واقعی ہزارہ مظلوم، صابر اور مہذہب قوم ہیں

ایس ایم شاہ

محفلین
واقعی ہزارہ مظلوم، صابر اور مہذہب قوم ہیں
تحریر: ایس ایم شاہ
ابھی تک ہزارہ برادری کے 2500 افراد شہید اور 8000 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشتگرد اس قوم کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس قوم کی سینکڑوں بچے یتیم، سینکڑوں بہنیں بے سہارا، سینکڑوں عورتیں بیوہ، سینکڑوں والدین بے آس و مددگار اور سینکڑوں گھر اجڑ چکے ہیں، ان کے قبرستان بھر چکے ہیں، بہت سارے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اس کمیونٹی کے افراد راستے کی تمام تر صعوبتیں برداشت کرکے آسٹریلیا میں پناہ گزیں ہوچکے ہیں۔ پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی پر مشتمل یہ قوم اب گھروں تک محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ قوم جو زندگی کے ہر شعبے میں پاکستان بننے سے اب تک ملکی سربلندی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیتی آئی ہے، اب اس کمیونٹی کے افراد کی حالت زار یہ ہے کہ صبح محنت و مزدوری اور کسب معاش کی خاطر گھروں سے نکلتے وقت ایسی کرب کی حالت ان پر طاری ہو جاتی ہے کہ شام کو گھر واپس لوٹنے کے امکانات بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں، گھروں میں موجود ان کی خواتین اس خوف کی حالت میں دن گزار دیتی ہیں کہ کہیں دن ڈھلنے سے پہلے میرے بیٹے، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر نہ سنائی دے۔
ہزارہ قوم کی مظلومیت ذرا ملاحظہ کیجئے کہ کبھی ان کو دکانوں میں گھس کر بھون دیا جاتا ہے تو کبھی بسوں سے اتار کر گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، کبھی ان کے ماتمی جلوسوں پر خودکش حملے کرکے سینکڑوں ماتمیوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا جاتا ہے تو کبھی ان کے ہوٹلوں میں دھماکے کرکے دسیوں افراد کو شہید کیا جاتا ہے۔ نیا سال 2021ء بھی ہزارہ قوم کے لئے مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے کا سال قرار پایا۔ اب کی بار تو ظالم دہشت گردوں نے ظلم کی ایک نئی داستان رقم کر دی ہے۔ مچھ میں اپنی محنت مزدوری اور رزق حلال کے حصول کے لئے گئے ہوئے ہزارہ برادری کے 11 جوانوں کو پہلے وہاں سے اغوا کیا گیا، حکومت کو اس کی خبر تک نہ ہو پائی، پھر ان کو ایک مخصوص مقام پر لے جا کر ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے گئے، حکمران اب بھی حزب اختلاف پر کیچڑ اچھالتے رہے۔ بعد ازاں ان کو خنجر سے بے دردی سے ذبح کیا گیا۔ پھر بھی حاکم وقت ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
آخر ہر طرف سکیورٹی اہل کار ہونے کے باوجود مچھ جو کہ بہت ہی چھوٹی سی بستی ہے، دہشتگردوں کو ہزارہ برادری کے وہاں ہونے کا علم کیسے ہوا، کیسے وہاں کان میں گھس گئے، کیسے حملہ آور ہوئے اور کیسے ان سب کو اغوا کرنے کے بعد آرام سے اپنے مطلوبہ مقام پر لے جانے اور خنجر سے ان کا گلا کاٹ کر ان کی میتوں کو چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے؟! یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا جواب آج تک ہمارے سکیورٹی اور دنیا کے نمبر ون اطلاعاتی ادارے نہ دے پائے۔ ہزارہ برادری کا اتنا قتل عام ہوا ہے کہ اب تو بعض بہنیں یہ فریاد کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ہمارے گھر میں جنازہ اٹھانے والا کوئی مرد باقی نہیں بچا۔ لہذا ہم 6 بہنوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بھائی کے جنازے کو ہم بہنیں ہی مل کر سہارا دیں گی۔ تو دوسری طرف منفی 7 ڈگری کی اس ٹھٹھرتی سردی میں 75سالہ باپ اپنے اکلوتے بیٹے کے جسد خاکی پر اپنی آخری امید کے چھن جانے پر سات دنوں سے ماتم کناں دکھائی دیتا ہے۔
کالج کے ہونہار طالب علم مشتاق حسین کی مظلومانہ شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ جس نے میٹرک کے امتحان میں 1053 نمبر لیکر بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اپنی کالج فیس کی ادائیگی کی خاطر رزق حلال کے حصول کے لئے چھٹیوں میں مچھ کا رخ کیا تھا۔ اب وہ جب واپس پہنچے تو فیس کی بجائے ہاتھ پیر بندھے، گلے پر خنجر کے نشان لے کر آئے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک کا سیکولر مائنڈ حکومتی ایجنٹ عبد الخالق ہزارہ تھوڑی سی رقم میں شہداء کے خون کا سودا کرنا چاہتا ہے۔ جسے حکومت نواز میڈیا بھی خوب اچھال رہا ہے۔ جو شہداء کے لواحقین، علمائے کرام اور ہزارہ عمائدین کو ہرگز منظور نہیں۔ تمام تر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالنے کے باوجود بھی ان محب وطن شہریوں نے آج تک نہ ملک کے خلاف کوئی بات کی، نہ پاک فوج کے خلاف آواز بلند کی، نہ کسی ملکی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا، نہ کسی سرکاری عہدے دار کی بے عزتی کی، نہ آج تک اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے کسی سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو کوئی نقصان پہنچایا اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام کیا۔
یہ مظلوم اور صابر قوم پہلے بھی سو سے زیادہ شہداء کے جسد خاکی کو سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کرتی رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی ان کے قتل عام کا سلسلہ ابھی تک نہ تھم پایا۔ عربی مقولہ ہے: "رئیس القوم خادمھم" یعنی کسی بھی قوم و ملت کا سربراہ درحقیقت اس قوم کا خادم ہوا کرتا ہے۔ اب شہدائے قوم کے لواحقین بھی اپنے رئیس مملکت سے فقط یہی تقاضا کر رہے ہیں کہ وزیراعظم صاحب یہاں تشریف لے آئیں تو ہم فوری اپنے شہداء کی تدفین کر دیں گے۔ ان لواحقین کی آہیں اور سسکیاں دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہے، لیکن معلوم نہیں کہ وزیراعظم اتنے لیت و لعل سے کام کیوں لے رہے ہیں؟! اگر عمران خان صاحب نے اس المناک سانحے کے دن ہی وہاں حاضر ہوکر ان لواحقین کے غم بانٹ لئے ہوتے تو اسی دن ہی ان شہداء کی تدفین بھی ہوچکی ہوتی۔ معلوم نہیں وزیراعظم کی راہ میں کونسی غیر مرئی طاقتیں سد راہ بنی ہوئی ہیں، جو ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود بھی وزیراعظم صاحب کو وہاں حاضر نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ حزب اختلاف میں ہونے کے باوجود بھی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز صاحبہ نے وہاں حاضر ہو کر ان مظلوموں کے غم بانٹ دیئے اور ان کے دل جیت لئے۔ ان کا یہ اقدام بہت ہی لائق تحسین ہے۔
وزیراعظم کو فوری کوئٹہ جانا چاہیئے، ورنہ یہ بات تاریخ پاکستان میں رقم کر دی جائے گی کہ ایک واحد اٹامک اسلامی ملک کے حکمران کو گیارہ شہداء کی بے گور لاشیں کوئٹہ مغربی بائی پاس سے مدت مدید تک پکارتی رہیں کہ وہ یہاں حاضر ہوکر ہمارے اجلے ملبوس کو کھول کر ہتھکڑیوں سے بندھے ہاتھوں پر زخم اور گلے پر موجود خنجر کے نشانات کا خود مشاہدہ کریں، تاکہ ان کا دل موم ہوکر آئندہ کے لئے بلند و بانگ اعلانات پر اکتفا کرنے کی بجائے ایسی حکمت عملی تشکیل دیں کہ جس کے تحت تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور ان شہیدوں کے خون کے باعث آئندہ ہزارہ برادری اور دوسرے پاکستانیوں کا خون محفوظ ہوسکے۔ لیکن وہ حکمران اتنے مجبور اور بے حس ہوچکے تھے کہ آخری وقت تک وہاں حاضر ہونے کی اخلاقی جرأت نہ کرسکے۔ بنابریں ان شہیدوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ دنیا میں تو ہمیں تحریک انصاف کی حکومت سے انصاف نہ مل سکا۔ لہذا ہم داور حشر کے سامنے اپنے حاکم وقت کا گریباں ضرور پکڑ لیں گے۔
https://www.islamtimes.org/ur/artic...0TJrOxb0XVz6R5CB9z4cx1TSXYBmen7kqDUPIvNgZqFEA
 
Top