نیٹو کے اہم اجلاس میں افغانستان سے انخلا پر فیصلہ متوقع

میثاق شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کا سربراہی اجلاس جمعرات سے پرتگال کے شہر لِزبن میں ہو رہا ہے جسے اس کی اکسٹھ سالہ تاریخ کا سب سے اہم اجلاس کہا جا رہا ہے۔

اس اجلاس میں اٹھائیس ارکان کی اس تنظیم کے مستقبل سے متعلق اہم فیصلے متوقع ہیں۔ افغانستان لِزبن اجلاس کے ایجنڈے پر پہلے نمبر پر ہے۔

نیٹو نے روس اور افغانستان کے سربراہوں کو بھی کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔ بعض یورپی مبصرین اس کانفرنس کو نیٹو کی تاریخ کی سب سے اہم کانفرنس قرار دے رہے ہیں۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر افغانستان سے متعلق اہم اعلان کیا جائے گا۔ امید کی جا رہی کہ نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں نیٹو افواج کو افغانستان سے نکلنے کا ٹائم ٹیبل دیا جائےگا۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے، جن کا سنیچر کو اجلاس سے خطاب متوقع ہے، نیٹو تنظیم سے کہا ہے کہ وہ 2014 تک افغانستان کے تمام علاقوں کا اختیار افغان فوجیوں کے حوالے کر دے۔ اس ڈیڈلائن کے متعلق امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ قابلِ عمل ہے لیکن پتھر پر لکیر نہیں۔

نیٹو تنظیم نے افغانستان میں درپیش چیلنجوں کو اچھی طرح نہیں سمجھا تھا لیکن اب اس کی سمت بہتر ہے۔

نیٹو سیکرٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جیف موریل نے کہا کہ اس ڈیڈلائن پر کچھ عرصے سے ایک ’مقصد حاصل کرنے کی خواہش‘ کے حوالے سے بات ہو رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس تاریخ تک تمام اتحادی فوجیں وہاں سے نکل جائیں گی۔

ادھر امریکی صدر براک اوباما کانفرنس میں شرکت کے لیے لزبن پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن سے روانگی سے پہلے اپنے مشیروں سے اہم مشاورت کی تھی۔

نیٹو ممالک کی سربراہی کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب عالمی کساد بازاری کی وجہ سے یورپ کے کئی ممالک نے دفاعی اخراجات میں کمی کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی کی دفاعی نامہ نگار کیرول وائٹ کے مطابق نیٹو تنظیم کی ساکھ افغانستان میں اس کی کامیابی یا ناکامی سے وابستہ ہو چکی ہے اور تنظیم وہاں سے اپنی ساکھ بچا کر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اینٹی نیٹو اجلاس

نیٹو اجلاس کی مخالفت میں لزبن شہر میں ہی ایک اینٹی نیٹو اجلاس منعقد کیا گیا ہے

نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ ابتدا میں نیٹو تنظیم نے افغانستان میں درپیش چیلنجوں کو اچھی طرح نہیں سمجھا تھا لیکن اب اس کی سمت بہتر ہے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2014 تک افغانستان کی سلامتی کا اختیار افغان فوجیوں کے حوالے کرنا قابلِ عمل ہے۔

’ہم لزبن کانفرنس میں ایک اہم اعلان کریں گے جس کے مطابق سنہ 2011 سے افغانستان کی ذمہ داری کو ترک کرنے کا عمل شروع ہو رہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل آہستہ آہستہ 2014 تک مکمل ہو جائے اور میرے خیال میں یہ ’روڈ میپ‘ حقیقت پسندانہ ہے۔‘

اس وقت افغانستان میں نیٹو کی سربراہی میں بین الاقوامی فوج آئسیف) کے 130,000 فوجی موجود ہیں۔

کابل میں بی بی سی کے نامہ نگار پال وڈ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فوجی مہم کا خاتمہ آخری چیز ہو گا جو نیٹو چاہے گی اور وہ بھی اس وقت جب افغانستان کے کئی حصے جنگجو سرداروں اور ڈرگ مافیا کے ہاتھ میں ہیں۔

دریں اثناء روسی صدر دیمتری میدویایداف دو ہزار آٹھ میں جارجیا کےساتھ کشیدگی کے بعد پہلی بار نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ روس اور نیٹو یورپ کے دفاع کے لیے میزائلوں کے نظام سے متعلق منصوبے پر بات چیت کا آغاز کریں گے۔

ادھر روس نے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے لیے اپنے ملک کے راستے سپلائی پہنچانے سے متعلق بعض ریاعتیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔

نیٹو سربراہی کانفرنس کے موقع پر پرتگال کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے استعفے کے بعد سربراہان مملکت کی سکیورٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ البتہ پرتگال کے وزیر داخلہ اگستو سینتوز سِلوا نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے استعفے کا نیٹو سربراہ کانفرنس کی سیکورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/11/101119_nato_crucial_lisbon_as.shtml
 
Top