وائی فائی

محمد خرم یاسین

مجھے کل ایک بڑےادارے کی طرف سے ایک انعام دیا گیا۔ اس خبر پر صرف میرے گھر والوں نے خوشی منائی، کسی دوست کی جانب سے نہ کوئی لائیک آیا اور نہ ہی کمنٹ۔ میرے دل میں کچھ اداسی تھی اور کچھ کچھ بے چینی ۔۔۔ لیکن اس بات کی خوشی بھی کہ میرے بچے جن کے چہرے دمک رہے تھے، ایک میرے کاندھے پر چڑھ گیا تھا اور ایک ہاتھ پکڑے پارٹی کی فرمائش کر رہا تھا۔ میں نے انھیں بازوؤں میں جُھلایا۔
"آپ کو اتنے دن بعد تو فراغت ملی ہے، کہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔"
بیگم کی فرمائش پر ہم گھر سے سیر کے لیے روانہ ہونے کےلیے تیار ہونے لگے۔ موسم کے حالات اچانک بگڑ گئے اور موسلا دھار بارش سے قبل طوفانی ہواؤں نے ہمیں گھر پر قید کرکے رکھ دیا۔ بجلی بھی آنے جانے لگی۔ بارش کے دوران بیگم پکوڑے اور چپس تیار کر لائی۔ ہم سب وسیع ٹیرس پر کم، تیز ہوتی بارش میں چٹپٹے پکوڑوں اور چپس کا لطف اٹھاتے رہے۔ میں نے تصویر بھی بنائی لیکن سوشل میڈیا پر اشتراک نہ کیا کہ نہ کسی کا کمنٹ آنا تھا اور نہ ہی لائیک۔۔۔
بارش تھمی تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ چھت سے شام کا نظارہ کیا جائے۔ یہ میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سیالکوٹ کے پیچھے کشمیر ہے اور اس کے پہاڑ برسات کے بعد میری چھت سے کم کم، مگر نظر آتے ہیں۔ ہم سب چائے کے کپ تھامے چھت پر گئے اور ہر طرف آسمان پر بکھرے خوبصورت رنگوں کو دیکھتے رہے۔ اچانک ایک جانب سے قوس قزح نمودار ہوگئی۔ میرے بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ ہم نے پڑوسیوں کے دروازے بجائے، چھت پر شور مچایا اور بیٹے کے دوست کے گھر فون کرکے اس انوکھی خوشی کی خبر دی۔ اکثر چھتوں پر لوگ نکل آئے۔ کچھ منچلوں نے گلی میں موٹر سائیکل اور کاریں روک کر تصاویر بھی بنائیں۔ میں نے بھی یہ حسین منظر کیمرے میں محفوظ کیا لیکن اشتراک نہ کیا کہ نہ ہی کوئی کمنٹ آنا تھا اور نہ لائیک۔۔۔حالانکہ میں سب کو اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہتا تھا لیکن میں کس طرح کر سکتا تھا کہ۔۔۔
میں عموماً تاخیر سے بستر پر جاتا ہوں لیکن میں بچوں کے ساتھ بستر پرجلدی چلا گیا۔ انھیں پہلے کی طرح سونے سے قبل کہانی سنائی اور ان کی فرمائش پر ایک اور سنائی اور پھر ہم سب بے خبر سوگئے۔ رات میرے ہاتھ میں موبائل تھا اور نہ ہی میں کمپیوٹر پر بیٹھا تھا۔ آج صبح بیدار ہوا توعرصہ دراز کے بعد موبائل پر ایف ایم ریڈیو چلایا۔ نصرت کی غزل چل رہی تھی جس کے بعد ابرار الحق کا گانا چلا دیا گیا۔ یہ غزل اور گیت مجھے ایک اور دنیا میں لے گئے۔ مجھے لگا میں شادی کے بعد پہلی بار اپنے سسرال جارہا ہوں۔ سچ میں بہت مزا آیا۔ پھر مجھے ریڈیو فیصل آباد پر اپنا گزرا وقت یاد آیا۔ مجھے لگا زندگی تھم سی گئی ہے، اپنی چال پر واپس آگئی ہے۔ ہر طرف محبت اور سکون ہے۔ نہ کسی سے کوئی مقابلہ ہے، نہ کسی کو کچھ بتانا ہے، نہ کسی سے کچھ جاننا ہے، نہ کسی کو کچھ دکھانا ہے۔ جو ہے، جیسا ہے، سب ٹھیک ہے۔ میں بچوں کو لے کر پارک چلا گیا اور بے وجہ موبائل کو دو تین بار ان لاک کرکے سکرین کی جانب دیکھتا رہا لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا سوائے پرانی تصاویر کے۔ واپسی پر کمپیوٹر پر کام کرنے سے قبل میں نے بیٹی کو اس کے بچپن کی تصاویر دکھائیں۔ ہم سب مل کر مسکراتے رہے، بہت ساری پرانی یادیں ایک دم زندہ ہوگئی تھیں۔ مجھے عرصہ دراز کے بعد قلبی اطمینان نصیب ہورہا تھا کہ بیٹے نے آواز دی:
"بابا(میرے بچے مجھے بابا کہتے ہیں) انٹرنیٹ ٹھیک کرنے والے انکل آگئے ہیں۔"
میرا جی چاہا کہ انھیں واپس بھیج دوں لیکن میں بے اختیار نیچے چلا گیا۔ وائی فائی کا کچھ مسئلہ تھا جو کمپنی والوں نے حل کردیا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل کی جانب لپک گیا۔۔۔جہاں مجھے بہت سے سرکاری نوٹسز پڑھنے تھے، طالبات کے جوابات دینے تھے، پروگرام طے کرنے تھے اور دنیا کو کچھ بتانا تھا، کچھ دیکھنا تھا، کچھ دکھانا تھا، کچھ سمجھنا تھا اور ۔۔۔۔ زندگی ایک بار پھر سے مصنوعی مصنوعی سی لگنے لگی تھی۔

May be an image of 13 people
 
آخری تدوین:
اسی لیے ہم وقتا فوقتا ڈی ٹوکس کے حق میں ہیں اور وائی فائی چلا جائے تو ویسے بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ گھر والے سارے اچھے پوگ ہیں بھئی! :D
 
Top