ورفعنالک ذکرک

ابن جمال

محفلین
مثل آفتاب خاموں کا سرمایہ ناز
کروڑوں توشاید،لیکن لکھوکھا بندے اللہ کے یقیناًایسے ملیں گے جواپنی نجات واوراپنی عقبیٰ شیخ عبدالقادر کی ذات سے وابستہ سمجھ رہے ہیں اورآج ہی نہیں سینکڑوں برس سے سمجھتے چلے آرہے ہیں۔ عقیدہ کی صحت وغلطی سے یہاں بحث نہیں۔مقصود نفس واقعہ کا اظہار ہے۔ ان کی زبانوں پر نام ہے تو غوث اعظم کا اوردلوں میں اعتقاد ہے تو محبوب سبحانی کا۔ لیکن ذراسوچ کر بتایئے کہ شیخ اوران کے سارے پیش رو اورپس رو حسن بصری اورجنید بغدادی،خواجہ اجمیری اورسید احمد سرہندی ،نظام الدین اورعلاء الدین صابرکلیری نازاں کس شئے پر ہیں؟اپنی سروری وسرداری پر یاعرب کے امی کی غلامی اورمکہ کے یتیم کی چاکری پر ؟اللہ اللہ جو خود لاکھوں کے سردار اورکروڑوں کے پیشواانہیں اگرفخر ہے توصرف اس کاکہ کسی آستان پاک کے جاروب کش ہیںاوربس!
دنیا میں اب تک بڑے بڑے جوگی اوررشی راہب اوراہل ریاضت گزرے ہیں'یہ امتیاز اوریہ اعزاز کسی اورکے حصہ میں آیاہے ؟کسی کے خادموں میں بھی ایسے ایسے آفتاب اورماہتاب اور وہ بھی اس کثرت سے ہوئے ہیں؟​
 

ابن جمال

محفلین
بے نظیرخدمت اورخادم​
امام بخاری کے مرتبہ اورعظمت سے کون ناواقف ہے ان کی کاوش وتحقیق کی نظیر کسی ملک ،کسی قوم میں ملتی ہے پھر انہوں نے اورانہیں کی راہ پر دوسرے صدہاچلنے والوں نے،امام مسلم نے،امام مالک نے امام ابودائود نے اورامام نسائی نے اپنی ساری ساری عمریں کس شغل کی نذر کردیں ،محض ایک امی ہی کے اعمال واقوال کے جمع کرنے میں !اورعسقلانی اورعینی،قسطلانی اورطیبی ،سخاوی اورشوکانی قاضی اورنووی اوران جیسے سینکڑوں دوسروں نے اپنی زندگیون کو کس چیز کیلئے وقف کررکھاہے؟اسی امی کے اقوال کی شرح وتفسیر اوراس کی جانب منسوب الفاظ کی تنقیح وتنقید کیلئے!ابن جوزی اورابن تیمیہ اورابن قیم (ان کی ساری زندگیوں کی تحقیق اورتدقیق کا خلاصہ کیاہے ؟بس اسی قدر نہ کہ فلاں فلاں بدعتیں اس امیۖ کی سنت کے مخالف ہیں۔ اورفلاں فلاں اقوال اس کی جانب منسوب کرنا اس پر افتراء کرناہے)۔اس پردئہ عالم پر ایک سے بڑھ کر ایک عالم وفاضل ،حکیم وفلسفی ادیب ومہندس پیداہوچکے ہیں دنیا نے اب تک ان میں سے کسی کے ساتھ،اس کا نصف بھی اعتنا کیاہے؟کسی افلاطون ،کسی سقراط ،کسی ارسطو ،کسی نیوٹن ،کسی کینٹ ،کسی ڈارون کے اقوال وملفوظات اس کاوش کے ساتھ جمع کئے گئے ہیں؟کسی کاایک ایک فقرہ ایک ایک قول ،ایک ایک لفظ اتنی سخت جرح اورموشگافیوں کے بعد ،پاکوں کے واسطہ سے اورسچوں کی شہادت سے یوں سلسلہ بہ سلسلہ منقول ہوکر پہنچاہے۔

نقوش سیرت کی حفاظت:​

ابن اسحاق اورابن ہشام،سہیلی اورزرقانی ،ابن سعد اورقاضی عیاض دمیاطی اورمغلطائی اورانکے صدہاشاگردوں اوررفیقوں کے ضخیم مجلدات آپ کی نظرسے اگرنہیں گزرے نہ سہی،ان کے ناموں کی شہرت تویقیناًآپ کے کانوں تک پہنچ چکی ہوگی۔ ان کامشغلہ زندگی کیارہا؟یہ کاہے میں جئے اورکاہے میں مرے؟اسی امی ملعم کائنات کی سیرت کا ایک ایک گوشہ محفوظ رکھنے میں،ان کی کتاب زندگی کی ایک ایک سطر حفظ کرنے میں اورمحض یہی نہیں''روش خیال ''میور اور''علم دوست''مارگولیس''''تحقیق پسند''کارلائل اور''حقیقت طراز''ولہاوسن کو کس کے سوانح نویسوں کی صف میں شمار ہونے کی آرزو بیقرارکئے ہوئے ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے گردن کش بادشاہ اورتاجدار ہوچکے ہیں،کسی کی سیرت اس تحقیق اوراس جزئی تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں کہیں بھی ملے گی؟کسی فرعون،کسی نپولین ،کسی سکندر ،کسی زار،کسی قیصر ،کسی دارا،کسی فغفور،کسی سلطان ،کسی مہاراجا،کسی ہزمجسٹی کااٹھنابیٹھنا چلناپھرنا سونا جاگنا،کھاناپینا،رونا،لیٹنا،بولنا اس جامعیت اوراس استقصاء ،اس تاریخیت اوراس اہتمام کے ساتھ کاغذکے نقش پر آج تک منتقل ہوسکاہے۔
 

ابن جمال

محفلین
امی کی شریعت کے شارح،اس کی وسعت​

امام ابوحنیفہ کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے،کون دل ہے جوآپ کی عظمت سے خالی ہے؟آپ خود الگ رہے ان کے شاگرد بلکہ ان کے شاگردوں کے شاگرداس پایہ کے تھے کہ معاصرین نے انہیں امام وقت تسلیم کیالیکن خود یہ امام ابوحنیفہ اورامام شافعی اورامام مالک اورامام احمد اوران کے احباب ورفقاء وتلامذہ ،سفیان ثوری اوراوزاعی ابویوسف اورمحمد ،زفر اورحسن حماد اورمزنی ،طحاوی اورسرخسی اورصدہاہزار فقہاء جواب تک ہوچکے ہیں ،یہ آخرگروہ درگروہ ،انبوہ درانبوہ کرتے کیارہے ہیں؟اسی ان پڑھ کے لائے ہوئے قانون کی شرح وتفسیر اوراسی حرف شناس کی بتائی ہوئی شریعت کے فروع کا حل اورجزئیات احکام کا استنباط دنیا میں آخر اوربڑے بڑے امیر،وزیرقانون ساز،قانون گر،مدبرین سلطنت گزرے ہیں کیاان میں سے کسی کو ایسے اوراتنے شارحین نصیبت ہوئے ہیں؟یونان ،ہندوستان مصر وغیرہ کو چھوڑیئے ،روم کو لیجے کہ اس کا رومن لاء آج خدامعلوم کتنے دماغوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیںجوبسط ووسعت اسلامی فقہ کو حاصل ہے۔ رومن لا غریب کو اس کا عشرعشیر بھی تونصیب نہیں ہے۔

نعت گوشعراء​

مثنوی شریف آج بھی کتنے دلوں کومست کئے اورکتنی محفلوں کو گرمائے ہوئے ہے،یہ مولانا ئے رومی اورخواجہ حافظ،سعدی شیرازی اورنظامی گنجوی ،خسرو اورجامی ،سنائی اورعطار ،صدیوں سے کس کے نام پر سردھن رہے ہیں؟کس کے پیام کی ترجمانی کررہے ہیں؟کس بڑے کا سہارا پکڑ کر خود بھی بڑے بن چکے ہیں؟وہی بادیہ عرب کابوریہ نشیں ،جوشاید شعرموزوں پڑھ بھی نہیں سکتا تھا اورجس کیلئے شاعری موجب فخر نہیں باعث ننگ تھی۔وماعلمناہ الشعروماینبغی لہ ۔دنیا کے بڑے سے بڑے شاعروں نے آج تک کس کا اس طرح استقبال کیاہے؟کس بادشاہ کی شان میں اس عقیدت قلب کے ساتھ ،اس ارادت وخلوص کے ساتھ ،اس سوزوگداز کے ساتھ ،قصائد لکھے ہیں، کسے یوں بے تاب ہوہوکر پکارا ہے،ہومر کے امرء القیس کے ،فردوسی کے،والمیک کے، شیکسپئر کے،ملٹن کے،گوئٹے کے،کالیداس کے، کسی خطہ اورکسی زمانے کے شاعر کے نام کو،پیام کو ،کلام کو یہ مقبولیت،یہ مرتبہ نہ سہی، اس کا آدھا،چوتھائی دسواں حصہ نصیب ہواہے۔
 

ابن جمال

محفلین
کس شمع کے پروانے تھے؟​

عمرفاروق اورعلی مرتضیٰ کے نام سے کیسے کیسے سورمائوں کے کلیجے دہل دہل کررہے،خالد سیف اللہ کی شمشیر اورابن عاص کی تدبیروں نے پتھروں کو پانی کرکے بہادیا۔لیکن یہ سب خود کس شمع کے پروانے تھے؟کس کے آستانہ پر جبیں سائی سے رفعتیں اوربلندیاں حاصل کرتے رہے؟ہارون اومامون،سلجوق اورویلم ،غزنوی وغوری ،تیموروبایزید،عثمان وسلیم ،طارق وقاسم ،لودی وخلجی،تیموروبابر،ہمایوں وجہانگیر،شاہ جہاں واورنگ زیب کس کی خاک بوسی کو ،سداپنے لئے معراج کمال اوروسیلہ نجات سمجھے،دکن کا موجودہ صاحب سریرکس کے اشتیاق وتمنا میں گرم آنسو بہاتا اورسرد آہیں بھرتا رہتاہے؟بے سروسامان ریفیوں نے کس کے دین کی غیرت میں اسپین اورفرانس دودوسلطنتوں کا چیلنج قبول کرلیا؟انور نے کس کی امت کی خاطر جان تک نذرکردی؟محمودالحسن کو کس کے نام کی عزت وناموس نے دردرپھرایا۔گھر سے بے گھر کرایا،نظربند کرایا؟محمد علی کس کی امت کے غم میں دیوانہ وار جلاوطن ہوا،نظربند ہوا،جیل میں کئی سال کاٹے؟سب کے جواب میں ایک بار پھر اسی عبداللہ کے لخت جگر اورآمنہ کے نورنظرکا نام لیاجائے گایاکسی اورکا؟

بے نظیر علم کلام کس پیام کیلئے​

غزالی کی تصانیف پر خود انہیں رشک آگیاہے جن پر ہم آپ رات دن رشک کرتے رہتے ہیں۔بہ قول جارج ہنری ایٹس(صاحب تاریخ فلسفہ)کے اگرغزالی کی تصانیف کا ڈیکارٹ کے وقت تک ترجمہ ہوگیاہوتا تو لوگ ڈیکارٹ کے فلسفہ کو غزالی کاہی سرقہ سمجھتے۔یہ غزالی اوران کے آثارقدم پر چلنے والے، شاہ ولی اللہ دہلوی، اورحکیم الامت اشرف علی تھانوی وغیرہم نے علم اسرارالدین اورمعالجہ امراض نفسانی پر جو دفتر کے دفتر تیار کردیئے ہیںان کا حاصل اورلب لباب کیاہے۔بس اسی نبی امی کے لائے اورپھیلائے ہوئے دین کی حمائت اورنصرت اوراس کی تبلیغ وترویج ،ابوالحسن اشعری اورابوبکر باقلانی ،رازی اورآمدی،نسفی اورجرجانی نے عقائد وکلام میں تصانیف کاجوانبار لگادیااوران کے جانشیں جس طرح ہر دور میں پیداہوتے رہے،یہاں تک کہ آج چودہویں صدی کے وسط میں بھی جو کام ہورہاہے اس پایہ کا علم کلام کسی شخصیت کے اردگرد پیداہوسکاہے؟کون سی تاریخی ہستی اتنازبردست اوراس قدر وسیع کلامی لٹریچر پیداکرسکی ہے؟
 

ابن جمال

محفلین
تفسیر کے میدان میں خدمت
(یہاں رجعت کا لفظ تھا جو شاید کمپوزنگ کی غلطی ہوگی)

مفسرین کرام کے نام اوران کے کارنامے کس پر ورشن نہیں۔ تابعین میں ضحاک اورقتادہ مجاہد اورابن زید نے معانی قرآن کی جو خدمت کی اس کاصلہ کس کے امکان میں ہے۔ ابن جرید کے تیس مجلدات کو کون بھول سکتاہے۔ ابن کثیر کی کاوش وجستجو کی داد کون دے سکتاہے۔ بیضاوی اورزمخشری کی قدر کس کے دل میں نہیں، بغوی اورنسفی ،ابن حیان اورابوسعود نے اپنی عمریں کس کی خدمت کیلئے وقف کردیں۔چشتم تصور دیکھ رہی ہے کہ یہ سب کے سب،اپنے اپنے مجلدات اوراسفار لئے ہوئے ایک امی کی خدمت میں دستہ بستہ اس کی نگاہ کرم کے منتظر کھڑے ہوئے ہیں اوران کی بڑی سی بڑی آروز ہے ،تویہ کہ اس کے قدموں پر نثار ہوجائیں۔

نحو ولغت،خدمت مبی کی ایک صورت​

نحو ولغت کی طرف آیئے توایک سے بڑھ کر ایک امام فن نظرآئیں گے۔ ایسے کہ جن پر خود فن کو ناز ہے، کسائی اورابوالاسود دوئلی ،خلیل اورسیبویہ،ابن مالک اورابن حاجب ،ابن درید اورابن میدہ،زمخشری ومطرزی،جوہری وفیروزآبادی ،ابن منظور وزبیدی کسی نے صرف پر لکھا کسی نے نحو پر،کسی نے لغت کو اپنا موضوع رکھا لیکن ان تمام پردوں کے پیچھے مقصود اصلی سب کا کیارہا۔وہی دین کی خدمت، امی کے لائے بتلائے ہوئے دین کی خدمت کیا دنیا میں امیوں اوران پڑھوں کو یہی مرتبے حاصل ہواکرتے ہیں۔ امیوں کو چھوڑیئے جو زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے گزرے ہیں ان میں سے کسی کو ایسے شارح،ایسے خادم نصیب ہوئے ہیں۔ معانی اوربدیع پر لکھنے والوں کی تعداد اس فہرست پر مستزاد۔

حکیم اورفلسفی​

سب سے آخر میں فلسفیوں کو لیجئے، فلسفی بھی بھلاکسی کے ہوئے ہیں؟لیکن یہاں کیاہے کہ ابن سینا وابن رشد،طوسی وفارابی ،رازی وشیرازی سب کے سب اسی زلف کے اسیر ،سب کی عقیدتوں کے دامن امی کے بندنعلین سے وابستہ !کتنے علوم وفنون کے نام گنائے جائیں ؟زندگی کے کن کن شعبوں کو روشنی میں لایاجائے؟قوت اورصولت کے کن کن پہلوئوں کو شمار کیاجائے۔ سرداروں اورناموروں کے نام، شہادت میں کہاں تک پیش کئے جائیں کہ
جملہ ترکان جہاں ہندوے تو!


مدارس میں ذکر​

مصر کے جامع ازہر اورآزاد اسلامی ممالک کے مدرسوں کو چھوڑیئے ،غلام اوربے نواہندوستان میں 'جہاں عربی کے سکہ کا چلن کسی بازار میں بھی نہیں،یہ آخر ندوہ اوردیوبند کے سے عظیم الشان مدارس کس کانام لئے ہوئے چل رہے ہیں،جامعہ ملیہ کس کی امت کی خاطر زندہ ہے؟علیگڈھ آزادیوں کے دعوے کے باوجود ،کس کے دین وائین کی پابندیوں پر نازاں ہے؟
 

ابن جمال

محفلین
کس وقت بلندی کا اعلان ہورہاہے

ہندوستان کے چھوٹے چھوٹے قریوں اورموضعوں ،عرب کے ریگستان اورچٹیل میدان،اورافریقہ کے صحراوبیابان سے لے کر،لندن اورپیرس اوربرلن کے تمدن زاروں تک ،ہرروز اورہرروز میں بھی پانچ پانچ بار کس کے نام کی پکار،اللہ کے نام کے ساتھ بلندہوتی رہتی ہے۔ اپنی ذاتی عقیدت مندی کو الگ رکھئے، محض ایک خالی الذہن اورناطرفدار تماشائی کی حیثیت سے محض واقعات پر نظرکرکے فرمائیے کہ یہ مرتبہ یہ اکرام دنیا کی تاریخ معلوم سے لے کر آج تک کسی ہادی ،کسی رہبر،کسی مخلوق کو حاصل ہواہے؟جس بے کس اوربے بس سے عین اس وقت جب کہ اسے زور اوروقت والے سرداران قریش اپنے خیال میں کچل کر اورپیس کررکھ چکے تھے اوراس کانام ونشان تک مٹاچکے تھے یہ وعدہ ہواتھاکہ

ورفعنالک ذکرک

ہم نے تیرے لئے تیراذکر بلند کررکھاہے۔اگرآوازہ اس کا بلند نہ ہوگا تواور کس کاہوگا۔نام اس کا سرفراز اورسربلند نہ ہوگا تواورکس کاہوگا۔بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے جو اوراق لیل ونہار پر ساڑھے تیرہ سوبرس سے ثبت چلی آرہی ہے۔چشم روزگار اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے اورخدامعلوم کب تک اسی طرح پڑھتی رہے گی۔حشرکے دن عنداللہ اس بندہ کا جومرتبہ ہوگا وہ توہوگاہی ،اس سے قطع نظر کرکے،ذرا صرف اس مرتبہ کاتصور کیجئے جو محض اس بلندی ذکر کے لحاظ سے اس روز حاصل ہوگا۔ فوج کی فوج ،انبوہ درانبوہ،ادھر سے ملوک وسلاطین چلے آرہے ہیں ،ادھر سے بڑے بڑے نامور جنرل اورسپہ سالار۔ایک طرف سے محدثین کرام جوق درجوق چلے آرہے ہیں اوردوسری طرف مفسرین عطام ،اہل فقہ ،اہل اصول ،اہل کلام،اہل تصوف ،اہل لغت،اہل سیر،اہل رجال،اہل نحو،اہل معانی ،اہل بیان، اہل فلسفہ،اہل منطق،اہل اخلاق جس فن کوبھی لیجئے، اس کے ائمہ وماہرین ادب سے آنکھیں نیچی کئے ،ہاتھ باندھے ہوئے خادمانہ انداز سے گردوپیش حلقہ کئے ہوئے ہیں،ایک اسی انعام کی پوری وسعت کا تصور کس کے بس کی بات ہے۔
 
Top