
فحاشی دنیا کا واحد ایشو ہے جس کی کوئی مروجہ تعریف ابھی تک دنیا میں سامنے نہیں آسکی۔
ایک مکمل باپردہ خاتون کے نزدیک عورت کا چہرے کا پردہ نہ کرنا فحاشی ہے۔
سر پر حجاب اوڑھنے والی لیکن چہرہ کھلا رکھنے والی خاتون کے نزدیک سر نہ ڈھانپنا فحاشی ہے۔
اسی طرح آپ آگے چلتے جائیں، فحاشی کی نئی نئی ڈیفی نیشنز ملتی جائیں گی۔

آج سے تیس سال قبل پاکستان کے کم و بیش بیس فیصد گھروں میں ٹی وی نہیں رکھا جاتا تھا کیونکہ اس سے فحاشی پھیلتی تھی۔
پھر اس شرط پر ٹی وی گھر میں لایا گیا کہ صرف پی ٹی وی دیکھا جائے گا، انڈین دوردرشن چینل فحاشی پھیلاتا ہے۔
اس وقت ڈش انٹینا کو شیطانی ڈش کہا جاتا تھا۔
پھر کیبل آئی، اس کے خلاف بھی ایسا ہی کہا گیا۔
پھر آہستہ آہستہ کیبل نہ صرف ہر گھر میں آئی بلکہ ہر مولوی کے گھر میں بھی اب ٹی وی کیبل نیٹ ورک سے ہی چلتے ہیں۔
اس دوران انٹرنیٹ آیا، یوٹیوب اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آئے۔ زیادہ دور نہیں، دس سال قبل پاکستان کے مذہبی طبقے کے نزدیک یوٹیوب، فیس بک اور انٹرنیٹ فحاشی کے اڈے تھے، آج وہی مذہبی ملاں ان پلیٹ فارمز پر اپنے چینلز بنا کر لوگوں کے ترلے منتیں کرتے ہیں کہ گھنٹی کو کلک کرکے سبسکرائب کریں۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عمران خان نے اس ایشو کا بالکل غلط حل نکالا ہے۔ ریپ کیسز کو آپ سرے سے ختم نہیں کرسکتے، لیکن آپ قانون تو بنا سکتے ہیں جو ان جرائم پر سخت سزائیں دے سکیں۔ آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر بنا سکتے ہیں جو ریپ کیسز کے مجرموں کو فوری طور پر پکڑ سکیں۔ آپ عدالتی نظام ٹھیک کرسکتے ہیں جہاں ان مجرموں کو فوری طور پر سزائیں دی جاسکیں۔

فرض کریں کہ آپ پورے پاکستان کی خواتین کو بشری بی بی کی طرح مکمل پردہ کروا دیتے ہیں، پھر بھی آپ موبائل پر موجود فحش مواد کو کیسے روک سکتے ہیں؟ یہ آج کے دور میں ممکن ہی نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ یہ کہیں کہ چوری اور ڈاکوں کی بنیادی وجہ لوگوں کے پاس دولت ہونا ہے۔ آپ لوگوں کو پیسہ کمانے سے نہیں روک سکتے لیکن چوری کی واردات کی روک تھام ضرور کرسکتے ہیں۔

عمران خان کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ ریپ کے حوالے سے اپنی سوچ کا دوبارہ جائزہ لے۔ فحاشی اور پردہ جیسے دلائل برصغیر کے ملاں پچھلی کئی صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کی اخلاقیات بہتر ہونے کی بجائے پست سے پست ہی ہوتی گئی ہیں۔

مجھے لگ رہا ہے کہ بشری بی بی کی جہالت کے اثرات عمران خان پر بھی پڑنے شروع ہوچکے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان جمائما خان سے مشاورت کرنا شروع کردے، وہ کم از کم بہتر مشورے ضرور دے سکتی ہے

باباکوڈا
 

سیما علی

لائبریرین
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عمران خان نے اس ایشو کا بالکل غلط حل نکالا ہے۔ ریپ کیسز کو آپ سرے سے ختم نہیں کرسکتے، لیکن آپ قانون تو بنا سکتے ہیں جو ان جرائم پر سخت سزائیں دے سکیں۔ آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر بنا سکتے ہیں جو ریپ کیسز کے مجرموں کو فوری طور پر پکڑ سکیں۔ آپ عدالتی نظام ٹھیک کرسکتے ہیں جہاں ان مجرموں کو فوری طور پر سزائیں دی جاسکیں۔
مسلہ سوچ کا ہے ذہنی بیماروں کاہے درست بات ہے کہ جرائم پر سخت ترین عبرتناک سزائیں دے کر ان لوگوں کو انصاف دلا کر تو کی جاسکتیں جن کے ساتھ ظلم ہوا ہو نہ کہ ایسی باتیں کر کے !!!!!
 

سید عمران

محفلین
انڈیا میں چلتی بس میں ہونے والے مشہور گینگ ریپ کے مجرموں کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی ٹائٹ جینز کی وجہ سے ریپ کیا۔۔۔
ہر چیز کا سب سے بہترین جواب اس کے ماہرین کا ہوتا ہے۔۔۔
تو کیا اس بارے میں ریپسٹ کا بیان سب سے اہم ثابت نہیں ہوسکتا ؟؟؟
 

سید ذیشان

محفلین
انڈیا میں چلتی بس میں ہونے والے مشہور گینگ ریپ کے مجرموں کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی ٹائٹ جینز کی وجہ سے ریپ کیا۔۔۔
ہر چیز کا سب سے بہترین جواب اس کے ماہرین کا ہوتا ہے۔۔۔
تو کیا اس بارے میں ریپسٹ کا بیان سب سے اہم ثابت نہیں ہوسکتا ؟؟؟
ننھی زینب کو ریپ کرنے والے نے کیا بیان دیا تھا؟
 

سیما علی

لائبریرین
انڈیا میں چلتی بس میں ہونے والے مشہور گینگ ریپ کے مجرموں کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی ٹائٹ جینز کی وجہ سے ریپ کیا۔۔۔
وہ ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے !!انڈیا نے شروع میں اُسکو بڑی کوشش کی کہ وہ چھپ سکے !!!!!!
 

سید عمران

محفلین
وہ ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے !!انڈیا نے شروع میں اُسکو بڑی کوشش کی کہ وہ چھپ سکے !!!!!!
اس طرح کا ہر واقعہ دل دہلانے والا ہوتا ہے۔۔۔
اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے۔۔۔
جبھی تو ہم خواتین کے لیے اس مصیبت سے بچنے کی تدابیر بتلاتے رہتے ہیں کہ ان پر ایسا برا وقت کبھی نہ آئے!!!
 

جاسم محمد

محفلین
اُس کا جو بیان ہوگا وہ اپنی جگہ ہوگا۔۔۔
اور اِس کا جو بیان ہے وہ اپنی جگہ ہے!!!
ننھی زینب کو ریپ کرنے والے نے کیا بیان دیا تھا؟
مسلہ سوچ کا ہے ذہنی بیماروں کاہے درست بات ہے کہ جرائم پر سخت ترین عبرتناک سزائیں دے کر ان لوگوں کو انصاف دلا کر تو کی جاسکتیں جن کے ساتھ ظلم ہوا ہو نہ کہ ایسی باتیں کر کے !!!!!
ایسے جرائم کرنے والوں کو سخت سزائیں ملنی چاہئیں تا کہ عبرت کا نشان بنیں اور ایسے مزید جرائم کی روک ہو سکے۔
علما کرام وزیر اعظم کے اس متنازعہ بیان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی وزیر اعظم کا یہ بیان ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ معاشرہ کا ایک بڑا مذہبی طبقہ یہی خیالات رکھتا ہے
 

سید عمران

محفلین
علما کرام وزیر اعظم کے اس متنازعہ بیان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی وزیر اعظم کا یہ بیان ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ معاشرہ کا ایک بڑا مذہبی طبقہ یہی خیالات رکھتا ہے
لوگ چاہے جو بولیں، جو تاویلیں کریں، جو دلائل دیں۔۔۔
بڑھتے ہوئے ریپ کیس اس بات کے زمینی حقائق ہیں۔۔۔
پیٹرول کے قریب آگ لائی جائے گی تو تباہی کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں!!!
 

جاسم محمد

محفلین
لوگ چاہے جو بولیں، جو تاولیں کریں، جو دلائل دیں۔۔۔
بڑھتے ہوئے ریپ کیس اس بات کے زمینی حقائق ہیں۔۔۔
پیٹرول کے قریب آگ لائی جائے گی تو تباہی کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں!!!
دراصل جو بات وزیر اعظم نے کہی ہے اسے پاکستان کے بڑے مذہبی حلقہ کی تائید حاصل ہے۔ لیکن وہی بات مغرب یا مغربی طرز سے سوچنے والوں کے نزدیک شدید متنازعہ ہے۔ اسی لئے اس بیان کو عالمی میڈیا میں اتنا زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔
E8-AF201-A-17-A4-4-F36-8571-301-CADCCF8-E7.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
فرض کریں کہ آپ پورے پاکستان کی خواتین کو بشری بی بی کی طرح مکمل پردہ کروا دیتے ہیں، پھر بھی آپ موبائل پر موجود فحش مواد کو کیسے روک سکتے ہیں؟ یہ آج کے دور میں ممکن ہی نہیں۔
اصل چیز سوچ ہے اس لئیے اسلام اس پہ بے انتہا زور دیتا ہے !امامِ علی علیہ السلام فرماتے ہیں “مومن وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو مومن وہ ہے جس کی تنہائی پاک ہو.
 

علی وقار

محفلین
ریپ کی یہ واحد وجہ نہیں کہ جس کی جانب وزیراعظم کا اشارہ ہے۔ اگر یہ وجہ ختم کر دی جائے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ حکومت سارا ملبہ عوام پر ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ موٹروے پر زیادتی ہو تو خاتون دیر سے گھر سے کیوں نکلی؟ ریپ ہوا تو فلاں لباس کیوں پہنا؟ حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت کے لیے یہ جواز تلاش نہیں کر سکتی۔ یہ الگ بات کہ بطور مسلم میری خواہش ہے کہ معاشرے میں اسلامی اقدار کی ترویج ہو۔
 

سید عمران

محفلین
دراصل جو بات وزیر اعظم نے کہی ہے اسے پاکستان کے بڑے مذہبی حلقہ کی تائید حاصل ہے۔ لیکن وہی بات مغرب یا مغربی طرز سے سوچنے والوں کے نزدیک متنازعہ ہے۔ اسی لئے اس بیان کو عالمی میڈیا میں اتنا زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔
مغرب کی ان خواتین کا کوئی تذکرہ نہیں جو بے چاری روز ریپ کا شکار ہوتی ہیں!!!
 

جاسم محمد

محفلین
مغرب کی ان خواتین کا کوئی تذکرہ نہیں جو بے چاری روز ریپ کا شکار ہوتی ہیں!!!
مغرب میں جب خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں تو اس کا ذمہ دار ان کے لباس اور ڈھنگ کو نہیں بنایا جاتا۔ مغربی اکثریتی سوچ اس حوالہ سے یہ ہے کہ خواتین کو باپردہ کرنے کی بجائے مرد اپنی آنکھوں کا پردہ کریں۔

قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کہتی ہیں کہ جب وہ ان کے ساتھ تھے تو اس وقت ان کی سوچ بھی یہی تھی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
فحاشی اور بے پردگی ایک وجہ ہے اس سب کی۔ لیکن صرف یہی وجہ ء آخر نہیں ہے۔
اُن لوگوں کی نظروں کا کیا کیا جائے جو پردہ داروں کو بھی جسم کے آر پار دیکھتی ہیں؟
شاید پاکیزگی کا مطلب کچھ لوگوں نے صرف یہ لے رکھا ہے کہ نہا دھو لیا جائے، صاف ستھرے کپڑے پہن کر خوشبو لگا لی جائے۔ ضرورت روح کی غلاظت کو صاف کرنے کی ہے۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھنے کی ہے۔
عزت اور پاکدامنی صرف اپنے گھر کی خواتین تک ہی کیوں محدود ہے؟
 
Top