نہ گھبرا دلِ بے قرار

نوید ناظم

محفلین
دنیا میں اتنا ظلم ہے کہ اگر انسان بیان کرنا شروع کر دے تو ساری زندگی اس میں صَرف ہو سکتی ہے۔ مگر کیا زندگی صِرف اسی میں صَرف ہونی چاہیے۔۔۔۔ ظلم آدمی کی فطرت میں ہے اور سب سے پہلا ظلم تو اس نے خود اپنے ساتھ کیا، پھر دنیا ابھی آباد بھی نہ ہو پائی کہ ظلمِ عظیم یعنی قتل تک بات آئی۔ مقصد یہ کہ انسان کی فطرت میں قدرت نے خیر اور شر کا ایک ایسا رجحان رکھ دیا ہے جو ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ پیغمبر اصلاح کے لیے بھیجے گئے ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ گمراہی پہلے سے موجود ہے کہ جس کی اصلاح ہو رہی ہے۔۔۔۔ مطلب راہ دکھائی ہی اُسے جاتی ہے جو گمراہ ہو گیا ہو۔ یہ خواہش کہ سب اچھا ہو ایک اچھی خواہش تو ہے مگر قدرت کا مدعا کچھ اور ہو سکتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ قدرت بُرائی کو بڑھاوا دیتی ہے مگر یہ کہ میدان خیر اور شر دونوں کے لیے کھُلا ہے۔ انسان کے پاس طاقت ہو اور کوئی اس کے حکم سے انکار کر دے تو یہ اُس کو چھوڑنے کی ہمت رکھتا ہے نہ طاقت، مگر وہ اللہ ہے جو مہلت دے سکتا ہے، کیونکہ مہلت کا تعلق ایک متعین وقت سے ہوتا ہے اس لیے یہ بات مخلوق کے لیے اور طرح سے اور خالق کے لیے اور طرح۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم' ظلم کے باوجود بھی ویسے پھر رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے، جب یہ بات بتا دی جائے کہ ظلم کا انصاف ہو گا تو سمجھو انصاف ہو چکا۔ پھر وقت کی ہلکی سی آڑ ہے اور بس۔ جس بات کا وعدہ کر دیا گیا ہو اُس بات پر بات کرنا بھی اچھی بات نہیں ہوتی۔ ہم اصل میں تنقید کے مرض میں مبتلا ہیں اور یہ مرض خطرناک حد تک ہماری ہڈیوں میں سرایت کر چکا ہے۔ حاکم سے لے کر خادم تک ہمیں سب سے گِلہ ہے۔۔۔ تقریباَ َ ہر شے پر افسوس ہے۔ اصل میں آج کا انسان اندر سے ختم ہو رہا ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ کہ اسے اپنے دائرہِ اختیار سے باہر دیکھنے کا شوق ہے اور اصول یہی ہے کہ دور کا منظر ہمشہ دھندلا ہو گا چاہے چشمہ لگا کر ہی کیوں نہ دیکھا جائے۔
 
Top