واصف علی واصف

ظلم۔
ظلم کا تعلق مظلوم کے احساس سے ہے،کسی ظالم کا کوءی عمل اس وقت تک ظلم نہیں کہلاءے گا،جب تک مظلوم اس عمل سے پریشان نہ ہو۔
دراصل کسی شے سے خلاف فطرت کام لینا ظلم ہے،جو شے جس کام کے لیے تخلیق کی گی اس سے وہی کام لینا چاہیے۔اس کے بر عکس ظلم ہے۔کسی انسان سے اس کے مزاج کے خلاف کام لینا ظلم ہے،جبر ہے، اس سے انسان کے اندر ایک حبس کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے،اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور پھر یہ جمود اندر ہی اندر لاوے کی طرح کھولتا ہےاور کسی نا معلوم لمحے میں ابل کر وہ لاوا باہر آ جاتا یے اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوءے تباہ کر دیتا ہے۔
ظلم کا پہیہ اس وقت تک جام نہیں ہوتا جب تک معاف کرنا اور معافی مانگنے کا حوصلہ اور شعور پیدا نہ ہو۔بدلہ لینے کی تمنا ظلم کی اساس ہے،معاف کر دینے کی آرزو،ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ظلم توڑنے والے پرانی باتوں کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ظلم کے ساتھ ،ظالم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟
پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ''حضرت یوسف علیالسلام کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا بدلہ یہی تھا،کہ جاوُ کہ آج کے دن کے لیے تمہارے کوءی سزا نہیں ہے۔فتح مکہ کے بعد آپ کے پرانے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ جاوُ تم سب کے لیے آج کوءی سزا نہیں۔
اگر معاشرے میں معافی مانگنے اور معاف کرنے کا عمل شروع ہو جاءے تو ظلم رک جاتا ہے۔خود پسندی ترک ہو جاءے تو ظلم رک جاتا ہے۔انا کا سفر ختم ہو جاءے تو ظلم رک جاتا ہے۔ہر وہ شخص جو اللہ سے معافی کا خواستگار ہے،اسے سب کو معاف کر دینا چاہیے۔جس نے معاف کیا وہ معاف کر دیا جاءے گا۔دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد ختم ہو جاتی ہے۔حق والے کا حق ادا کرو۔بلکہ اسے حق سے بھی ماسوا دو۔بس اتنے سے عمل سے ظلم ختم ہو جاءے گا۔جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں۔وہی معاشرہ فلاحی ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
یہ جو درویشوں کے مکتبہءفکرسے تعلق رکھنے والے ہیں واصف علی واصف صاحب ، بابا(اشفاق احمد)
بانوآپا(بانوقدسیہ) ان کا اندازفکراورتحریریں وہ چراغ ہیں جن سے زندگی کے مشکل اورپیچیدہ معاملات میں
رہنمائی ملتی ہے- اس تحریر کو شئیر کرنے کا شکریہ- اللہ تعالٰی آپ کو خیرِکثیرعطا فرمائے
 
Top