نیند، بے خوابی، جاگنے پہ اشعار

یاز

محفلین
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے

کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے

چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نامہ کو دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

آج ہو جانے دو ہر ایک کو بد مست و خراب
آج ایک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے

کوہ غم اور گراں اور گراں اور گراں
غم زدو تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
(مخدوم محی الدین)
 

یاز

محفلین
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی

صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا! تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی

میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے

آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا، کہ ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
 

یاز

محفلین
حقیقتوں نے تو کھل کھل کے نیند اڑا دی ہے
نئے طلسم بناؤ کہ نیند آ جائے

سکوں نصیبو ادھر آؤ اور کوئی تدبیر
ذرا ہمیں بھی بتاؤ کہ نیند آ جائے

بڑی طویل ہے محشرؔ کسی کے ہجر کی بات
کوئی غزل ہی سناؤ کہ نیند آ جائے
 

یاز

محفلین
نیند کو بھی نیند آ جاتی ہے ہجر یار میں
چھوڑ کر بے خواب مجھ کو آپ سو جاتی ہے نیند

ہجر میں سونے کی ایسی ہے تمنا اے وزیرؔ
دیکھتا ہوں اس کو حسرت سے جسے آتی ہے نیند
 
Top