وحشت کے اس شور کو مجھ میں مر جانے دے تھوڑی دیر - عزیز نبیل

شمشاد

لائبریرین
وحشت کے اس شور کو مجھ میں مر جانے دے تھوڑی دیر
سوکھ گیا ہے سوچ کا دریا بھر جانے دے تھوڑی دیر

کب تک دشت نوردی یا رب کتنے جنگل کاٹوں گا
اچھا لوٹ کے آ جاؤں گا گھر جانے دے تھوڑی دیر

ٹھنڈی رات اور ماہ دسمبر ٹوٹا پھوٹا میرا گھر
تاریکی میں چھولے آ کر ڈر جانے دے تھوڑی دیر

تیری یاد میں تارے گنتے بیت گئی ہے ساری رات
صبح ہوئی وہ سورج نکلا مر جانے دی تھوڑی دیر

کوئی نیا انداز جفا اے قریۂ جاں کے باشندے
تشنہ آنکھیں جان بہ لب ہیں بھر جانے دے تھوڑی دیر

اس کوچے سے جو بھی گزرے پاگل ہو جاتا ہے نبیل
مجھ کو خبر ہے ساری حقیقت پر جانے دے تھوڑی دیر
(عزیز نبیل)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
وحشت کے اس شور کو مجھ میں مر جانے دے تھوڑی دیر
سوکھ گیا ہے سوچ کا دریا بھر جانے دے تھوڑی دیر

واہ! لاجواب کلام ہے۔
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top