وادی کمراٹ کیسے پاکستان کا سویٹزر لینڈ بن سکتا ہے

جاسم محمد

محفلین
وادی کمراٹ کیسے پاکستان کا سویٹزر لینڈ بن سکتا ہے
09/08/2019 فاتح ملک

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے انتہاء قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ساری دنیا سے مختلف ہیں۔ اس کی ایک وجہ دنیا کے تین بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کا پاکستان میں ہونا ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ اس ملک خداداد کی حسین وادیوں سے ہم وہ فائدہ نہ اُٹھا سکے جو اُٹھانا چاہئے تھا۔ یورپ کے کئی ممالک مل کر بھی سیر و سیاحت کے وہ مقامات پیدا نہیں کر سکتے جن سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو نوازا ہے۔



کوہستان کا علاقہ قدرتی حسن، صاف شفاف چشموں، بہتے دریاوں، آبشاروں،جھرنوں، سبزہ زاروں اور جنگلات کا مرکب ہے۔ کوہستان کے علاقہ میں پاکستان کے سب سے بڑے قدرتی سیاحتی مقام وادی کاغان اور وادی سوات بھی واقع ہیں۔ پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سوشل میڈیا نے جس طرح سے ان علاقوں کا تعارف کروایا ہے یہ جگہیں اس تیزی سے آباد بھی ہو گئی ہیں اور برباد بھی ہو گئی ہیں۔ وادی کمراٹ بھی کوہستان کے علاقہ میں واقع ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں سیاحت کے فروغ کے لئے کافی اقدامات اُٹھائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سیاحوں کی آمد و رفت پچھلے چند سالوں سے دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

وادی کمراٹ ایک گمنام وادی کی سی حیثیت رکھتی تھی لیکن 2016 میں عمران خان کے ہیلی کاپٹر میں یہاں آنے کے بعد اس وادی کو ایک نئی زندگی حاصل ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال عید الفطر کی تعطیلات کے دوران تقریباً دو لاکھ سیاحوں نے وادی کمراٹ کا رخ کیا۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

وادی کمراٹ پاکستان کے دیگر شمالی علاقہ جات کے برعکس ایک نیا سیاحتی مقام ہے۔ قدرتی حسن سے مالا مال یہ وادی سوات اور چترال کے درمیان واقع ہے۔ ضلع دیر بالا کی حدود میں موجود یہ وادی دریائے پنجکورہ کے کنارے آباد ہے۔ اس وادی تک پہنچنے کے تین راستے ہیں۔



پہلا راستہ دیر بالا سے جاتا ہے ۔ پشاور سے دیر بالا جاتے ہوئے دیر بالا سے چند کلومیٹر قبل ایک راستہ سڑک کے دائیں جانب وادی کمراٹ کو مڑتا ہے۔ دریائے پنجکورہ کے کنارے ایک نئی سڑک موجود ہے جو شرینگل سے ہوتی ہوئی وادی کمراٹ تک جاتی ہے۔ پاتراک مقام تک سڑک بہت اچھی ہے۔ اس کے بعد تھل تک بھی سڑک ہے جو کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تھل یا ٹل کا قصبہ وادی کمراٹ کا بیش کیمپ قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسرا راستہ سوات، کلام ، اتروڑ سے ہوتا ہوا بڈگوئی ٹاپ سے تھل تک جاتا ہے اور وادی کمراٹ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ راستہ 4*4 جیپ کا راستہ ہے۔ (اس راستہ سے آپ وادی کمراٹ سے سوات بھی جا سکتے ہیں۔ اور ایک ٹرپ میں دو مزے بھی لے سکتے ہیں)

تیسرا راستہ وادی چترال سے پیدل ٹریکنگ اور ہائیکنگ کا راستہ ہے۔ جو کہ دشوار تو ہے لیکن اپنی خوبصورتی میں ایک مثال ہے۔ ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے شوقین افراد صرف اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔



وادی کمراٹ پوری کی پوری ہی ایک پُر افزاح مقام ہے۔ دریا کے کنارے قائم ہوٹل اور کیمپ آپ کو دنیا کے جھمیلوں سے دور لے جانے ریفریش کرنے کے لئے بہترین علاج ہیں۔



وادی کمراٹ کے مقبول سیاحتی مقام سراج آبشار، کالا چشمہ ہیں۔ اسی طرح بڈگوئی ٹاپ پر بھی جیپ سے جایا جا سکتا ہے۔ وادی کمراٹ میں مشہور جھیل ’’کٹورہ جھیل‘‘ بھی واقع ہے۔ جہاں تک پہنچنے کے لئے ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے ذریعہ جایا جا سکتا ہے۔ پچھلے چند سال سے یہ جھیل سیاحوں میں کافی مقبول ہو چکی ہے۔ یہاں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر کے مرد و خواتین بھی جانے لگ گئے ہیں۔ یہاں تک جانے کے لئے تھل سے بذریعہ جیپ ٹکی بانڈہ جا سکتا ہے۔

ٹکی بانڈہ سے تقریباً 3 سے 4 گھنٹے کی ہائیک کے بعد جہاز بانڈہ پہنچا جا تا ہے۔ (بانڈہ سے مراد وہ سر سبز چراگاہ ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ آباد ہوں)جہاز بانڈہ میں متعدد ہوٹل، ریسٹ ہاوس اور کیمپ موجود ہیں۔ جہاں آپ رات گزار سکتے ہیں۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا یہ مقام ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔جہاز بانڈا کے دامن میں ایک خوبصورت آبشار بھی واقع ہے۔ جہاز بانڈا میں عموما لوگ رات گزارتے ہیں۔ جہاز بانڈہ سے تقریباً 3 گھنٹے کی ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے بعد خوبصورت کٹورہ جھیل واقع ہے۔



وادی کمراٹ میں تھل کے مقام پر ایک پرانی مسجد بھی واقہ ہے۔ جو بعض مقامی روایات کے مطابق 300 اور بعض کے مطابق 500 سال پرانی ہے۔ وادی کمراٹ میں بہتے دریائے پنجکورہ میں ٹراوٹ فش بھی وافر تعداد میں موجود ہے۔

وادی کمراٹ ایک نسبتاً نیا سیاحتی مقام ہے جس کی طرف پہلے لوگوں کی توجہ کم تھی لیکن دن بہ دن اس وادی میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ آج سے چند سال پہلے تک لوگوں کی اس مقام کی طرف توجہ نہیں تھی اس وجہ سے یہاں پر ابھی وہ سہولیات موجود نہیں ہیں جو ناران، کلام، گلگت، ہنزہ ، مری وغیرہ میں سیاحوں کو حاصل ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس علاقہ میں باقی سیاحتی مقامات کی طرح گندگی بھی بہت کم ہے۔ سوشل میڈیا کے اس زمانہ میں کسی جگہ کا راتوں رات مشہور ہوجانان کوئی عجوبہ نہیں۔ جو لوگ سیاحت کے شوقین ہوتے ہیں وہ نئی سے نئی جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ چونکہ چند برس پہلے تک اس وادی کی طرف توجہ نہیں تھی اس وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے تھے۔ لیکن اب چونکہ یہ وادی مشہور ہو گئی ہے اس لئے ہر آنے والے سال یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

چند روز قبل جب سیر کی غرض سے چند دن گزارنے وادی کمراٹ کا رخ کیا اور یہاں کی خوشگوار آب و ہوا اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی سے خوب لطف اندوز ہونے کا موقع ملا تو ساتھ ہی یہ خیال دل میں بار بار دستک دیتا رہا کہ کاش! حکومت ابھی اس طرف توجہ کر لے اور اس جگہ کو مری، ناران، سوات، کلام وغیرہ کی طرح کچرا دان بننے سے بچا لے۔ وادی کمراٹ کو نیشنل پارک قرار دینے اور یہاں ترقیاتی منصوبہ جات کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ Tourist Awareness کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں اور سیر و سیاحت کے لئے آنے والوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اس کے قدرتی حسن کو برباد نہ کریں۔


ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جس کے پاس جتنی بڑی ڈگری ہے اور جتنا زیادہ پیسہ ہے وہ اسی قدر ہی جاہل ہے۔ شمالی علاقہ جات جانے کا اتفاق بے شمار دفعہ ہو چکا ہے اور ہر بار اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان قدرتی مقامات کو سب سے زیادہ نقصان ان ’’بڑے‘ سمجھے جانے والے لوگوں نے پہنچایا ہے۔ وادی کمراٹ سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سب سے زیادہ کمی کچرے کو ٹھکانے لگائے جانے کی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جہاں ٹورازم کو پروموٹ کیا جا رہا ہے وہاں کسی کچرا ٹھکانے لگانے والی کمپنی کو سب سے پہلے ٹھیکہ دیا جائے تاکہ شروع سے ہی اس پر قابو پایا جا سکے۔

کمراٹ کی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو متعارف کروانے کی حکومتی پالیسی قابل ستائش ہے۔ لیکن خدارا ان مقامات کو یورپ کے سیاحتی مقامات کی طرح آلودگی اور گندگی سے بچائیں۔ سویزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت علاقے ہمارے ملک پاکستان میں ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ جب بھی کوئی علاقہ عوام کی توجہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ اپنی بربادی کا آپ سامان کر لیتا ہے۔ میری حکومتی اداروں سے درخواست ہے کہ کمراٹ ابھی تک نسبتا سب سے زیادہ صاف اور حسین ہے۔ اس کی سیاحت کو فروغ دیں تاکہ مقامی لوگوں کے دن بھی پھریں اور ملک کا مثبت تعارف بھی ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو مری، ناران، کلام اور گلگت بننے سے بچا لیں!
 
Top