نہیں کہ بعد تِرے۔

رشید حسرت

محفلین
نہیں کہ بعد تِرے۔



نہیں کہ بعد ترے دوسرا نہیں آیا

جو زند کو تھا میسّر، مزہ نہیں آیا



بچھڑ گیا ہے تُو ایسے پلٹ کے آیا نہیں

وگرنہ راہ میں طوفان کیا نہیں آیا



بس ایک رات قیامت سی مجھ کو تھی درپیش

پھر اس کے بعد کوئی مرحلہ نہیں آیا



میں اپنی آدھی محبت پہ اب ہوں گریہ کُناں

مجھے تو ڈھنگ کوئی میرؔ سا نہیں آیا۔



جہاں سے آیا تھا تُو دل! کسی کی آس لیئے

اداسیوں میں وہیں لوٹ جا، نہیں آیا۔



ابھی تو آس کی شمع کی لو بجھا ہی دے

وہ جس کے آنے کا امکان تھا، نہیں آیا



اگرچہ اس سے بڑی مدّتوں سے ربط نہیں

دلوں کے بیچ مگر فاصلہ نہیں آیا۔



وہ اور ھوں گے جنہیں چاند اور تارے ملے

یہاں تو حصّے میں ٹوٹا دیّا نہیں آیا۔



رشیدؔ مجھ سے مرے نامہ بر نے ہنس کے کہا

کوئی بھی نامہ ترے نام کا نہیں آیا۔



رشید حسرتؔ۔
 

رشید حسرت

محفلین
بہت شکریہ۔ ضرورتِ شاعری کے تحت وتد مجموعی کے طور بھی لگا سکتے ہیں۔شمع ھے بجھانے والی رات ھے ڈھلنے والی۔
شمع کا شعلہ بھڑکے رہا ھے وغیرہ وغیرہ۔
بہر کیف حوصلہ افزائی کے لیئے شکریہ۔
 
بس ایک رات قیامت سی مجھ کو تھی درپیش

پھر اس کے بعد کوئی مرحلہ نہیں آیا
بہت خوب رشیدؔ صاحب، اچھا کہا ہے، سبحان اللہ
شمع والے نکتے پر ریحان صاحب کی بات مناسب معلوم ہوتی ہے۔ وتد مجموع تو وہ کلمہ ہوتا ہے جس کا دوسرا حرف متحرک ہو؟ شمع میں تو م ساکن ہوتی ہے؟
 
Top