سیما علی
لائبریرین
وائٹ ہاؤس میں حجاب پہنے کشمیری خاتون سمیرا فاضلی: کیا اس کا اثر امریکی پالیسیوں پر نظر آئے گا؟
26 فروری 2021
،تصویر کا ذریعہEPA
جنوری کے آغاز میں نو منتخب امریکی صدر نے کئی انڈین نژاد امریکیوں کی اپنی آنے والی انتظامیہ کے عہدوں پر تقرری کا اعلان کیا تھا، ان میں ایک کشمیری نژاد امریکی خاتون کا نام بھی شامل تھا جس نے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے میڈیکل تعلیم چھوڑ کر سماجی امور کی تعلیم حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔
سمیرا فاضلی اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں قومی اقتصادی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ صدر باراک اوبامہ کی انتظامیہ میں اقتصادی امور کی سینیئر مشیر رہ چکی ہیں۔
سمیرا تین بچوں کی ماں ہیں اور امریکی ریاست جارجیا سے تعلق رکھتی ہیں۔
کرئیر کا آغاز
،تصویر کا ذریعہEPA
سمیرا امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو کے ایک قصبے فلیمزوائیل میں پیدا ہوئی تھیں جہاں اُس وقت اُن کے والدین ہسپتالوں میں کام کرتے تھے۔ بعد میں سمیرا اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ ریاست جارجیا منتقل ہو گئیں۔ وہیں سمیرا ریزرو بینک آف اٹلانٹا میں ڈائریکٹر بنیں، لیکن وائٹ ہاؤس میں تقرری کے بعد وہ وہاں سے عارضی رخصت پر ہیں۔
اپنی دلچسپی کی وجہ سے وہ کم آمدن والے طبقات کی بہتری میں کافی سرگرم رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کمیونیٹی ڈویلپمنٹ فنانشل انسٹیٹیوشنز (سی ڈی ایف آئی) میں ہاؤسنگ فنانس، سے لے کر چھوٹی سطح پر بزنس فنانس جیسے امور پر کام کیا ہے۔
وہ جس شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر بنیں ہیں ان کے ذمے اقتصادی امور پر امریکی صدر جو بائیڈن کو کم آمدن والی امریکیوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے مشورے دینا ہے۔
تعلیم
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERAFAZILI
ان ذمہ داریوں اور ملازمتوں سے پہلے سمیرا فاضلی امریکہ کے معروف تعلیمی ادارے ییل یونیورسٹی میں لیکچرار بھی رہیں جہاں سے انھوں نے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس سے قبل انھوں نے ہارورڈ سے میگنا کم لاؤڈ میں 2000 میں سماجی علوم میں بی اے کے ساتھ گریجویشن کی تھی اور ہارورڈ کے ویمن لیڈرشپ ایوارڈ کی وصول کنندہ تھی۔
تعلیم کے بعد سمیرا نے کم آمدن کے طبقات کی مالی مدد کے نظام کو سمجھنے کے لیے ایک برس گرامین بینک بنگلہ دیش میں بھی کام کیا۔
تاہم سمیرا کے ماموں رؤف فاضلی جو اس وقت سری نگر میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ سمیرا کو میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا تھا جہاں وہ دو برس تعلیم حاصل کرتی رہی۔
'دو برس تک میڈیکل سکول میں تعلیم کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ ییل یونیورسٹی جائے گی۔‘
سمیرا فضیلی نے ییل لا سکول سے 2006 میں لا گریجویشن کی تھی اور بعد میں انھوں نے شورویر بینک میں ایک فیلو کے طور پر کام کیا، یہ ایک کمیونٹی ڈویلپمنٹ بینک ہے جس نے ریاست ہائے متحدہ اور بیرون ملک اقتصادی مساوات کے امور پر توجہ دی ہے۔
دیگر سرگرمیاں
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERA FAZLI
ییل میں وہ مشرق وسطیٰ کے امور کی لیگل سٹڈیز کے سیمینار کی چیئرمین تھیں اور انھوں نے تنقیدی اسلامی عکاسی کانفرنس کے بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں۔ لا سکول سے پہلے سمیرا دیگر سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں جن میں 'کرامہ' نامی مسلم خواتین وکیل برائے انسانی حقوق تنظیم شامل ہے۔
کرامہ کے ساتھ انھوں نے مغربی یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کانگریس کے سامنے اپنی تحقیق کی روشنی میں بیانات دیے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق اور ترقی کے اس کے تجربے میں عالمی ادارہ صحت اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن میں کام بھی شامل ہے۔ سمیرا فاضلی کو اپنے کام کی بدولت فلسطین، کشمیر اور پاکستان جیسے خطوں میں جانے کے مواقع ملے۔
سمیرا کے والدین خود ڈاکٹر ہیں جنھوں نے سری نگر کے سرکاری کالج سے ڈاکٹر بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے والدین، ڈاکٹر محمد یوسف فاضلی سرجن ہیں، اور والدہ ڈاکٹر رفیقہ فاضلی، جو کہ پیتھالوجسٹ ہیں، دونوں سنہ 1971 میں امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔
سمیرا فاضلی نے تعلیم کے دوران حجاب پہننا شروع کیا تھا، اور وہ اب بھی حجاب پہنتی ہیں، تاہم ان کی والدہ ڈاکٹر رفیقہ فاضلی حجاب نہیں پہنتی ہیں۔
کشمیری سیاست کا کنکشن
،تصویر کا ذریعہDAISY KHAN
ایک کشمیری اخبار 'کشمیر لائف' سے بات کرتے ہوئے رؤف فاضلی، جو کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک بینک کے اعلیٰ عہدے پر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ سمیرا چار بہنوں میں دوسرے نمبر کی اولاد ہیں۔ ان کی دو بہنیں ڈاکٹر ہیں اور ایک بہن وکیل بنیں۔
سمیرا فاضلی کے عزیز و اقارب اب بھی کشمیر میں رہتے ہیں لیکن ان کا کشمیر سے ایک اور بھی منفرد تعلق ہے: انڈین ایکسپریس کے مطابق سمیرا کا ایک پھوپھی زاد بھائی، مبین شاہ جو کہ ایک بزنس مین ہے، اُن افراد میں شامل تھا جنھیں انڈین حکومت نے سنہ 2019 کے حالات کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے رکھا تھا۔
مبین کی اس عزیز داری کی وجہ سے فاضلی خاندان نے اس کی رہائی کے لیے واشنگٹن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔ سمیرا کی بہن، یُسریٰ فاضلی، جو کہ انسانی حقوق کی ایک وکیل بھی ہیں نے سنہ 2019 میں امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو کر کشمیر کے حالات کے بارے میں بیانات بھی دیے تھے۔
انھوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی کی گرفتاری کی تفصیلات پیش کی تھیں اور بتایا تھا کہ کس طرح ان کے رشتہ دار اُن کی تلاش میں ایک جیل سے دوسری تک مارے مارے پھرتے رہے۔
امریکی کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں یسریٰ فاضلی نے مزید کہا کہ انھوں نے آٹھ اگست 2019 کو مبین شاہ کی گرفتاری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر امریکی محکمہ خارجہ میں دوستوں سے بات کی تھی۔ اور امریکی محکمہ خارجہ کی انڈیا سے یہ معاملہ اٹھائے جانے سے صرف اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ انھیں آگرہ میں قید رکھا گیا تھا۔
یسریٰ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’میرے کزن مبین کو ایک مثال بنایا گیا ہے۔ مسلح افواج گھروں پر رات کے وقت چھاپے مار کر انھیں گرفتار کر رہی تھی۔ اس کی قید سے کشمیری عوام کو یہ مضبوط اشارہ ملتا ہے کہ انڈین طاقت کے سامنے قابلیت، پیسہ، کنبہ اور حیثیت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یسریٰ فاضلی نے مزید کہا تھا کہ ان کا کزن ’سیاستدان نہیں تھا اور نہ ہی اپوزیشن سے تعلق رکھتا تھا، وہ کوئی آزادی پسند، یا گلی کا پتھر پھینکنے والا بچہ نہیں تھا۔ وہ صرف ایک بزنس مین ہے۔ ان کی زندگی کے کام نے کشمیر میں معاشی بہتری لانے پر توجہ دی ہے۔‘
مبین شاہ، جو ملائشیا میں مقیم ہے اور دستکاری کا کاروبار کرتا ہے۔ انھیں اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر کا دورہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ متعدد بار کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، جموں و کشمیر جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیدار رہ چکے ہیں۔
وہ انڈیا کے زیرِ اتنظام کشمیر اور پاکستان کے ز یرِ انتظام کشمیر کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے سرحد کے دونوں اطراف سرگرم رہے ہیں۔ خاص کر اس زمانے میں جب لائن آف کنٹرول کو سنہ 2008 میں تجارت کے لیے کھولا گیا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔
کشمیر سے ثقافتی رابطہ
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERAFAZILI
سمیرا فاضلی پیدا تو امریکہ میں ہوئی لیکن انھوں نے اپنے آبائی وطن کشمیر کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ اور بقول رؤف فاضلی کہ وہ کشمیر آتی جاتی رہی ہیں۔ آخری مرتبہ وہ اپنے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے سری نگر آئی تھیں۔ سمیرا کی شادی بھی ایک کشمیری عزیز کے ساتھ ہوئی۔
امریکہ میں ان کی تقرری کے موقعے پر سری نگر میں آباد ان کے عزیز و اقارب نے جشن منایا تھا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ میں وہ دوسری کشمیری امریکی خاتون ہیں جنھیں انتظامیہ نے ایک اہم عہدے پر تعینات کیا ہے۔ دوسری کشمیری بھی ایک خاتون ہیں جن کا نام عائشہ شاہ ہے اور وہ ڈیجیٹل سٹریٹیجی سے وابستہ ہیں۔
سمیرا فاضلی نہ صرف قابلیت کے لحاظ سے پہچانی جاتی ہیں بلکہ انھیں سپورٹس کا بھی شوق ہے، وہ سکیئنگ، تیراکی، ٹینِس اور سیر و سیاحت میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کشمیری کھانے کھانے کا بھی شوق ہے۔
وائٹ ہاؤس میں حجاب پہنے بریفنگ دینے والی سمیرا فاضلی کون ہیں؟ - BBC News اردو
26 فروری 2021
،تصویر کا ذریعہEPA
جنوری کے آغاز میں نو منتخب امریکی صدر نے کئی انڈین نژاد امریکیوں کی اپنی آنے والی انتظامیہ کے عہدوں پر تقرری کا اعلان کیا تھا، ان میں ایک کشمیری نژاد امریکی خاتون کا نام بھی شامل تھا جس نے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے میڈیکل تعلیم چھوڑ کر سماجی امور کی تعلیم حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔
سمیرا فاضلی اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں قومی اقتصادی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ صدر باراک اوبامہ کی انتظامیہ میں اقتصادی امور کی سینیئر مشیر رہ چکی ہیں۔
سمیرا تین بچوں کی ماں ہیں اور امریکی ریاست جارجیا سے تعلق رکھتی ہیں۔
کرئیر کا آغاز
،تصویر کا ذریعہEPA
سمیرا امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو کے ایک قصبے فلیمزوائیل میں پیدا ہوئی تھیں جہاں اُس وقت اُن کے والدین ہسپتالوں میں کام کرتے تھے۔ بعد میں سمیرا اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ ریاست جارجیا منتقل ہو گئیں۔ وہیں سمیرا ریزرو بینک آف اٹلانٹا میں ڈائریکٹر بنیں، لیکن وائٹ ہاؤس میں تقرری کے بعد وہ وہاں سے عارضی رخصت پر ہیں۔
اپنی دلچسپی کی وجہ سے وہ کم آمدن والے طبقات کی بہتری میں کافی سرگرم رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کمیونیٹی ڈویلپمنٹ فنانشل انسٹیٹیوشنز (سی ڈی ایف آئی) میں ہاؤسنگ فنانس، سے لے کر چھوٹی سطح پر بزنس فنانس جیسے امور پر کام کیا ہے۔
وہ جس شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر بنیں ہیں ان کے ذمے اقتصادی امور پر امریکی صدر جو بائیڈن کو کم آمدن والی امریکیوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے مشورے دینا ہے۔
تعلیم
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERAFAZILI
ان ذمہ داریوں اور ملازمتوں سے پہلے سمیرا فاضلی امریکہ کے معروف تعلیمی ادارے ییل یونیورسٹی میں لیکچرار بھی رہیں جہاں سے انھوں نے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس سے قبل انھوں نے ہارورڈ سے میگنا کم لاؤڈ میں 2000 میں سماجی علوم میں بی اے کے ساتھ گریجویشن کی تھی اور ہارورڈ کے ویمن لیڈرشپ ایوارڈ کی وصول کنندہ تھی۔
تعلیم کے بعد سمیرا نے کم آمدن کے طبقات کی مالی مدد کے نظام کو سمجھنے کے لیے ایک برس گرامین بینک بنگلہ دیش میں بھی کام کیا۔
تاہم سمیرا کے ماموں رؤف فاضلی جو اس وقت سری نگر میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ سمیرا کو میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا تھا جہاں وہ دو برس تعلیم حاصل کرتی رہی۔
'دو برس تک میڈیکل سکول میں تعلیم کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ ییل یونیورسٹی جائے گی۔‘
سمیرا فضیلی نے ییل لا سکول سے 2006 میں لا گریجویشن کی تھی اور بعد میں انھوں نے شورویر بینک میں ایک فیلو کے طور پر کام کیا، یہ ایک کمیونٹی ڈویلپمنٹ بینک ہے جس نے ریاست ہائے متحدہ اور بیرون ملک اقتصادی مساوات کے امور پر توجہ دی ہے۔
دیگر سرگرمیاں
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERA FAZLI
ییل میں وہ مشرق وسطیٰ کے امور کی لیگل سٹڈیز کے سیمینار کی چیئرمین تھیں اور انھوں نے تنقیدی اسلامی عکاسی کانفرنس کے بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں۔ لا سکول سے پہلے سمیرا دیگر سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں جن میں 'کرامہ' نامی مسلم خواتین وکیل برائے انسانی حقوق تنظیم شامل ہے۔
کرامہ کے ساتھ انھوں نے مغربی یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کانگریس کے سامنے اپنی تحقیق کی روشنی میں بیانات دیے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق اور ترقی کے اس کے تجربے میں عالمی ادارہ صحت اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن میں کام بھی شامل ہے۔ سمیرا فاضلی کو اپنے کام کی بدولت فلسطین، کشمیر اور پاکستان جیسے خطوں میں جانے کے مواقع ملے۔
سمیرا کے والدین خود ڈاکٹر ہیں جنھوں نے سری نگر کے سرکاری کالج سے ڈاکٹر بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے والدین، ڈاکٹر محمد یوسف فاضلی سرجن ہیں، اور والدہ ڈاکٹر رفیقہ فاضلی، جو کہ پیتھالوجسٹ ہیں، دونوں سنہ 1971 میں امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔
سمیرا فاضلی نے تعلیم کے دوران حجاب پہننا شروع کیا تھا، اور وہ اب بھی حجاب پہنتی ہیں، تاہم ان کی والدہ ڈاکٹر رفیقہ فاضلی حجاب نہیں پہنتی ہیں۔
کشمیری سیاست کا کنکشن
،تصویر کا ذریعہDAISY KHAN
ایک کشمیری اخبار 'کشمیر لائف' سے بات کرتے ہوئے رؤف فاضلی، جو کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک بینک کے اعلیٰ عہدے پر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ سمیرا چار بہنوں میں دوسرے نمبر کی اولاد ہیں۔ ان کی دو بہنیں ڈاکٹر ہیں اور ایک بہن وکیل بنیں۔
سمیرا فاضلی کے عزیز و اقارب اب بھی کشمیر میں رہتے ہیں لیکن ان کا کشمیر سے ایک اور بھی منفرد تعلق ہے: انڈین ایکسپریس کے مطابق سمیرا کا ایک پھوپھی زاد بھائی، مبین شاہ جو کہ ایک بزنس مین ہے، اُن افراد میں شامل تھا جنھیں انڈین حکومت نے سنہ 2019 کے حالات کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے رکھا تھا۔
مبین کی اس عزیز داری کی وجہ سے فاضلی خاندان نے اس کی رہائی کے لیے واشنگٹن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔ سمیرا کی بہن، یُسریٰ فاضلی، جو کہ انسانی حقوق کی ایک وکیل بھی ہیں نے سنہ 2019 میں امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو کر کشمیر کے حالات کے بارے میں بیانات بھی دیے تھے۔
انھوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی کی گرفتاری کی تفصیلات پیش کی تھیں اور بتایا تھا کہ کس طرح ان کے رشتہ دار اُن کی تلاش میں ایک جیل سے دوسری تک مارے مارے پھرتے رہے۔
امریکی کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں یسریٰ فاضلی نے مزید کہا کہ انھوں نے آٹھ اگست 2019 کو مبین شاہ کی گرفتاری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر امریکی محکمہ خارجہ میں دوستوں سے بات کی تھی۔ اور امریکی محکمہ خارجہ کی انڈیا سے یہ معاملہ اٹھائے جانے سے صرف اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ انھیں آگرہ میں قید رکھا گیا تھا۔
یسریٰ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’میرے کزن مبین کو ایک مثال بنایا گیا ہے۔ مسلح افواج گھروں پر رات کے وقت چھاپے مار کر انھیں گرفتار کر رہی تھی۔ اس کی قید سے کشمیری عوام کو یہ مضبوط اشارہ ملتا ہے کہ انڈین طاقت کے سامنے قابلیت، پیسہ، کنبہ اور حیثیت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یسریٰ فاضلی نے مزید کہا تھا کہ ان کا کزن ’سیاستدان نہیں تھا اور نہ ہی اپوزیشن سے تعلق رکھتا تھا، وہ کوئی آزادی پسند، یا گلی کا پتھر پھینکنے والا بچہ نہیں تھا۔ وہ صرف ایک بزنس مین ہے۔ ان کی زندگی کے کام نے کشمیر میں معاشی بہتری لانے پر توجہ دی ہے۔‘
مبین شاہ، جو ملائشیا میں مقیم ہے اور دستکاری کا کاروبار کرتا ہے۔ انھیں اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر کا دورہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ متعدد بار کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، جموں و کشمیر جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیدار رہ چکے ہیں۔
وہ انڈیا کے زیرِ اتنظام کشمیر اور پاکستان کے ز یرِ انتظام کشمیر کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے سرحد کے دونوں اطراف سرگرم رہے ہیں۔ خاص کر اس زمانے میں جب لائن آف کنٹرول کو سنہ 2008 میں تجارت کے لیے کھولا گیا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔
کشمیر سے ثقافتی رابطہ
،تصویر کا ذریعہ@SAMEERAFAZILI
سمیرا فاضلی پیدا تو امریکہ میں ہوئی لیکن انھوں نے اپنے آبائی وطن کشمیر کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ اور بقول رؤف فاضلی کہ وہ کشمیر آتی جاتی رہی ہیں۔ آخری مرتبہ وہ اپنے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے سری نگر آئی تھیں۔ سمیرا کی شادی بھی ایک کشمیری عزیز کے ساتھ ہوئی۔
امریکہ میں ان کی تقرری کے موقعے پر سری نگر میں آباد ان کے عزیز و اقارب نے جشن منایا تھا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ میں وہ دوسری کشمیری امریکی خاتون ہیں جنھیں انتظامیہ نے ایک اہم عہدے پر تعینات کیا ہے۔ دوسری کشمیری بھی ایک خاتون ہیں جن کا نام عائشہ شاہ ہے اور وہ ڈیجیٹل سٹریٹیجی سے وابستہ ہیں۔
سمیرا فاضلی نہ صرف قابلیت کے لحاظ سے پہچانی جاتی ہیں بلکہ انھیں سپورٹس کا بھی شوق ہے، وہ سکیئنگ، تیراکی، ٹینِس اور سیر و سیاحت میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کشمیری کھانے کھانے کا بھی شوق ہے۔
وائٹ ہاؤس میں حجاب پہنے بریفنگ دینے والی سمیرا فاضلی کون ہیں؟ - BBC News اردو