نہ لوگ یہاں پانی پینا چاہتے ہیں نہ رشتہ کرنا

نہ لوگ یہاں پانی پینا چاہتے ہیں نہ رشتہ کرنا
آخری وقت اشاعت: بدھ 13 مارچ 2013 , 05:02 GMT 10:02 PST
130312112442_cancer_bathinda_304x171_bbc_nocredit.jpg
ججر گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کو اس کا کافی خمیازہ بھگتنا پڑا ہے
پنجاب کا ایک گاؤں کینسر کی زد پر کچھ اس طرح آیا ہے کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
بی بی سی ہندی کے اروند چھابڑا نے وہاں کے باشندوں سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ نہ تو کوئی یہاں کا پانی پیتا ہے نہ ہی کوئی اپنے بچوں کی شادی ان کے یہاں کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسی بارے میں
متعلقہ عنوانات
اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں بھارتی پنجاب میں اس بیماری سے 34 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بھٹنڈا میں واقع ججّل گاؤں کے لوگوں کو جیسے ہی پتہ چلا کہ میڈیا کی ایک ٹیم وہاں پہنچی ہے تو وہ غصے میں آ گئے۔دراصل گاؤں والے نہیں چاہتے تھے کہ پھر کسی چینل یا اخبار میں ان کے گاؤں کی ’بدقسمتی‘ کی داستاں شائع ہو یا کہانی سنائی جائے۔
یہ گاؤں پنجاب کے ان دیہات میں سے ایک ہے جہاں کینسر کے سب سے زیادہ مریض پائے جاتے ہیں۔
دیہاتیوں کا خیال ہے کہ انہیں اسی بات کاخمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اس گاؤں میں نہ تو اپنی لڑکے کی شادی کرتا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی دینا چاہتا ہے۔
پنجاب میں کینسر
· دوکروڑ ستہترلاکھ سے زیادہ آبادی والی اس ریاست میں روزانہ انیس گوں کی موت کینسر سے ہوتی ہے۔
· ایک سروے کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں یہاں چونتیس ہزار چار سو تیس وگ کینسر کا شکار ہو چکے ہیں۔
· سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لدھیانہ ضلعہ ہے جہاں تین ہزار نو سو پینتالیس افراد اس کا شکار ہو چگے ہیں۔
· حال ہی میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق ابھی یہاں ستاسی ہزار افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔
· فریدکوٹ، مکتسر، مانسا اور بھٹنڈا جیسے اضلاع اس سے کافی متاثر ہیں۔
گاؤں کے ایک شخص راج پردیپ سنگھ نے کہا: ’کسی اور کی تو کیا بات کریں، اب آپ یہاں آئے ہیں اور اگر ہم آپ کو پانی دیں تو آپ اسے پیئیں گے نہیں۔
راج پردیپ سنگھ نے بتایا کہ سنہ 2005 میں ان کے والد بلدیو سنگھ کی ریڑھ کی ہڈی میں کینسر ہوا تھا جس کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔
گاؤں کے سرپنچ ناجر سنگھ نے کہا ’یہاں ایسی کم ہی گلیاں ہیں جہاں کسی نہ کسی کی کینسر سے موت نہ ہوئی ہو۔ یہاں تقریبا 530 گھر ہیں اور سنہ 1984 سے لے کر اب تک یہاں 60 سے 70 لوگ کینسر کا شکار ہوچکے ہیں۔
وہ اس علاقے میں کینسرجیسے موذی مرض کے اس قدر پھیلاؤ کی کی وجہ 'آلودہ پانی اور جراثیم کش دواؤں کو مانتے ہیں جو کھیتوں میں چھڑكی جاتی ہیں۔
یہاں کے باشندے بتاتے ہیں کہ کئی بار حکومت کے نمائندے یہاں آئے اور کارروائی کی یقین دہانی بھی کی لیکن عملی طور پر کسی نے کچھ نہیں کیا۔
یہاں بسنے والے ہردیو سنگھ نے بتایا ’ابھی کچھ ماہ پہلے اراکین پارلیمنٹ کی ایک انیس رکنی ٹیم یہاں آئی تھی، انھوں نے حالات کا جائزہ لیا، ہم سب سے ملے، کئی کاغذ کالے کیے لیکن ہوا کچھ نہیں۔
130312102801_cancer_spray_304x171_bbc_nocredit.jpg
پنجاب کے گاؤں کا ماننا ہے کہ کینسر کا سبب جراثیم کش ادویہ ہیں
انہوں نے کہا کہ پانچ سال پہلے وہ اپنے بھائی شیر سنگھ کو کینسر کے سبب کھو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’انہیں بلڈ کینسر تھا، کافی خرچ ہوا، بیکانیر ہسپتال لے کر گئے لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوئے۔
اسی گاؤں کے بھولا سنگھ کا کہنا ہے کہ کینسر کی وجہ سے اس گاؤں میں سالوں سے ماتم کا ماحول ہے۔
انہوں نے کہا: ’آئے دن کسی نہ کسی شخص کی کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی خبر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے نو دس سال قبل ایک ہی دن دو افراد کی کینسر سے موت ہوئی تھی۔ میرے والد جیت سنگھ بلڈ کینسر کے شکار ہوئے تھے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کی تکلیف کا سبب بھلے ہی کینسر ہے لیکن انہیں دکھ اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ کینسر کے سبب اس گاؤں کی بدنامی کی وجہ سے یہاں کے کئی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے اور نہ ہی اس گاؤں میں مہمان ہی آتے ہیں۔
 
Top