نہ کر باتیں محبت کی محبت اور ہی کچھ ہے ۔۔۔ میری ایک بہت محبوب غزل، برائے اصلاح و تبصرہ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہ کر باتیں محبت کی، محبت اور ہی کچھ ہے
بدل دے جو تری دنیا وہ طاقت اور ہی کچھ ہے
حقیقت کے پرکھنے کو نہ صورت کا تماشا کر
ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے
جو آئے گی وہ برحق ہے، کریں انکار کیا لیکن
گزر جاتی ہے جو دل پر قیامت اور ہی کچھ ہے
نہیں بے جا کہ دنیا کے نظارے خوب ہیں لیکن
عبادت سے جو ملتی ہے وہ لذت اور ہی کچھ ہے
جسے حاصل کیا اجداد سے تونے تو کیا حاصل
جو محنت کرکے تو پائے وہ دولت اور ہی کچھ ہے
تجھے دعویٰ تو اہل فکر و فن کی ہم سری کا ہے
جو حالت تجھ پہ طاری ہے، وہ حالت اور ہی کچھ ہے
ہماری جنبش لب کو غلط مفہوم مت دینا
وضاحت اور ہی شے ہے، شکایت اور ہی کچھ ہے
جو مسلم سے برا چاہو تو وہ مسلم کا رہبر ہے
مسلماں کچھ، مسلماں کی قیادت اور ہی کچھ ہے
’’عجب واعظ کی دیں داری ہے یارب‘‘ کیا کہیں ان سے
حقیقت میں ہے کچھ، ان کی شریعت اور ہی کچھ ہے
یہ کہتی ہے کہ آگے آسماں سے کچھ نہیں ممکن
نظر پر کیا بھروسہ ہو، صداقت اور ہی کچھ ہے
نہیں ممکن کہ بس اعمال ہی اپنا سہارا ہوں
خدا سے جا ملاتی ہے جو قوت اور ہی کچھ ہے
سخن دانی ہمیں پر ختم ہے، ہم یہ نہیں کہتے
مگر اس قلب میں آتش کی حدت اور ہی کچھ ہے
توجہ اس طرف مبذول کروانا بہت چاہی
مگر خدمت نہیں شاہد، سیاست اور ہی کچھ ہے۔۔

مزمل شیخ بسمل
الف عین
محمد بلال اعظم
فاتح
محمد وارث
محمد احمد
مقدس
ناعمہ عزیز
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
ماوراء
شمشاد
اسد قریشی
پردیسی
عائشہ عزیز
احمد بلال
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن ‘استاد‘ کی نظر سے۔۔
نہ کر باتیں محبت کی، محبت اور ہی کچھ ہے​
بدل دے جو تری دنیا وہ طاقت اور ہی کچھ ہے​
÷÷واضح نہیں۔ کیا مخاطب محبت کو طاقت کہنے پر مصر تھا؟

حقیقت کے پرکھنے کو نہ صورت کا تماشا کر​
ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے​
نہ صورت کا تماشا کر؟؟​
واضح نہیں۔​

تجھے دعویٰ تو اہل فکر و فن کی ہم سری کا ہے​
جو حالت تجھ پہ طاری ہے، وہ حالت اور ہی کچھ ہے​
÷÷دونوں مصرعوں میں تطابق؟​

جو مسلم سے برا چاہو تو وہ مسلم کا رہبر ہے​
مسلماں کچھ، مسلماں کی قیادت اور ہی کچھ ہے​
÷÷واضح نہیں​

نہیں ممکن کہ بس اعمال ہی اپنا سہارا ہوں​
خدا سے جا ملاتی ہے جو قوت اور ہی کچھ ہے​
÷÷ وہ قوت‘ بہتر ہو گا۔ لیکن لیکن شعر واضح نہیں ہوا​

توجہ اس طرف مبذول کروانا بہت چاہی​
مگر خدمت نہیں شاہد، سیاست اور ہی کچھ ہے۔۔​
یہ بھی واضح نہیں۔​
باقی اشعار فی الحال تو درست لگ رہے ہیں۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہ کر باتیں محبت کی، محبت اور ہی کچھ ہے
بدل دے جو تری دنیا وہ طاقت اور ہی کچھ ہے
÷÷واضح نہیں۔ کیا مخاطب محبت کو طاقت کہنے پر مصر تھا؟ (ایسا ہی تھا، محبت صرف طاقت نہیں، دنیا کو بدل دینے والی طاقت ہے، یہ کہنے کی کوشش تھی لیکن کامیاب یا ناکام؟؟ کامیاب ہے تو آگے کی کوشش نظر انداز کرنا بہتر ہوگا، لیکن اگر ناکام ہے تو ایک اور کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ نہ کر باتیں محبت کی ، محبت اور ہی کچھ ہے ۔۔۔ محبت ایک طاقت ہے، یہ طاقت اور ہی کچھ ہے، یہاں طاقت جیسے سطحی لفظ کی تکرار ہمیں اچھی نہیں لگی۔۔۔ ایک اور کوشش۔۔۔ نہ کر باتیں محبت کی محبت اور ہی کچھ ہے۔۔۔ محبت اور ہے، شوق َ محبت اور ہی کچھ ہے ۔۔۔۔۔ مزید کوششیں بھی کرسکتے ہیں لیکن کیا اس کی ضرورت ہے؟؟ )
حقیقت کے پرکھنے کو نہ صورت کا تماشا کر
ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے
نہ صورت کا تماشا کر؟؟
واضح نہیں۔(یقینا۔۔۔ جملے کے حساب سے دیکھا جائے تو بے ربط ہے اور یہی طریقہ اشعار کے دیکھنے کا بھی ہونا چاہئے۔۔۔ حقیقت کے پرکھنے کو فقط صورت نہیں کافی۔۔۔ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے۔۔۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟؟ ۔۔۔ یا پھر ۔۔۔ فقط صورت پرکھنے سے حقیقت کھل نہیں سکتی ۔۔۔ ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے ۔۔۔ کیا درست ہے؟ )

تجھے دعویٰ تو اہل فکر و فن کی ہم سری کا ہے
جو حالت تجھ پہ طاری ہے، وہ حالت اور ہی کچھ ہے
÷÷دونوں مصرعوں میں تطابق؟ (جو کی جگہ مگر کا استعمال کیاجائے، یعنی ’’تجھے دعویٰ تو اہل فکر و فن کی ہم سری کا ہے مگر جو تجھ پہ طاری ہے، وہ حالت اور ہی کچھ ہے۔۔۔ کیا اس سے تطابق پیدا ہوسکے گا؟؟ اگر نہیں، یا اس سے کوئی اور غلطی پیدا ہوتی ہے تو یہ شعر اتنا ضروری نہیں ہے، کوئی خاص مفہوم بھی نہیں ہے، محدود قسم کا خیال ہے جو شاعر کی ذات سے تعلق رکھتا ہے)

جو مسلم سے برا چاہو تو وہ مسلم کا رہبر ہے
مسلماں کچھ، مسلماں کی قیادت اور ہی کچھ ہے
÷÷واضح نہیں (یہاں قیادت کا اور ہی کچھ ہونا، منفی معنوں میں لیا گیا ہے یعنی طنز کرنے کی کوشش ہے لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی ہے تو اس شعر کو دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ بھی چھوڑ سکتے ہیں)

نہیں ممکن کہ بس اعمال ہی اپنا سہارا ہوں
خدا سے جا ملاتی ہے جو قوت اور ہی کچھ ہے
÷÷ وہ قوت‘ بہتر ہو گا۔ لیکن لیکن شعر واضح نہیں ہوا(یعنی ’’خدا سے جوملاتی ہےوہ قوت اور ہی کچھ ہے‘‘ یہ بھی واضح نہیں توشاید قوت کا قافیہ بدلنے سے بہتری آئے، یعنی ینا شعر کہا جائے، جو بہرحال ضروری نہیں۔۔۔کہ اس پر مزید وقت صرف ہوگا )

توجہ اس طرف مبذول کروانا بہت چاہی
مگر خدمت نہیں شاہد، سیاست اور ہی کچھ ہے۔۔ یہ بھی واضح نہیں۔ (ہم خود اسے غیر واضح رکھنا چاہتے تھے، لیکن یہ عیب ہے، اس لیے اس کو بھی رہنے دیتے ہیں)
باقی اشعار فی الحال تو درست لگ رہے ہیں۔ (ہم نے کسی سے سنا تھا غزل کا ایک شعر بھی درست یعنی اچھا ہو تو غزل کامیاب مانی جاتی ہے۔۔۔ کیا اس
غزل کو کامیاب کہا جاسکتا ہے؟؟ لیکن اس سے بڑا سوال مطلعے کا ہے۔۔۔ اس کا کیا کیاجائے۔۔۔ )
 

الف عین

لائبریرین
مطلع۔۔۔ میرا اعتراض۔ ’نہ کر باتیں محبت کی‘ کی وجہ سے تھا۔ جس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ مخاطب کا خیال محبت کے بارے میں کچھ اور ہے۔
محبت اور ہے، شوق َ محبت اور ہی کچھ ہے
یہ اک طاقت سہی، لیکن یہ طاقت اور ہی کچھ ہے
کیسا رہے گا؟؟
قیقت کے پرکھنے کو فقط صورت نہیں کافی۔۔۔ ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے۔
÷÷درست
مگر جو تجھ پہ طاری ہے، وہ حالت اور ہی کچھ ہے
÷÷مگر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک اور سقم دونوں مصرعوں کا ’ہے‘ کا اختتام ہے

غزل ناکام تو نہیں۔ لیکن اتنی ‘طاقتور‘ بھی نہیں، کہ ’طاقت اور ہی کچھ ہے!!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اصلاح کے بعد دوبارہ پیش کیجئے جناب

محبت اور ہے، شوق َ محبت اور ہی کچھ ہے
یہ اک طاقت سہی، لیکن یہ طاقت اور ہی کچھ ہے

حقیقت کے پرکھنے کو فقط صورت نہیں کافی
ہے صورت کچھ تو بندے کی حقیقت اور ہی کچھ ہے

جو آئے گی وہ برحق ہے، کریں انکار کیا لیکن
گزر جاتی ہے جو دل پر قیامت اور ہی کچھ ہے

نہیں بے جا کہ دنیا کے نظارے خوب ہیں لیکن
عبادت سے جو ملتی ہے وہ لذت اور ہی کچھ ہے

جسے حاصل کیا اجداد سے تونے تو کیا حاصل
جو محنت کرکے تو پائے وہ دولت اور ہی کچھ ہے

ہماری جنبش لب کو غلط مفہوم مت دینا
وضاحت اور ہی شے ہے، شکایت اور ہی کچھ ہے

’’عجب واعظ کی دیں داری ہے یارب‘‘ کیا کہیں ان سے
حقیقت میں ہے کچھ، ان کی شریعت اور ہی کچھ ہے

یہ کہتی ہے کہ آگے آسماں سے کچھ نہیں ممکن
نظر پر کیا بھروسہ ہو، صداقت اور ہی کچھ ہے

سخن دانی ہمیں پر ختم ہے، ہم یہ نہیں کہتے
مگر اس قلب میں آتش کی حدت اور ہی کچھ ہے
 

احمد شاکر

محفلین
بہت خوب

خاص طور پر


’’عجب واعظ کی دیں داری ہے یارب‘‘ کیا کہیں ان سے
حقیقت میں ہے کچھ، ان کی شریعت اور ہی کچھ ہے
 
سخن دانی ہمیں پر ختم ہے، ہم یہ نہیں کہتے​
مگر اس قلب میں آتش​
کی حدت اور ہی کچھ ہے​

سخن دانی اور آتش کی حدت سے مجھے کچھ نہیں سمجھ آیا۔​
یہ آتش کیا سخن دانی کی ہے؟​
یا آتشؔ مصحفی کے شاگرد کی بات ہو رہی ہے؟ لیکن انکی حدت کیسے آئی؟:D
غالباً یہ سخن دانی کی آگ ہے۔ :rolleyes:
 
Top