اسکین دستیاب نو طرز مرصع

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نوطرزمرصع میں قلم بند کی گئی داستان چار درویشوں کی کہانی ہے۔ اس داستان کو تحسین نے ایک سفر کے دوران اپنے کسی ہم سفر کی زبان سے سنا تھا۔ قصہ سننے کے بعد تحسین کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ اسے کیوں نہ اپنی زبان میں لکھاجائے۔ اسی خیال کے پیش نظر اردو کی معرکۃ الآراء،یہ داستا ن وجو میں آئی۔

گفتگو دھاگہ
نو طرز مرصع ۔ گفتگو دھاگہ

ریختہ ربط
نو طرز مرصع ۔ ریختہ لنک

گوگل ڈاکس ربط

نو طرزِ مرصع۔۔۔۔۔ گوگل ڈاکس

صفحات کی تقسیم ریختہ کے صفحات کے حساب سے ہے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 1
نو طرز مرصع

ریختہ صفحہ 2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نظم

کہاں تاب و طاقت کہ میری زبان
کرے حق تعالیٰ کی قدرت بیان
وہ صنعت ہے اس کی زمین تا فلک

کہ حیرت میں ہیں جملہ جن و ملک
زبان مو بمو ہو اگر تن میرا
سرمو نہ ہو حمد اس کی ادا
مگر اس گدا کی یہی ہے صدا

میں ہوں اس کا بندہ وہ میرا خدا
پھر اس کے سوا اور جو ہے کلام

نبی وعلی پر درود و سلام :-
پوشیدہ نہ رہے کہ سوائے تذکرہ الہی سب گفتگو واہی ہے مگر حکایات عشق انگیز اور روایات درد آمیز رسیدگان عالم امکان کو نیرنگی روزگار سے گوش گزار اور صنایع بدائع قادر برحق سے خبردار کرتے ہیں اس لئے اس خاک پائے درویشان حق بین محمدؐ عوض زرین نے قصّہ چار درویش زبان فارسی میں ترتیب دیا اور عبارت شگفتہ سے گلدستہ مجالس کیا۔ راجہ صاحب سراپا حلم وتمکین راجہ رام دین کہ اس عالی منش کے برادر بزرگ خداوند عدل ؟؟ا و رراجہ ستیل پرشاد اور ؟؟؟ فیاض زمانہ راجہ بھوانی پرشاد ؟؟اللہ اقبالہم ہیں۔ اس نحیف کی تصنیف مطالعہ فرماتے اور حظ وافر اٹھاتے۔ ایک روز فرمایا کہ اگر کلام زبان ہندی میں انتظام پائے مسامع کو بسہولت سرور آئے۔ میں نے خوشنودی آقا کو بہبودی دنیا و عقبٰے جان کر سر رشتہء ادب کو ہاتھ سے نہ دیا اور زبان اردو میں قلمبند کیا
اشعار
الٰہی رہے وہ سدا کامیاب

کہ جس کی بدولت بنی یہ کتاب

ریختہ صفحہ 3

جوان و جوان بخت و روشن جبین
گرامیء منش راجہ رام دین
ہوئی اس کی خواہش ہے کہ یہ داستان
عبارات رنگین سے ہو گلستان
بنا کر یہ گلدستہء روزگار
لکھی اس کی تاریخ باغ وبہار
جو کوئی کرے سیر یہ گل زمین
اسے دے دعا اور مجھے آفرین

سرزمین ولایت روم میں ایک بادشاہ عادل دریادل صاحب تاج و تخت کے نام آزاد بخت اس کی عمر پچاس کے قریب مگر اولاد سے بے نصیب ایک روز آئینہ رو برو تھا بال سفید نظر آیا فرمایا بے اولاد زندگی بے مزہ ہے اور دنیا دو روزہ ہے گوشہ لیجئے اور عبادت کیجئے۔
ابیات
نکلنے لگے بال میرے سفید

رہی اب کسے زندگی کی امید
اگر سو برس تک رہیں جان وتن
پھر آخر وہی گور ہے اور کفن
بس گوشہ لیااور حکم کیا کہ جب تک اجازت نہ پائے اپنا اور بیگانہ کوئی نہ آئے۔ امیر اور وزیر سب حیران ہر ایک کو اور ہی گمان۔ کوئی کہتا موا کوئی کہتا فقیر ہوا۔ تیسرے روز خر دمند نام وزیر صاحب تدبیر نے جا کر عرض کی کہ بے جمال عالم آرا جہان تاریک ہے اور غلام رنج و راحت کا شریک ہے۔ جو پیرومرشد فرمائیں سب عمل میں لائیں۔ کہا میرا تحت بے جانشین اور انگشتری بے نگین ہے۔ خدا نے مجھے ملک کا مالک کیا مگر فرزند نہ دیا۔ اب دنیا سے نفرت اور فکر آخرت ہے۔
نظم
یہ لازم ہے جو آدمی پیر ہو

اسے زاد عقبےٰ کی تدبیر ہو
میرے حق میں اکسیر ہے بندگی
کہ بندگی ہیچ ہے زندگی
وزیر نے عرض کی کہ صدقہ دافع ہر مرض ہے اور خیرات کفیل ہر عرض ہے۔ ظل؛ سبحانی تخت سلطانی پر جلوس فرمائیں اور خدمت فقرا بجالائیں۔ یقین ہے کہ گوہر مراد ملے اور گل مقصد کھلے ۔ بارے التماس وزیر نے حسن اجابت پایا بار عام فرمایا کہ تمام روز عدل اور انصاف سے حکمرانی کرتا اور شب کو تنہا گورِ بزرگان پر فاتحہ خوانی کرتا۔ ایک روز بعد تند تھی۔ شہر سے باہر ایک چراغ نظر آیا فرمایا اس شدت ہوا میں چراغ روشن کرشمہء جنات ہے یا کسی بزرگ کی کرامات ہے۔ قدم آگے رکھا دیکھا ایک مقبرے میں چار خرقہ پوش خاموش بیٹھے ہیں ۔ پوشیدہ کھڑا ہوا تاکہ دریافت کرے انسان ہیں یا شیطان۔ ناگاہ ایک فقیر بولا کہ ہم تم ہر ایک نے بہت سا رنج اٹھایا اور آج آب و دانہ یہاں لایا۔ کل دیکھئے پردہ غیب سے کیا باہر آئے اور یہ چرخ شعبدہ باز کیا بازی لائے۔ شب دراز ہے اور دل و جان گداز ہے۔ اپنی اپنی سرگزشت کہو تا روز روشن ہو۔ کہا بہتر ہے اول آپ ہی آغاز اور ہم غریبوں کو سرفراز کیجیے۔ قصہ اول درویش اول بولاکہ یہ آوارہ ءوطن باشندہء یمن ہے ۔اس بندہء ہمقدار کا والد بزرگوار ملک الاتجار اور صاحب اقتدار تھا۔ دولت مند اس سے قرض لاتے اور فقیر روز روزینہ پاتے


ریختہ صفحہ 4
دو فرزند رکھتا تھا ایک یہ فقیر دوسری ہمشیر۔ لیکن کار خیر ہمشیر سے اپنے عین حیات میں فراغت کی اور میری پرورش بناز ونعمت کی ۔ جو میں بلوغت کو پہنچا میرے باپ نے پیالہء اجل پیا اور میری ماں نے خانہء گور کو آباد کیا۔ تین روز تک میری وہ حالت رہی کہ نہ کسی کی سنی اور نہ اپنی کہی۔ چوتھے روز خویش اور اقربا آئے ۔ حرف نصیحت درمیان لائے کہ گریہ زاری سے درگذر اور صبر اختیار کر۔
نظم
جسے دی ہے خلّاق عالم نے جان
وہ اک دم کا ہے دنیا میں مہمان
جہاں میں کسی کو نہیں ہے قرار
سراسر زمین گور ہے اور مزار
ناچار دل کو تسلی دی اور گھر کی خبر لی۔ نقد و جنس باپ کا پایا مال فراوان ہاتھ آیا۔ آغاز جوانی او رموسم نادانی تھا۔ چند اوباش طعام تلاش یار اور دخیل کارہوئے۔ طبیعت عیاشی پر آئی اور عالم بے پرواہی۔ ہر وقت راگ رنگ اور طبلہ و مردنگ تھا۔
نظم
شب و روز رہتا تھا دورِ شراب
کہ ہوتا تھا دل دشمنوں کا کباب
وہ دلچسپ مجلس شگفتہ بہار
کہ باغِ ارم کیجئیے اس پر نثار
تھوڑی مدت میں یاروں نے ہزاروں کو برباد کیا اور کنارہ کیا۔ نہ آشنا رفیق نہ بیگانہ شفیق۔ اپنا احوال بایں نوبت پہنچا کہ نہ سر پر تاج اور روٹی کا محتاج۔ جو کسی طرف راہ نہ پائی ہمشیرہ یاد آئی۔ دست تاسف ملا۔ تن تنہا چلا نہ زادِ راحلہ نہ یار قافلہ۔ غم وغصہ کھایا آپ کو وہاں پہنچایا۔ ہمشیر صورت فقیر دیکھ کر روئی۔ کہا اے بھائی دولت مفت کھوئی۔ پھر غذائے لطیف لائی۔ پوشاک فاخرہ پہنائی۔ کئی مہینے رہا۔ ایک دن ہمشیر نے کہا بھائی بیکاری باعث بے قدری ہےاور دلیل بے ہنری ہے۔ سوداگر شام کو جاتے ہیں تو بھی متاعِ تجارت خرید لا اور ان کے ساتھ جا۔ پریشانی دور اور فراغت بدستور ہو گی۔ میں بےدست و پا کچھ نہ بولا ۔اس نے صندوقچہ کھولا۔ دو سو اشرفی دی اور تشفی کی۔ میں نے متاع کفایت سے لی اور ایک معتمد کو سپرد کی۔ قافلے نے کوچ کیا ۔ میں نے رہ کر گھوڑا لیا ۔ چند روز کے بعد با ساز خوب اور لباس مرغوب چلا۔ دو منزلہ طے کر کے جا ملا۔ سوداگر دن کو استراحت اور رات کو سیاحت کرتے ۔ہر روز باتفاق دعوت کھاتے منزل بمنزل خوش جاتے۔ جب قافلہ شام کے نزدیک پہنچا میں سرِ شام سوار ہوا کہ پیشتر شہر کو جاؤں۔ کارواں سرا میں فرود آؤں۔گھوڑا خیز کرکے آیا۔ دروازہ شہر پناہ بند پایا۔ ناچار زیر دیوار منزل کی۔ جب کہ زلف شب کمر تک پہنچی اس وقت کسی نے ایک صندوق دیوار سے نیچے چھوڑا۔ میں نے ادھر باگ کو موڑا کہ یہ مال لیجئیے اور خرچ کیجئیے۔ دیکھا تو ایک نازنین چار دہ سالہ آتش کا پرکالہ کہ آفتاب اس سے شرمندہ اور ماہتاب اس کا بندہ۔ زخمی صندوق میں تڑپتی ہے۔اور آہستہ آہستہ

ریختہ صفحہ5
کہتی ہے کہ اے بیدردو میں نے کیا تقصیر کی کہ تو نے میری جان لی۔
نظم:
جو نہی دیکھا اس نازنین کا جمال
ہوئی زلف اس کی محبت کا جال
اسے دیکھ کے گھائل مرا دل ہوا
یہ تڑپا یہ تڑپا کہ بسمل ہوا
میں نے کہا اے جانِ جہاں تیرا گھر کہاں ہے۔ کس ظالم نے بیرحمی سے ترا تن نازک زخمی کیا اور یہ وبال سر پر لیا۔اگر میں اسے پاؤں قیمہ بناؤں ۔ میری آواز جاں گداز سن کر آنکھ کھولی اور بولی اے عزیز کیا فائدہ۔ کام تمام ہے اگر مجھ کو زمین کھو کے گاڑ دے ثواب عظیم لے۔ میں نے دل ہاتھ سے دیا تامل نہ کیا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اس کا صندوق اٹھایا کارواں سرائے میں لایا۔ جراح کو طلب کیا مگر خوف نے لیا۔ مبادا کشف راز اور قصّہ دراز ہو۔القصّہ جراح نے اس کا منہ کھولا۔ تُند ہو کر بولا کہ اے بے معنی یہ کیا نادانی ہے۔ میری زبان سے نکلا بندہ بے تقصیر ہے اور یہ میری ہمشیر ہے۔ قافلہ یمن سے آتا تھا رات کو چوروں نے لوٹ لیا اور اس کو زخمی کیا۔ شہر نزدیک پایا اٹھا لایا۔ بارے جرّاح نے رحم کیا۔ زخموں کو سیا اور کہا امید ہے خدا فضل کرے یہ نہ مرے۔ جو سوداگر داخل شہر ہوئے میں نے اپنا مال لیا اور سب اسی پہ خرچ کیا ۔ آرام مجھ پر حرام ہوا ۔ جو وہ کھاتی تو میں کھاتا۔ جو وہ سوتی تو میں سوتا۔
نظم:
نہ آرام جی کو نہ تن کی خبر
اسی پر مری رات دن تھی نظر
جو کرتی تھی میری طرف وہ نگاہ
تو میرے جگر سے نکلتی تھی آہ
قدرت خدا سے صحت پائی ۔ چالیس روز کے بعد نہائی۔ اے درویشو جس وقت وہ نہائی اور مسند ناز پر آئی کیا عرض کروں ۔
نظم :
وہ چہرے پر اس ناز پرور کے نور
مگر آسمان پر سے اتری تھی حور
خدا جانے انسان تھی یا پری
درخشاں تر از زہرہ و مشتری
وہ نازنین ہمیشہ چپ رہتی۔ اپنا احوال کچھ نہ کہتی۔ میں بھی بے اجازت بات نہ کہتا ، اس کی رضا میں رہتا ۔ آخر میرے پاس خرچ نہ رہا۔ ملول بیٹھا تھا فرمایا کہ میں نے جانا جو تیرے پاس تھا سب خرچ کیا۔ لکھنے کا سامان حاضر کر۔ اس کے کہنے کے موافق حاضر کیا۔ اس نے لکھ دیا اور کہا فلانی طرف ایک سوداگر صاحب اقتدار ہے۔ اس کا نام سیدی بہار ہے۔ یہ رقعہ لے جا اسے دے۔ میں نے رقعہ پہنچایا ۔ وہ آداب بجا لایا۔ فوراً ایک خوان سر بمہر محلسرا سے لا کر غلام کو دیا اور حکم کیا کہ جس مکان سے یہ جوان رخصت کرے تو وہاں سے پھرے۔ میں نے سر دروازہ ء کارواں سرا خوان لیا اور اسے رخصت کیا۔ خوان بھاری تھا۔ بدشواری حجرے میں لایا۔ اس جان جہاں نے فرمایا۔ دیکھ گیدی نے کیا بھیجا۔ سر پوش اٹھایا پُر از طلا پایا۔ مجھ کو حیرت آئی کہ اس عزیز نے اس قدر زر دیا

ریختہ صفحہ 6
اور کچھ تشخص نہ کیا۔ الٰہی یہ نادرہ ءروزگار کس خاندان بزرگ سے ہے پھر مہربانی سے کہا اے فلاں تو نے میری خدمت بہت کی۔اور اپنی دولت برباد دی۔ یہ مشت زر لے خرچ کر ۔ میں بازار سے طعام لذیذ لایا اور اس نے تناول فرمایا۔ کہا کہ ایک حویلی خرید کر کہ گو گھر اپنا علیحٰدہ بہتر ہے۔ میں نے تمام روز گردش کھائی ایک عمارت بہم پہنچائی۔ کئی ہزار اشرفی قیمت دے کر خرید کی۔ جب عمارت میں آئی۔ بشارت فرمائی کہ بازار کی طرف جا پوشاک طیار لا۔ میں نے کہا اے جان جہاں پوشاک طیار کہاں۔ فرمایا قلعہ بادشاہی کے متصل یوسف نامی سوداگر مالدار ہے۔ اور اس کی دکان پر طرح طرح کا اسباب طیار ہے۔ میں گیا۔ دیکھا ایک جوان خوشرو چار ابرو بالائے مسند ناز بامتیاز بیٹھا ہے۔
نظم :
بہت نازک انداز و خوش قد جوان
چمن میں نزاکت کے سرور واں
نہایت حسین اور صاحب جمال
گلستان خوبی کا تازہ جمال
میں نے کہا کہ ایک بزرگ زادی صاحب اقتدار ہے اس کے واسطے پوشاک درکار ہے۔ کہا کرم کیجئیے لیجئیے۔ پوچھا وطن ۔عرض کی یمن ۔پھر پوشاک بے بہا لی اور قیمت بے تکرار دی۔ وہ عزیز محبت سے پیش آیا۔ حرف دعوت درمیان لایا۔ میں نے عذر کیا کہ بندہ اس شہر میں بیگانہ ہے اور ساتھ صاحب خانہ ہے۔ اس کی تنہائی ناگوار اور جدائی دشوار ہے۔ ہر چند میں نے منہ موڑا اس نے دامن نہ چھوڑا ۔ ناچار قسم یاد کی کہ اب جاؤں شام کو آؤں ۔ اس اقرار سے اس زیبا نگار کے نزدیک رخت لایا پسند آیا۔ پوچھا دیر کیوں ہوئی ۔ میں نے اس کی مہربانی کا حال سب بیان کیا کہا بہتر وعدہ وفا کر۔ مجھ کو اس سراپا زیبائی کی جدائی منظور نہ تھی۔ میں نے حیلہ کیا اس نے غصہ کیا۔ ناچار رضا درکار شام کو گیا۔ وہ عزیز دکان بند کر کے منتظر تھا ۔اس کی خاطر اس قدر بشاشت لائی گویا گئی ہوئی چیز ہاتھ آئی ایک باغ میں نشست کی اور مجلس ترتیب دی۔
نظم:
کروں کیا میں اس باغ کی اب ثنا
بہشت بریں کا نمونہ بنا
درخت اس میں جتنے تھےسب میوہ دار
چمن در چمن کھل رہی تھی بہار
اس میں ایک حوض آب شیریں سے لبریز ،فوارہ گہر ریز ۔مکان خوب اور فرش مرغوب شب مہتاب بزم شراب گروہ مطرب آیا۔ اس مزے سے گایا اگر زہرہ سنتی تنکے چنتی۔ جب دماغ گرم اور دل نرم ہوا اس کی آنکھوں سے دریائے اشک بہا۔ مجھ سے کہا دوست دمساز سے پردہ بعید از وفاق بلکہ علامت افاق ہے اگر یہ عاجز پائے اپنی معشوقہ کو بلائے کہ وہ میری آرام جان اور درد دل کی درمان ہے۔ میں نے کہا اے دوستدار تیری خوشی درکار ہے۔ جلد بُلوا کہنے کے بموجب بلوائی ایک عورت خوبصورت پردے سے باہر آئی۔ قدرت خدا نظر آئی۔
نظم:
نگہ اس کی ہوتی تھی جس دم دوچار
گزر جاتی تھی تیر سی دل کے پار
کہا اے یار دلنواز تو بھی اپنا ساز منگا اور کچھ گا۔ اس نے ساز منگایا اس خیال سے ترانہ گایا۔

ریختہ صفحہ 7

کہ پانی چلنے سے اور پرند اڑنے سے رہا۔ تین رات دن وہ مزا رہا کہ ہر ایک مست و مدہوش اور میں از خود فراموش۔ چوتھے روز دل میں گزرا کہ اے نادان وہ گرمجوشی اوریہ فراموشی۔ایک ساعت اس کی جدائی ناگوار اور مفارقت دشوار تھی۔ اب کیا عذر لائے گا کہ شرمندگی سے سر نہ اٹھائے گا ، اس عزیز سے رخصت طلب کی اجازت نہ دی۔ کہا خدمت میں کیا کوتاہی پائی کہ خاطر پر کدورت آئی ۔ میں نے یہ کیا بات ہے تم تو موصوف الجمیع صفات ہو ۔ پھر رخصت ہوا۔ اس جان جہان کے پاس آیا شرمندگی سے سر نہ اٹھایا ۔ متبسم ہو کر فرمایا کہو دعوت کی کیا حلاوت پائی ۔ میں نے اس کا حسن اخلاق اور معشوقہ کا وفاق سب بیان کیا۔ کہا اے فلانے صاحب غیرت جو کہیں کھاتے ہیں آپ بھی کہلاتے ہیں ۔ میں نے کہا وہ اہل معاش میں صاحب افلاس۔ کہا بے سامانی سے نہ ڈر تو بھی ضیافت کر ۔ میں نے حیلہ لیا۔ ؟؟ نہ کیا۔ جو مبالغہ حد سے گزرا ہر چند دریائے فکر میں غوطہ کھایا۔ بھید کا کنارا پایا۔ ناچار دوسرے روز گیا اس نے تپاک سے بلا لیا۔ اخلاص برادرانہ کیا ۔ حاضری منگوائی باتفاق کھائی ۔ تمام روز اختلاط رہا شام کو میں نے کہا آج اگر غریب خانے کی طرف قدم رنجہ فرمائیےاور نان و نمک ایک جا کھائیے۔ عالم محبت میں گنجائش رکھتا ہے۔ ہنس دیا اور قبول کیا۔ باتفاق روانہ ہوئے۔ اس کو میرا پاس خاطر کمال اور مجھے بے سامانی کے سبب سے یہ خیال کہ تھوڑی رات اور گزرے اسے فریب دوں اور راہ گریز لوں۔ فرصت نہ پائی حویلی نزدیک آئی۔ دیکھا صحن خانہ کے دروازے پر جاروب دی اورآب پاشی کی۔ دورویہ جھاڑ روشن کئے کارپرواز کار فرما برپا ہیں ۔ میں نے جانا شراب بہت پی راہ غلط کی جو خوب ملاحظہ کیا۔ وہی در اور وہی گھر ہے۔ خراماں خراماں دیوانخانے میں آیا ۔ بخوبی آراستہ پایا ۔ چاندنی کے فرش پر سراسر ناچنے والے پری پیکر شمع ہائے بلوریں روشن ارباب نادرہ فن گلاب کے شیشے دھرے قرابے شراب سے بھرے مہمان کو صدر مجلس میں جگہ دی اور ارباب نشاط کو اجازت کی ۔ خدمتگار شربت خوشگوار لایا ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے پلایا ۔ بعد ازاں میں اٹھا کہ دیکھوں وہ جان جہان اس مکان میں کہاں ہے ۔ دیکھا تو ایک پال کے اندر چادر سفید سر پر سامان دعوت کرتی ہے۔ میں دوڑ کے نثار اور حیرت زدہء روزگار ہوا کہ الٰہی یہ کیا نقش غریب اور طلسم عجیب ہے ، میری طرف آنکھ اٹھائی اور غصے میں آئی کہ اے بیخبر نادانی نہ کر۔ مجلس میں جا۔ مہمانداری بجا لا ۔
نظم:
توقف نہ کرجلد جا اس کے پاس
مبادا تیرا مہمان ہو اداس
جو کھائے خوشی سے کھلانا اسے
مئے پرتگالی پلانا اسے
سب کو انعام دے ۔ ہر ایک سے کام لے ۔ خدمت سے منہ نہ موڑ تین رات دن نہ چھوڑ۔ اور اگر ہو سکے اس کی معشوقہ بھی آئے کہ مہمان حظ تمام پائے۔ غرض مجلس میں راگ رنگ خوب رہا۔ میں نے کہا

ریختہ صفحہ 8

عالم آشنائی میں کسی طرح کی جدائی نہیں ۔ اگر تکلف درمیان نہ لائے اپنی معشوقہ کو بلائے۔ جو اس کو وہ یارغمگسار تھی اور بے اس کے زندگی ناگوار تھی۔ وہ بھی میانہ پر سوار ہو کر آئی۔ جوان نے بشاشت کمال پائی۔ تین رات دن وہ صحبت رہی کہ زمانے نے واہ واہ کہی۔ چوتھے روز میں سو گیا۔ جب آفتاب نے گرمی کی۔ جاگا۔ اس انبوہ سے ایک آدمی نظر نہ آیا۔ خوف کھایا کہ طلسمات تھا یا عالم جنات تھا۔
نظم:
نہ پایا کسی آدمی کا نشان
ہوا خانہء عیش ہُو کا مکان
نہ وہ گھر میں مالک نہ وہ شور و شر
مگر ایک مدت سے خالی تھا گھر
سراسیمہ اٹھا ۔دیکھا کہ ایک کوٹھری میں سوداگر بچہ مع معشوقہ تیغ ستم سے کشتہ اور خاک و خون میں آغشتہ ہے۔
نظم :
جو دیکھا پڑا وہ جوان سرنگوں
بہا میری آنکھوں سے دریائے خوں
پھٹا غم اور درد سے سینہ میرا
گرا سنگ پر آبگینہ مرا
میں تہمتِ خون سے ڈرا۔وہاں سے پھر ایک خدمتگار اس نادرہء روزگار کا نظر آیا ۔ میں نے بلایا۔ ہر چند پوچھا جواب نہ دیا۔ مگر مجھے ساتھ لیا۔ متصل حصار ایک مسجد کنگرہ دار تھی۔ کہا اس مکان سے باہر نہ جانا اور جانا تو پھر نہ آنا۔ شام کو خواجہ سرا آئے گا تجھے لے جائے گا۔ میں نے شکر خدا کیا اور گوشے میں چھپ رہا۔ شام کو خواجہ سرا آیا۔ مجھ کو آہستہ بلایا۔ میں اس کے ساتھ دست بدعا ایک باغ میں داخل ہوا۔ وہ باغ اگر رضوان پاتا بہشت کو نہ جاتا۔ ایک لمحے کے بعد وہ سرو گلستان رعنائی خراماں خراماں آئی۔ خواجہ سرا سے فرمایا دو توڑے اشرفیوں کے اسے دے اور کہہ کہ اپنی راہ لے۔ میں نے کہا اے جان جہان خدا سے ڈر۔ اس وقت کو یاد کر ۔ اگر بندے کو اشرفیوں کی آرزو ہوتی تو جان اور مال سے فدا نہ ہوتا۔ یہی آرزو ہے کہ اب مجھ کو اپنی خدمتگاری میں لے یا جہاں تیری گذرگاہ ہو وہاں مار کر گاڑ دے۔یہ سن کر ہنسی اور برخاست کی۔ میں روتا مسجد میں آیا ، زندگی سے ہاتھ اٹھایا۔ ہر دم آہ سرد بھرتا اور نالہ گرم کرتا۔ نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا۔
نظم
گیا بھول سب کھانا پینا مجھے
ہوا سخت دشوار جینا مجھے
کباب اپنے لختِ جگر سے کیا
پیاسا ہوا خون دل کا پیا
رفتہ رفتہ بیمار اور درد میں گرفتار ہوا۔ نہ اٹھنے کی طاقت نہ بیٹھنے کی قوت ۔ جو کوئی پاس آتا افسوس کھاتا۔ اتفاقاً وہ خواجہ سرا چالیس روز کے بعد مسجد میں آیا۔ جاں بلب پایا ۔ خدا نے اسے رحم دیا۔ میرا ذکر حرم میں کیا اس بےرحم کو بھی رحم آیا۔ فرمایا وقت شام فلانے مقام پر لانا اور دوا کھلانا۔ خواجہ سرا صاحب درد بلکہ جواں مرد تھا۔ مجھے باغ میں لایا۔ شربت مقوی پلایا۔ پہر رات گئے وہ نازنین آئی۔ میں نے عمر دوبارہ پائی۔ اگر سچ پوچھو تو میری خاطر اس قدر مسرور ہوئی کہ اسی دم نصف بیماری دور ہوئی۔ مجھے تسلی دی اور تشفی کی۔ اسی طرح ہر شب آتی دلداری کر جاتی۔ ایک شب تن تنہا آئی ۔ نہایت مہربانی فرمائی۔ معلوم کیا

ریختہ صفحہ 9

وہ نادرہ ء روزگار فقط میری صحبت کی نہیں طلبگار، حرصِ نفسانی غالب ہے۔اور کچھ اور بات کی بھی طالب ہے۔ میں نے کہا اے ماہِ دل افروز اس روز دوپہر میں وہ سب اسباب کہاں پایا چوتھے روز کچھ نظر نہ آیا۔ یہ کیا طلسمات تھا۔ کہا اے عزیز میں شاہزادی ہوں۔ تجھ کو اس طرف رخصت کیا۔ آپ برقع سر پر لیا۔ ماں کے پاس آئی اسباب لائی ۔ میں نے کہا اے سراپا ناز و زیبائی احوال جدائی کس طرح بیان کیا۔ کہا میرا باپ شکار کھیلنے کے طریق پر تین مہینے سے باہر ہے اور ماں قلعے کے اندر ہے۔ بے حرمتی جان کر کسی سے نہ کہتی خفیہ تلاش میں رہتی۔ میں جو آئی اس نے جان پائی۔ مجھے گود میں لیا تفحص حال کیا۔ میں نے کہا اے مادر مہربان تین روز اور مجھ سے درگزر بالفعل حکم کر کہ کار پرواز جمیع کارخانہ سب اسباب ضیافت کا آج ہی اس مکان میں پہنچائیں اور چوتھے روز چلے آئیں۔ چنانچہ سب آئے اور خدمت بجا لائے۔ میں نے کہا اے معشوقہ دلپذیر سوداگر بچے کی کیا تقصیر ۔ فرمایا میں دائم الخمر اور گردشِ زمانہ سے بےخبر تھی ۔ ایک ایّام میں شراب سے پرہیز تھا اور مسکرات سے گریز۔ مجھ کو خمار نے لیا اور خواجہ سرا نے التماس کیا اگر ملکہ جرعہ کو کنار نوش فرمائے مزاج فرحت پائے۔ میں نے کبھی اس کو نہ پیا تھا جواب نہ دیا۔ خواجہ سرا ایک ساعت کے بعد باہر سے آیا گھڑا بھر کے چھوکری کے سر پہ لایا۔ میں نے پیا اور ان کو دیا۔ خاطر مسرور اور کلفت دور ہوئی۔ وہ چھوکرا مسخرا تھا عجائب بولیاں بولتا دل کی گرہیں کھولتا۔ اس کا کوزہ زر سفید سے بھر دیا اور ہر روز آنے کا حکم کیا۔ میں اس کی باتیں سنتی اور ہنستی۔ مرد کچھ مہینے تک ہر روز آتا سیم سفید اور زر سرخ سے کوزہ بھر لے جاتا مگر اس کا لباس وہی رہا۔ ایک روز میں نے کہا کہ تو نے اس قدر زر پا لیا۔ کچھ لباس نہ بنایا۔ کہا میں غریب یتیم ہوں۔ سب مال دکاندار لیتا ہے مجھ کو روٹی دیتا ہے۔ میں نے رحم کیا لباس فاخرہ دیا۔ آغاز جوانی تھا جمال نے جلوہ اور حسن نے بلوا کیا، میرا دل طالب ہوا اور عشق غالب ہوا۔ اس قدر فریفتہ ہوئی اگر ایک روز ملاقات نہ ہوتی شب کو نہ سوتی۔ آخر راز فاش ہوا اور ہر ایک درپے تلاش ہوا ۔ دایہ نے کہا اس کا آنا خوب نہیں۔ مبادا بادشاہ سنےکہیں۔ وہ بھی خوف سے نہ آیا دل تاب نہ لایا۔ خواجہ سرا میرا ہمراز تھا اس کے واسطے دکان علیحدٰہ لی اور کئی ہزار دینار کی تھیلی دی۔ دولت سے معمور اور تجارت میں مشہور ہوا۔ میں نے اپنی خوابگاہ کے نزدیک حویلی تیار کی اور نقب ترتیب دی ۔ رات کو آتا صبح دم جاتا۔ چند روز کے بعد عرض کی کہ ایک باغ بکتا ہے طیار اور اس کی قیمت دوہزار ۔لینا منظور مگر بے مقدور۔ میں نے اس کی خاطر سے زر دیا اور خود جا کے ملاحظہ کیا۔ فی الواقع باغ دلکشا اور جانفزا تھا۔ ایک روز پھر سے اختلاط سے باز رہا ۔ میں نے کہا کہ کیا حالت ہے کہ ملالت ہے۔ عرض کی ایک کنیز طنبورہ نواز خوب گاتی ہے اور پان سو دینار کو ہاتھ آتی ہے ۔ اگر اجازت پاؤں

ریختہ صفحہ 10

خرید لاؤں۔ میں نے اس کی خاطر کی قیمت دی ۔ حقیقت میں کنیز نغمہ و سرور میں نادرہء روزگار اور کامل عیار تھی۔ ایک شب میں نقب کی راہ سے حویلی میں اکیلی گئی وہ نہ تھا۔ غلام بچہ سے معلوم ہوا سیر باغ کرتا ہے اور لونڈی پر مرتا ہے ۔ میں آتشِ غیرت سے جلی۔ تنہا باغ کو چلی۔ گرتے پڑتے آپ کو وہاں پہنچایا دونوں کو ایک جا پایا ۔ لونڈی پیچ و تاب کھا کر گھبرائی۔ جانا آفت آئی۔کہا اے عزیز میں نہ کہتی تھی دیوانہ نہ ہو، اپنی جان نہ کھو۔ میں نے لونڈی کو پچھاڑا گریبان پھاڑا ۔ اس نمک حرام نے قدرت پائی میرے پیش قبض لگائی۔ میں بےہوش ہو کر گری۔ پھر خدا جانے کیا گزری۔ اس نے اپنی دانست میں میرا کام تمام کیا اور صندوق میں بند کر کے نیچے پھینک دیا۔ میری حیات باقی تھی خدا تجھے لایا تو نے اٹھایا۔ اے فلانے وہ سوداگر کہ اس قدر زر تیرے ساتھ کر دیا اور عذر نہ کیا وہی کوکنار فروش تھا کہ میری ہدایت پہ عمدگی پائی اور عمارت بنائی۔اور وہ جوان کہ تیرا مہمان ہوا وہی مسخرا تھا کہ یہ امتیاز پایا اور سوداگر بچہ کہلایا۔ میرے ساتھ وہ سلوک کیا میں نے یہ بدلہ لیا۔ اے درویشو شاہزادی یہ حکایت کہہ کر دو گھڑی تک روتی رہی ۔ ہنوز اس کے دل میں زخم کاری اور آنکھوں سے خون جاری تھا ۔ پھر اس کے بعد فرمایا اے فلانے جب سے مجھ کو تیری حضوری میسر آئی تو نے یہ راحت نہ پائی۔ اب تجھ کو دغا دینا گردن پر خون لینا ہے۔ فی الحال زیرِ دیوار خواجہ سرا رہ اور کسی سے کچھ نہ کہہ۔ جب فرصت پاؤں گی تیرے پاس آؤں گی۔ میں اس کے گرد نثار ہوا اور شکر گزار ہوا۔
نظم
جو اس ماہ رو نے کیا یہ کلام
میں خوش ہو گیا صورت شاہ شام
خوشی سے کھلے میرے دل کے کواڑ
بسا پھر وہ گھر جو ہوا تھا اجاڑ
اس نے محلسرا کی طرف قدم رنجہ فرمایامیں نے مرگ چھالا بچھایا۔ شب کو تنہا آتی تسلی کر جاتی۔ ایک بار آدھی رات کو آئی۔ دو گھوڑے طیّار ساتھ لائی ایک آپ لیا دوسرا مجھے دیا۔ قلعہ سے باہر آئی جس طرف راہ پائی جلوریزی فرمائی۔ میں نے رات دن راہ دراز کو طے کیا کہیں دم نہ لیا۔ اتفاقاً ایک دریائے عظیم پیش آیا۔بے کشتی گزر نہ پایا۔ بلکہ ایک درخت کے نیچے فرود آئی آسائش فرمائی۔ میں کشتی کی تلاش کے واسطے چند قدم چلا سُراغ نہ ملا دل میں گزرا ملکہ تنہا ہے خبر لاؤں۔ پھر اور طرف جاؤں ۔ وہاں جو آیا اسے نہ پایا۔ معلوم کیا قضائے حاجتِ انسانی کے واسطے گئی جو دیر ہوئی ۔ سر زمین پر مارا ہر طرف اسے پکارا۔ جنگل منجھایا پتا نہ پایا۔ بے قرار اور بے اختیار ہوا۔
نظم
تڑپ کر گرا آخرش خاک پر
پڑا میں رہا رات دن بیخبر
جو چیتا چلا دشت کو نعرہ زن
ہوا پیرہن پھٹ کے شکل کفن
زندگی وبال اور کوفت کمال ہوئی۔ چاہا پہاڑ سے گروں اور مروں۔ ایک فقیر نظر آیا احوال سن کر فرمایا۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 11

ملکہ ہنوز زندہ ہے اور اس کا اختر تابندہ ہے۔ شہر روم کی طرف جا، مدعا بر آئے گا۔ تین فقیر اور کہ ہر ایک کو مہم عظیم درپیش ہے۔ متصل شہر اول روز تجھے داخل اور تقریباً مجلس بادشاہ میں داخل ہوں گے۔ بادشاہ بھی ایک بات کا دردمند اور جناب الہیٰ میں مستمند ہے۔ اغلب کہ پہلے بادشاہ اپنی مراد پائے بعد ازاں ہر ایک کی امید بر آئے۔ الحمد للہ اس فقیر کا فرمودہ راست آیا کہ تم بزرگوں کو یکجا پایا ۔ آئیندہ دیکھئیے کہ پردہ ء غیب سے کیا ظہور میں آئے۔ اور چرخ شعبدہ بازی کیا بازی دکھائے۔ اس خانماں برباد کی روداد یہ ہے اب اپنا اپنا احوال کہو اور فضل الہیٰ کے امید وار رہو۔
قصہ دوم
دوسرا فقیر بولا کہ بندہ شاہزادہ عجم اور صاحب جاہ و حشم مالک خزانہ مختار کارخانہ ہے۔ باپ کا یہی بندہ ایک فرزند رگِ جاں کا پیوند۔
نظم:
مرا بوئے دولت سے تر تھا دماغ
شب و روز کرتا تھا گلگشت باغ
مرے گرد رہتے تھے لیل و نہار
ہزاروں پیادے ہزاروں سوار
ایک روز میں بارادہء شکار سوار ہوا۔ صحن صحرا فرش زمردیں سے آراستہ اور رستہ خس و خار سے پیراستہ تھا۔
نظم:
زمیں سبز تھی اور ہوا خوشگوار
درختوں پہ قدرت خدا کی بہار
نمایاں سراسر وہ سبزی کی موج
زمین دوز اڑے جیسے طوطی کی فوج
ناگاہ ایک آہو مشکین مو بازیور طلائی بصد زیبائی نظر آیا۔ میں نے یاروں سے فرمایاکوئی میرا تعاقب نہ کرے۔ میں خود جاتا ہوں زندہ اسیر کر لاتا ہوں۔ بس گھوڑا خیز کیا اور آہو نے گریز۔ میں جب اس کے سر پر گیا وہ صحرا کو ایک چوکڑی بھر گیا۔ فرد ،خدا جانے آہو تھا یا برق تھا ۔ تڑپ ویسی ہے شکل میں فرق تھا۔ تا دوپہر ہاتھ نہ آیا۔ گھوڑا نین عرق لایا۔ ناچار ایک تیر اس ۔۔۔۔۔۔۔ کے ران میں زورِ بازو سے ترازو کیا ۔ اس نے پہاڑ کا رستہ لیا۔ میں نے گھوڑا چھوڑا پیادہ دوڑا۔ وہاں ایک چشمہ ملا پُر از آب۔ زُلال خنک بدرجہ ءکمال۔ میں نے پانی پیا وضو کیا۔ متصل ایک گنبد تھا نادرہ کار۔ اس کے گرد درخت سایہ دار۔ وہاں سے آواز آئی کہ اے مونس تنہائی جس نے تجھے ماراہو وہ خانماں آوارہ ہو۔ میں نے جا کر دیکھا کہ ایک پیر مرد صاحب درد کلاہ درویشی سر پر دئیے اور آہو کو گود میں لئے بے اختیار روتا ہے۔ عرض کی کہ اے پیر یہ تقصیر مجھ سے ہوئی معاف کر۔ فی الحال آہو کے ران سے تیر نکال کر میں نے مرہم بنایا زخم پر لگایا ۔ دن تمام اور وقت شام ہوا۔ فقیر ماحضر لایا باتفاق کھایا ۔ گوشہ لیا آرام کیا۔ نصف شب کو آواز گریہ آئی۔ چادر اٹھائی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نازنین بلباس فرنگ غارت گر ناموس و تنگ کرسی مرصع پر بیٹھی ہے۔ وہ مغرور حسن و ناز اور فقیر بر سر عجز و نیاز ۔ میں دیکھ کر بیہوش اور از خود فراموش ہوا۔

ریختہ صفحہ 12

نظم:
صفائی وہ چہرے پہ دلخواہ تھی
مگر چودھویں رات کی ماہ تھی
غلط میں نے اس کو کہا ماہتاب
اسے دیکھ کر زرد ہو آفتاب
فقیر نے معلوم کیا کہ دل ہاتھ سے دیا۔ نزدیک آیا سمجھایا ۔ میں نے کہا سچ کہو پری ہے یا بشر۔فرمایا جا اسی سے دریافت کر۔میں نے دوڑ کر سلام کیا ۔ جواب نہ دیا۔ قدم کو ہاتھ لگایا سنگ سخت پایا۔ وہ بت تھی تراشیدہ سنگ۔ تراشان دست کار نقاشان۔ میں نے پوچھا اے پیر یہ کس کی تصویر ہے کہ بیک دیدار میں بے اختیار اور تیر عشق سینے سے پار ہوا۔
نظم:
یہ تصویر ہے کس دل آرام کی
کہ آفت ہوئی میرے آرام کی
پڑی ہے میری جب سے اس پر نظر
نہ دنیا کی سدھ ہے نہ دین کی خبر
برائے خدا اس کی اصل سے نشان دے ثواب عظیم لے کہ ابھی جاتا ہوں۔ طالع آزماتا ہوں۔ کہا اس بات سے درگذر آپ کو ہلاک نہ کر۔ مفت جان جائے گی وہ ہاتھ نہ آئے گی۔میری خاطر میں نہ آیا۔ ناچار آہ سرد لبوں پر لایا۔ اس نے کہا نعمان سیّاح میرا نام ہے اور تجارت کام ہے۔ ہر اقلیم کو جانا خرید و فروخت کر آنا ، جو سیر و سفر بہت کیا لوگوں نے سیاح خطاب دیا۔ اتفاقاً قافلہ سوداگران وارد فرنگستان ہوا ۔ ایک پیر زن بالباس فاخرہ ہمراہ خواجہ سرا تشریف لائی ۔ سرگروہ قافلہ سے پوچھتی پوچھتی میرے پاس آئی۔ کہا ملکہء جہانیاں طلبگار ہے اور اجناس نفیسہ درکار ہے۔ میں نے کہا اب شام ہے وقت آرام ہے۔ کل حاضر ہوں گا۔ علی الصباح اپنا اور بیگانہ مال لے کر پہنچا۔ ملکہ نے روبرو طلب کیا۔ میں نے کہا سبحان اللہ عمارت دل کشا قابل تماشہ فرش دیبا نہایت زیبا ملکہ مثال پری مسند آرائی دلبری ہے۔
نظم:
پڑی اس کے منہ پر جو میری نگاہ
پڑھی بس درود اور کہا واہ واہ
نہ جانوں پری زاد تھی کہ حور
سراسر چمکتا تھا چہرے پہ نور
میں متحیر کھڑا ہو رہا اس نے ہنس کر کہا آگے آ اپنی متاع لا۔ میں نے پہلے نقد دل پیشکش کیا اور اس کے بعد اشیائے چند اور جواہر بیش بہا خانساماں کو دیا ۔ فرمایا کل آنا قیمت لے جانا۔ میں خوش ہوا کہ الحمد للہ ایک بار دولت دیدار پھر میسر آئے گی۔
نظم
میں آیا وہاں سے مگر بے حواس
گئی میرے قالب سے بھوک اور پیاس
نہ دل کو رہا پاس ناموس و ننگ
ہوا میں گرفتار قید فرنگ
اس روز کھانا نہ کھایا ۔یاروں نے سمجھایا کہ دل ہاتھ سے نہ دے سر پر آفت نہ لے ۔ میں نے کسی کی بات نہ مانی۔ شب حیرانی میں گزرانی۔ جب صبح نمودار اور خلق خدا بیدار ہوئی۔ کمر باندھ کر گیا اس وقت بار عام اور مجرا سلام تھا ۔ اندر در آیا۔ آداب بجا لایا۔ مجلس تھی تازہ بہار رنگین تر از گلزار۔ ملکہ بالباس سیاہ مانند ماہ تخت نشین اور امیر زادیاں اس کے گرد مثال پر ہیں۔ لونڈیاں دور دور دست بستہ مرہم دلہا سی خستہ۔
نظم:
ہر اک اپنے پایہ کے اوپر کھڑی
جواہر میں سر سے قدم تک جڑی
بے خال سی دانہ

ریختہ صفحہ 13
زلفوں سے دام
رہیں فکر میں صید دل کے مدام
برخاست کے بعد زر قیمت دیا اور استفسار کیا کہ نفع تجارت ایک سال کس قدر ہے۔ میں نے کہایہ قیمت پر منحصر ہے۔ فرمایا ہزار اشرفی دیتی ہوں اور ایک کام لیتی ہوں۔اگر ہو سکے قبول کر نہیں راہ پکڑ۔ میں نے کہا بند ہ فرماں بردار بلکہ جاں و مال سے نثار ہے۔ ایک بٹوا اعجوبہ کار اس میں رقعہ بخط گلزار مع رومال زرتار حوالے کیا اور اپنے ہاتھ سے ایک چھلہ دیا۔ کہا دو کوس پر جہاں آرا ایک باغ بخوبی تمام ہےاس کا داروغہ کیخسرو نام ہے اس کو دینا جواب لینا ۔ میں رخصت ہو کے جب باغ کے نزدیک پہنچا کئی مرد مسلح شمشیر علم کئے آئے مجھ کو پکڑ لائے۔کخیسرو زرہ داؤدی در بر خود آہنی بر سر کرسی مرّصع پر بیٹھا تھا اور ہزار جوان کمر بند روبرو کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ مدح یاز کیا اور ثنا آغاز۔ جب قابو پایا چھلّہ دکھایا وہ متحیر رہا آہستہ کہا اور کیا فرمایا میں رومال سامنے لایا۔ کہا باغ میں جا قیدی کو دے اور اپنی راہ لے۔وہ عزیز تھا یوسف ثانی اور آغاز جوانی ۔ پنجرہ فولادی میں گرفتار لاغر تر از بیمار۔
نظم:
فقط جان اس کے بدن میں تھی بس
رگیں تھیں نمودار مثلِ قفس
اسے دیکھ کر لوٹتا خون میں باغ
وہی دل پہ لالہ کےہے ایک داغ
میں نے نامہ دیا اس نے مطالعہ کیا کہا اس آرام جان سے کہنا میرا کام تمام ہے تدبیر سے درگذر ۔ نامہ و پیغام نہ کر۔ یہ گفتگو سنتے ہی حبشیوں نے مجھ کو گھیر کر زخمی کیا پھر خبر نہ رہی کیا کیا۔ رودیا۔ جب ہوش آیا آپ کو پایا۔ دو شخص لئے جاتے ہیں اور افسوس کھاتے ہیں کہ تماشا عجب رہا ۔ ایک نے کہا اسے ڈال جائیں اور آنکھ چرائیں۔ دوسرا بولا خدا سے ڈر ایسا نہ کر ۔ ملکہ اگر خبر پائے مجھ کو جیتا گڑوائے۔ یہ سن کر میں نے کہا یارو یہ کیا تماشا ہے اگر گرانی نہ لاؤ مجھے بھی بتلاؤ۔ کہا اے عزیز آفت تو لایا کہ نامہ پہنچایا ۔ وہ جوان قیدی رشک ماہ برادر زادہء بادشاہ ہے۔ اس کے باپ نے وقت رحلت بھائی کو سلطنت دی اور وصیت کی کہ شاہزادہ ہنوز خرد نزاد ، تو بمنزلہء پدر ہے، وقت بلوغ اپنی بیٹی دیجئیو اور ملک کا مالک کیجئیےو۔ چچا نے دینا نہ لینا تہمت دیوانگی سے اس کو قید کیا کئی بار زہر ہلاہل دیا بے اجل کام نہ کیا۔ دونوں غمزدہ آپس میں منسوب اور باہم محبوب ہیں۔ ملکہ نے کیخسرو کو کچھ رشوت دی اور نامہ و پیغام کی راہ جاری کی ۔ یہ حال کسی نے بادشاہ کو پہنچایا بادشاہ نے حبشیوں کو فرمایا تجھ کو زخمی کر کے ڈال دیا۔ کیخسرو کو باندھ لیا شہر میں شہرت ہوئی ملکہ شہزادے پر مرتی ہے اور عشق کا دم بھرتی ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے فرمایا وہ تدبیر عمل میں آئے کہ یہ گمان خلق سے جائے ۔ وزیر نے صلاح دی ملکہ اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے تب یہ آتش فتنہ مرے۔ پھر وزیر ملکہ کی خدمت میں آیا خوشامد سے سمجھایا انگلی کو دانتوں میں داب لیا

ریختہ صفحہ 14
اور انکار کیا جو مبالغہ حد سے گزرا کہا بہتر۔ مگر شب کو؟ وہی ماجرا روبکار ہے اور عالم زار ونزار ہے۔ ملکہ نے تجھے سر ِراہ اس حال سے تباہ دیکھا چند اشرفی دی اور اشارت کی ابھی اسے لے جاؤ میں نے کہا اے یارو یہ مال تم کو حلال ہے برائے خدا مجھ کو تماشہ دکھاؤ ۔وہ بارے تماشہ گاہ میں آئے مجھے ساتھ لائے ۔وہ ایک باغ تھا نادر۔بادشاہ اور وزیر حاضر۔ملکہ خراماں خراماں آئی بادشاہ نے شفقت فرمائی۔پیشانی پر بوسہ دیا۔ گود میں لیا۔شاہزادے کو پنجرے سے باہر نکالا ۔ ایک طرف بٹھایاملکہ بمجرد دیدار بیقرار اور مانند ابر اشکبار ہوئی۔
نظم:
اٹھی کھینچ کر آہ بے اختیار
ہوئی دوڑ کر گرد اس کے نثار
کہامیں فدا تجھ پہ اے میری جان
خدا دے تجھے ظالموں سے امان
بادشاہ غصے میں آیا وزیر سے فرمایا ۔اے بے شعور تجھے یہی منظور تھا کہ ملکہ میرے روبرو بے حیائی اور ادائے رسوائی کرے۔ اب جا تو ہی اس آگ کو بجھا۔ وزیر سیہ ضمیر کو غیرت نے لیا ۔ایک ضرب شمشیر میں اس کا کام تمام کیا ۔اس وقت کسی نے ایک تیر سینے وزیر پر ایساجڑا کہ پار ہو کر اسّی قدم آگے جا پڑا ۔عالم تہ و بالا ہوا کہ وزیر موا۔ بادشاہ کو دہشت نے لیا ۔حرم کی طرف فرار کیا۔ مجھ کو اس حالت میں غش آیا۔ پیادوں نے کارواں سرا میں پہنچایا ۔کیا دیکھتا ہوں جراح آیا ہے مرہم لگایاہے۔ سوداگر خوف کھا کر دریا کے پار اتر آئے ۔مجھ کو اٹھا لائے۔ چالیس روز کے بعد میں نہایا مگر زخم عشق کو بدستور پایا۔ ملکہ کے ملک کا ارادہ کیا۔ یاروں نے جانے نہ دیا۔ جب قافلہ اس سرزمین پر لایا عشق نے غلبہ پایا۔ناچار سنگ تراشیان نادرہ روزگار اور نقاشان مانی نگار ہر دیار سے طلب کیے اور مبلغ خطیر انعام دئیے۔ اس کی تصویر بنائی۔ اند کے تسکین پائی۔ اگرچہ بت پرستی دور از دانائی ہے مگر دل سودائی کو فی الجملہ شکیبائی ہے۔ نصف مال عیال کو دیا باقی مال غلام کو سپرد کیا کہ تجارت کرکے بسر لے جائے اور بقدر قوت مجھ کو پہنچائے۔جو خدا اسے دیتا ہے میری خبر لیتا ہے ۔جب سے یہ فقیر گوشہ گیر ہے اور باعث سرور یہ تصویر ہے ۔درویشو، یہ سن کر میں نے سلطنت پر نظر نہ کی۔ لباس درویشی پہن کر ملک فرنگ کی راہ لی ۔بعد۔۔۔۔۔ ایام اس شہر دل آرام میں پہنچا ایک برس گردش کھائی۔ برآمد کار نظر نہ آئی۔ اتفاقاً ایک روز مرد گریزاں اور افتاں و خیزاں تھے۔میں حیران ہوا کہ الٰہی یہ کیا حشرات اور کیا واردات ہے ۔دیکھا ایک جوان شیر توان جو شان و خروشان مثل فیل مست شمشیر بدست زرہ دربر خود بر سر چلا آتا ہے اور پیچھے دو غلام نازک اندام ان کے سرپر تابوت بہ ترتیب۔ تمام بازار میں تابوت اتارا پھر غلاموں نے سر پر لیا۔ آگے کو قصد کیا۔ جوان بر سر جوش وخروش اور غلام خاموش۔ میں نےتعاقب کی جراءت کی ۔اس نےطرح دی۔ میرا دامن لوگ پکڑتے اور منع کرتے کہ دیوانہ نہ ہو

ریختہ صفحہ 15

اپنی جان نہ کھو ۔میں زندگی سے تنگ آیا تھا کسی کا کہنانہ مانا ۔مرگ کو راحت جانا ۔ وہ جوان جاتے جاتے ایک عمارت میں داخل ہوا۔ مجھ کو طلب کیا ۔ تیغہ ہاتھ میں کیا۔ کہا اے اجل گرفتہ خوفناک نہ کھایا میرے پیچھے کیوں آیا۔ ایسا تیغہ مارتا ہوں کہ سر قلم ہوتا ہے اور تو حشر تک پاؤں پھیلا کر گورمیں سوتا ہے ۔میں نے عرض کی اے جوان دلاور میرے قتل میں دیر نہ کر۔تجھ کو ثواب ہو گا اور مجھ کو نحیف عذاب۔اس نے مجھ سے یہ جواب سن کر جگر پر ناخن کھایا ۔فرمایا اے عزیز سچ کہہ تو گرفتار ہے کہ زندگی سے بیزار ہے۔ راست گو کامیں یار اور دل سے مدد گار ہوں ۔میں نے احوال بت سنگ اور تعشق ملکہء فرنگ اور جو کچھ نعمان سیاح سے سنا تھا اور حسب و نسب اپنا سب بیان کیا۔ ایک ساعت خاموش رہا پھر کہا تو نے بہت محنت اٹھائی مگر اب آخر آئی۔ سعی کام میرا ہے آگے نصیب تیرا ہے۔ پھر حمام کا حکم کیا ۔لباس فاخرہ دیا۔ کہا یہ تابوت مرصع بہ گوہر و یاقوت اسی شہزادہ بے گناہ کا ہے اور بندہ بہزادخان کو کہ اس جنت آرام گاہ کا ہے۔ وزیر میرے ہاتھوں سے موا شہزادے کا بھی خون ہوا ۔ہر مہینے تابوت شہر میں لے جاتا ہوں ۔القصہ وقت شام ایک سر تابوت غلام کو دیا اور دوسری طرف مجھ کو حکم کیا ۔کہا ملکہ کی خدمت میں تیرا احوال گزارش اور تا بمقدور سفارش کرتا ہوں۔ خبردار بمجرد دیدار بےہوش نہ ہونا ورنہ زندگی سے ہاتھ دھونا ۔میں نے قبول کیا ۔تابوت اٹھا لیا چلتے چلتے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ سنگ مر مر کے چبوترے پر فرش زربفتی بچھا تھا اور سائبان زر و زری کھڑا تھا۔ تابوت کو رکھوایا اور مجھ کو زیر درخت چھپایا ۔بعد از لمحہ ملکہ خراماں خراماں آئی۔ کرسی ناز پر استراحت فرمائی۔ بہزاد خان نے زمین کو بوسہ دیا اور میرا حال عرض کیا کہ بادشاہ زادہء عجم اوصاف جمیلہ غائبانہ سن کر ایک سال سے اس شہر میں آوارہ کوچہ و بازار اور آرزومند دیدار ہے۔ میں نے قتل کا قصد کیا۔ سر رکھ دیا ۔مجھ کو اس جراءت پر تعجب آیا عاشق صادق پایا ۔اگر عرض غلام درجہ پذیرائی پائے ملکہ اس کو سرفراز فرمائے۔ کہا، تیرا کہنا عمل میں لاؤں دشمنوں سے امان کیوں کر پاؤں۔کہا اس کا ذمہ غلام کا ہے اگر صلاح دولت ہو وہ جوان عالی خاندان نصف شب کے بعد آئے ملکہ اوراس کے ہمراہ غریب خانہ تشریف لائے اس نے رضا دی اور برخاست کی۔ بہزاد خان گھر میں آیا مجھے گلے لگایا کہا تیرا طالع یار ہوا اور بخت بیدار ہوا ۔شب کو باغ جانا اور باختلاط تمام آنا ۔
نظم
جو اس مژدہءدل کشا کو سنا
ہوا موبہ مو سے زبان ثنا
بغل میں جو میرے تھا صد پارہ دل
خوشی سے گیا مثلِ غنچہ وہ کھل
سر شام سے باغ میں آیا آپ کو چھپایا ملکہ نے جس وقت فرصت پائی دروازے سے باہر آئی میں نے دوڑ کرپیشانی پر بوسہ دیا اور آپ کو نثار کیا
نظم
مہکنے لگا اس کی خوشبو سے باغ
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 16

ہوا عطر دان ہر کلی کا دماغ
ہوئی حور سے جب میرے روبرو
مجھے باغ سے آئی جنت کی بو
فرمایا باغ سےنکل، شتاب چل۔ میں نے نقد جان پایا قدم اٹھایا ۔ملکہ کو ساتھ لیا مگر راستہ گم کیا۔ ملکہ پیچ و تاب کھاتی ہر دم فرماتی ۔اے بے شعور مکان کتنی دور ہے ۔سپیدہء صبح نمودار اور فتنہ ءخوابیدہ بیدار ہوتا ہے۔ کہا، اے دلفریب میرے غلام کی حویلی قریب ہے۔اتفاقاً ایک دروازہ عالیشان نظر آیا مگر قفل بند پایا ۔خجل ہو کر میں نے کہا افسوس جاتا رہا ۔ملکہ نے خود زورِ دست سے قفل مروڑا اور ضربِ سنگ سے توڑا ۔حویلی میں در آئی ۔جائے امن پائی ۔مجھ کو اندیشے نے لیا کہ میں نے کیا کیا ۔صاحبِ خانہ آئے گا غضب لائے گا۔ سخت رسوا ہوا اور بے موت موا ۔القصّہ طاق پر شیشہء شراب تھا اور خوان میں نان و کباب۔ ملکہ نے پیالہ پیا اور مجھ کو دیا ۔میں نے نوش کیا اور غم و غصہ دیرینہ کو فراموش کیا ۔
نظم :
ہوئی وہ گل اندام جب ہم بغل
گئے دل سے کلفت کے کانٹے نکل
کیا عشق نے مجھ کو آ کر سلام
ہوا پھر تو اقبال میرا غلام
اے درویشو جب ملکہ کو میں لایا اور لونڈیوں نے محل سرا میں نہ پایا۔فوراً بادشاہ کو خبر دی۔ بادشاہ نے جستجو کی۔ حکم کیا کہ دروازہء شہر پناہ معمور رہے اور دربان شہر داخل و مخارج کا احوال کہے۔کُٹنیاں روانہ ہوئیں اور متجسس خانہ بہ خانہ ہوئیں۔ علےالصباح ایک پیرزال ہاتھ میں عصا اور رومال آئی۔ کہا اے دختر اس ضعیفہ کی بیٹی درد زہ میں گرفتار اور نہایت نادار ہے۔ اگر صاحبزادی کچھ مدد فرمائے رزق میّسر آئے۔ ملکہ نے روٹی مع کباب دی اور انگشتری حوالے کی کہ اس کو بیچ کر رخت بنانا اور کبھی پھر آنا۔ بڑھیا دعا دیتی چلی ۔باہر جو نکلی ایک تازی سوار مہیب خونخوار آہو شکار بند سے بندھا حویلی میں در آیا اور اسے کھینچ لایا۔ ایک پاؤں رسی سے باندھ دیا۔دوسرا پاؤں ؟؟ کر دو پارہ کیا ۔میرا رنگ زرد اور دل میں درد ہوا ۔مجھ کو بلایا میں لرزاں آیا۔ دیکھا تو وہی مشفق و مہربان بہزاد خان ہے۔دوڑ کر سلام کیا اور بغل میں لیا۔اس نے کہا اے نادان اگر خوف ملکہ نہ ہوتا ابھی تجھے دونیمہ بلکہ قیمہ کرتا ۔یہ کام بزرگ اپنے سر پر لیا اور دروازہ بند نہ کیا۔ خیر کہہ کیا ماجرا گزرا ۔میں نے گم ہونا راہ اور غصہ ملکہ عالی جاہ ،اور آنا اس مقام پر ،تہمت کرنا غلام پر سب ظاہر کیا ۔بہزاد خان نے ہنس کر کہا مجھ کو بھی غلامی بجالانا۔ اب ہمیشہ اسی خطاب سے یاد فرمانا ۔میں نے کہا اے جوان مرد بڑھیا غریب یہاں آئی ملکہ سے کچھ خیرات پائی۔ کیا تقصیر کی جو سزا دی۔ کہا اے شہزادے، میں سرکار سے جو آیا ،زبان زد عوام پایا کہ ملکہ کے گُم ہونے سے شہر میں غوغا ہے۔ اور خانہ بہ خانہ آتش برپا ہے۔یہ بڑھیا اُدھر سے جاتی اور یہی انگشتری نشانی دکھاتی۔بس باقی ہوس۔ میں نے پوچھا کہاں سے آتی ہے اور کیا لے جاتی ہے۔ کہا، اس ضعیفہ کی بیٹی درد زہ میں گرفتار اور قوت سے ناچار ہے۔ مانگتی ہوئی

ریختہ صفحہ 17

ادھر آئی۔ خانم خانہ سے کباب لائی۔
نظم
بڑی آفت آنی تھی اس شہر پر
اجڑتے خدا جانے کس کس کے گھر
میری تیغ جس وقت ہوتی علم
ہزاروں کے سر دم میں ہوتے قلم
اب سالہا سال اگر شہزادہ بلند اقبال استقامت فرمائے گا کسی بات کا خطرہ نہ آئے گا ۔پھر کباب تازہ تیار کر لایا۔ ملکہ نے نوش فرمایا ۔سال بعد خدمت سے منہ موڑا۔ ساتھ نہ چھوڑا ۔ایک روز مجھ کو وطن کی یاد آئی چہرے پر گرد ملالت پائی ۔بہزاد خان نے عرض کی اگر دل برخاستہ ہوا ہو شہزادہ جہاں کو ارادہ فرمائے، غلام پہنچا آئے۔ میں نے شوقِ وطن ظاہر کیا ۔اس نے کہا بندہ تیار ہے مگر رضائے ملکہ درکار ہے ۔ ملکہ نے بھی یہ صلاح پسند کی اور اجازت دی۔ نصف شب کو تیار ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ دربان نے شہر پناہ کا دروازہ نہ کھولا ۔سخت بولا۔ بہزاد خان نے غصہ کیا ۔قفل توڑ کر پھینک دیا ۔کہا، اے گیدی خرجا خبر کر کہ بہزاد خان ملکہ اور تیرے داماد کو مردانہ وار گھوڑوں پر سوار لئے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کچھ ارادہ ہو اپنی فوج لائے، دوبارہ آزمائے۔ مجھ کو یہ بات سن کرلرزہ آیا کہ بہزاد خان تو آفت لایا۔ بارےدروازے سے باہر آئے گھوڑے اٹھائے۔ چوکیداروں نے خبر پہنچائی۔ بادشاہ کی طبیعت طیش میں آئی۔ فرمایا جمعیت کثیر جائے،اسیر کر لائے۔ سپاہ نے تعاقب کیا ،تین کوس پر لیا۔ بہزاد خان نے ہم دونوں کو دیوار پل کے نیچے چھوڑا اور گھوڑا اس طرف موڑا۔ ہاں ہاں کرتا صف غنیم میں در آیا اور مارتے مارتے تا سردار آپ کو پہنچایا ۔وہ سردار شجاعت شعار ہزار جوان کے برابر تھا ۔ردّ و بدل بہت درمیان آئی آخرش امان نہ پائی۔ بہزاد خان نے وہ تیغہ جڑا کہ اس کا سر دس قدم پر جاپڑا۔
نظم:
گرا خاک پر جس گھڑی وہ غنیم
ہوا فوج کا خود بخود دل دو نیم
ہو ئے صاف صف آن کی آن میں
گری لاش پر لاش میدان میں
یہ سن کر بادشاہ نے فوج عظیم روانہ کی۔ بہزاد خان نے اسے بھی شکست دی۔ خود صحیح و سالم آیا ۔شکر الٰہی بجا لایا۔ میں نے کہا اے بہزاد تجھ سا مرد دنیا میں نہ ہو گا ۔ اگر رستم زندہ ہوتا تیرا بندہ ہوتا۔پھر دلجمعی سےسوار اور گرم رفتار ہوئے۔ بعد از طےمنازل اپنا شہر نزدیک آیا ،قاصد دوڑایا۔ باپ کی مراد بر آئی ۔عمر دوبارہ پائی۔ فوراً تیار ہوا اور مع فوج سوار ہوا۔ سپاہ گروہ ہا گروہ اور مردم شہر انبوہ ۔کنارہ ءشہر دریا واقع تھا۔ اس آرزومند نے دریا میں گھوڑا ڈالا ۔خدا نے سلامت نکالا۔ باپ کا قدم چوم لیا ، رکاب کو بوسہ دیا۔ میرا گھوڑا مادیان سواری ملکہ کا بچھیرا تھا اس نے اپنے بچے کے واسطے عنان اختیار ہاتھ سے دی اور بزور دریا میں گری۔ ہر چند روکا نہ پھری۔ گرداب دریا میں آیا ملکہ نے چرخ کھایا ۔بہزاد خان نے ملکہ کی رہائی کا ارادہ کیا۔ گرداب نے اسے بھی لیا۔ دونوں غرق ہوئے۔ بادشاہ نے جال ڈلوایا۔ نشان نہ پایا ۔میں نے نعرہ مارا۔ گریبان پھاڑا۔خاک اڑائی پچھاڑ کھائی۔ کسی کی نصیحت گوش نہ کی۔ راہ بیابان لی۔ چند مدت

ریختہ صفحہ 18
آوارہ دشت و کوہ اور زیر بار درد و اندوہ رہا ۔ایک روز ایک پہاڑ پر گزرا کہ فقیر نے مجھ کو حصول مطلب سے مژدہ دیا اور اس طرف روانہ کیا ۔مجھ کو زندگی وبال اور کلفت کمال ہوئی۔ دل میں آیا آنکھ بند کیجئے اور گر کر جان دیجئے۔وہی فقیر آ پہنچا ۔بعداز تامل فرمایا اپنی جان نہ دے ،روم کی راہ لے۔ اغلب کہ خدا فضل فرمائے دونوں کو زندہ پائے۔ تین شخص اور تیرے شفیق اور تا حصول مطلب رفیق ہوں گے۔ اس جہت سے یہ خاکسار اس دیار کی طرف آیا ۔الحمدللہ تمہاری ملاقات سے بہرہ پایا۔ یقین ہے اس فقیر کا فرمودہ سب ظہور میں آئے اور ہر ایک اپنی مراد پائے۔ دوسرے فقیر نے جب حکایت تمام کی۔ سحر خیز نے آواز دی ۔بادشاہ دولت خانے میں آیا۔ لباس تبدیل فرمایا۔ حکم کیا کوئی صاحب امتیاز جائے، فلانے مقبرےسے فقیروں کو لائے۔ ایک خادم بارگاہ نے جاکر اشتیاق بادشاہ کا مژدہ د یا ۔فقیروں نے تعجب کیا۔ شکر الٰہی بجا لائے۔حضور میں آئے۔ بادشاہ نے تعظیم دی۔ تکریم کی۔ مجلس برخاست اور خلوت آراستہ ہوئی۔فرمایا اے درویشو !تم چار بزرگوار ہو اور میں تمہارا خدمتگار۔ رات کو احوال پرملال دو صاحبوں کا میں نے سنا۔ آتش درد سے دل بُھنا۔ آرزو ہے دو صاحب باقی ماندہ بھی اپنی سرگزشت کہیں اور جناب کریم کار ساز سے امیدوار ہیں۔ فقیر برنگ تصویر خاموش رہے۔ بادشاہ نے فرمایا ایک سرگذشت تمہارے آگے میں بھی بیان کرتا ہوں کہ حجاب اٹھ جائے اور تکلف راہ نہ پائے۔ فقیروں نے کہا عین بندہ پروری اور کرم گستری ہے۔
تیسرا قصہ اپنی زبان سے بادشاہ آپ فرماتا ہے ۔بادشاہ نے فرمایا اے درویشو میرے باپ نے جب رحلت فرمائی اور سلطنت مجھ پر قرار پائی۔ ایلچی ہر دیار سے آئے اور سوغات اور تحفہ جات لائے۔ایک سوداگر نے دانہ لعل سات مثقال کے برابر نذر گزرانا ۔میں نے عجائب جانا۔ ہر روز منگواتا سب کو دکھاتا۔ وزیر نے عرض کی سرکار میں جواہر انبار ہے اور خزانہ بے شمار ہے۔ یہ کیا مناسب ہے کہ جہاں پناہ ایک پارہء سنگ ہر روز طلب فرمائیں اور سب کو دکھائیں۔ نیشاپور میں ایک سوداگر نے کتا پالا ہے جڑاؤ پٹا ڈالا ہے۔ اس کے گلے میں لعل ہر ایک بوزن بارہ مثقال ہے۔ مجھ کو غصہ آیا وزیر کو سولی کا حکم فرمایا کہ بار دیگر کوئی جھوٹ نہ بولےاور زبان کذب نہ کھولے۔ ایلچی فرنگ حاضر تھا دست بستہ عرض کی اگلے بادشاہوں نے پنڈت خانہ اسی واسطے بنایا ہے کہ گناہگاروں کو چند روز بند کیجئے اور تحقیقات کے بعد سزا دیجئے تاکہ خون ناحق نہ ہو۔ جہاں پناہ وزیر کو سولی نہ دیں۔ خون ناحق گردن پر نہ لیں۔ راست دروغ اثبات فرمائیں۔ پھر جو مناسب ہو عمل میں لائیں۔ اس کی التماس نے مرتبہ اجابت پایا ۔وزیر کو قید فرمایا۔ اس کی ایک بیٹی تھی ہوشیار عاقلہء روزگار ،نازک اندام شیریں کلام ،دولت ِحسن سے مغرور شرابِ جوانی سے مسرور۔ اس کی ماں سر پیٹی نے کہا اے بیٹی اگر تیری جگہ پر اندھا ایک بیٹا ہوتا کام آتا ۔نیشاپور کو جاتا. باپ کو

ریختہ صفحہ 19
چھڑاتا۔ اس نے کہا اے مادر نوحہ نہ کر. مبادا بادشاہ خبر پائے اور اعتراض فرمائے۔ خدا کارساز اور غریب نواز ہے پھر خفیہ خانساماں کو بلایا۔ آہستہ فرمایا مجھ کو نیشا پور ضرور جانا سوداگر کی خبر لانا۔ جس قدر چاہے خزانے سے لے ۔اسباب تجارت کو سرانجام دے۔ وہ دور اندیش عذر درپیش لایا۔ پذیرانہ فرمایا۔ فرمانبردار نے مبلغ خطیر لیے۔ تحفہ جات فراہم کیے۔ نصف شب کو دختر لباس مردانہ پہن کر تیار ہوئی اور گھوڑے پر سوار ہوئی۔ خانساما کو مع جمیع سامان ہمراہ لیا اور بشکل سوداگر کوچ کیا ۔ماں نے خبر پائی حیرت میں آئی ۔اس بات کو چھپایا ۔خیل خدم سے فرمایا کمبخت کو جانے دو ۔اس کا نام نہ لو۔ اگر کوئی ذکر اسکا درمیان لائے گا سزا پائے گا صاحب شعور جاتے جاتے نیشاپور ہوئی ۔دوسرے روز مردانہ وار گھوڑے پر سوار بصد زیبائی بازار کی طرف آئی۔ ایک عالم گرد آیا عشق کا تیر جگر پر کھایا ۔
نظم:
وہ خوبی میں یوسف نمودار تھی
خریدار سے گرم بازار تھی
پڑی جس لی اس ماہ رو پر نظر
کنان سان ہوا پارہ پارہ جگر
کیا دیکھا ایک سوداگر مالدار عمدہ روزگار کئی خادم شائستہ روبرو کمربستہ دوکان عالیشان پر بیٹھا ہے اور طرف راست ایک دکان میں قالین بچھی صندلی پر گدی کسی کتا آرام سے سوتا ہے۔ جواہرات گراں بہا گلے میں پڑے، دو غلام سر پر کھڑے، ایک رومال سے منہ پاک کرتا دوسرا مکھی جھلتا۔ طرف چُپ ایک مکان میں دو آدمی گرفتار پنجرہء آہنی میں نظر آئے اور دو جوان موءکل پائے ۔حیرت میں رہی ،لاحول کہی۔ سوداگر نے اسے دیکھ کر غش کیا مشتاقانہ پیغام دیا کہ ایک ساعت ادھر تشریف لائیے اور سرفراز فرمائیے۔ اس عاقلہ نے کام کی برآمد پائی۔ فوراً گھوڑے سے اتر آئی۔ سوداگر نے تعظیم دی اور تکریم کی۔ پوچھا کیوں کر آئی کہاں سے تشریف لائی۔ کہا میری زاد بوم روم اور اس شخص کا باپ سوداگر ہے۔ پیر منحنی مال دنیا سے غنی ۔ایک بار اسباب تجارت مجھ کو دیا اور امتحان سلیقہ کیا۔ الحمد للہ۔ اس سفر میں منفعت کُلّی اٹھائی کہ صحبت تم سے بزرگ کی میسر آئی۔ سوداگر نے کہا بندہ بھی یہی کاروبار اور فی الجملہ اعتبار رکھتا ہے۔ اگر غریب خانے میں شفقت فرماؤ خریدوفروخت میں البتہ بہت فائدہ اٹھاؤ پہلے روئے عیاری سے حیلہ لیا پھر قبول کیا۔ خانساماں کو فرمایا بار اٹھا لایا ۔سوداگر نے مقام دلچسپ دیا۔ کھانا طلب کیا ۔پہلے قاب پلاؤ سے بھری کتے کے آگے دھری اس نے بقدر اشتہار نوش کیا اور لگن سے پانی پیا اور وہی پلاؤ قیدیوں کو بزور کھلایا اور وہی جھوٹا پانی پلایا۔ وزیر زادی نے کہا اے سراپا دانائی ان سے کیا تقصیر ظہور میں آئی کہ کتے کا جھوٹا کھلاتے ہیں۔ کہا اے فرزند میں نے بہت تاوان دیا یہ راز فاش نہ کیا۔ تو بھی درگزر اس کا ذکر نہ کر ۔اس عاقلہ کو نظر اپنے کام پر آئی۔ تکرار درمیان نہ لائی اور باتفاق سوداگر کھانا کھایا ۔دو مہینے تک رہی۔غیر مرضی ایک بات نہ کہی۔ سوداگر اس قدر مفتون ہوا کہ وہ اگر ایک ساعت کہیں جائے

ریختہ صفحہ 20
یہ رنج کھائے ۔ ایک روز کہا اے نور چشم خدا نے مجھے فرزند نہیں دیا ہے میں نے تجھ کو فرزندی میں لیا ہے۔ چنانچہ مجلس ترتیب دی اور ہر ایک کی دعوت کی۔ وزیر زادی نے جو دیکھا کہ یہ مرغ زیرک خوب دام الفت میں گرفتار اور فرمانبردار ہوا۔ ایک دن ملول ہو کر آئی۔ آنسو بھر لائی۔ سوداگر نے موجب ملال پوچھا۔ کہا کیا عرض کروں۔ آپ کی الفت زنجیر پا اور خدمت والد خوشنودی خدا ہے۔ اگر نہیں جاتا ہوں خجلت اٹھاتا ہوں۔ کہا اگر میری مرضی ہو آدمی معتمدمع سواری جائیں اور خرچ لے جائیں۔ بہ آرام تمام لائیں۔ اس نے کہا عالم کہے گا ، نا خلف تھا وطن ترک کیا ۔ باپ کو رنج سفر دیا۔ اگر آپ ارادہ کریں، عہد کرتا ہوں تا زندگی بندگی بجا لاؤں اور حکم سے باہر نہ آؤں۔ کہا، اے برخوردار تیری خوشی درکار ہے۔ چند روز کے بعد کوچ کیا ۔اپنا مال سب ساتھ لیا ۔وزیر زادی منزل بہ منزل طے کرکے اپنی ولایت میں آئی۔ سگ اور سگ پرست کو ہمراہ لائی۔ ایک باغ میں ڈیرہ کیا۔ خفیہ جاکر ماں کو مژدہ دیا کہ دو روز اور مہلت پاؤں تو باپ کو چھڑاؤ ں۔ماں نے خوشی کی اور رخصت دی۔ تاجر کا آنا مشہور ہوا اور خانہ بہ خانہ مذکور ہوا کہ ایک سوداگر سگ پرست کہلاتا ہے اور کتے کا جھوٹا آدمیوں کو کھلاتا ہے یہ خبر بادشاہ نے پائی۔ اشارت فرمائی کہ بے طریق ہے لوٹ لیں اور سزا دیں۔ وہی ایلچی کہ جس نے وزیر کو سولی سے بچایا تھا آداب بجا لایا کہا قول وزیر راست آیا ۔جہاں پناہ پہلے حضور میں بلائیں پھر یہ فرمائیں۔ اس نے حکم کیا اسی وقت سگ اور سگ پرست کو مع پنجرہء آہنی حضور میں لائے۔ بادشاہ نے لعل بچشم ملاحظہ فرمائے۔پوچھا یہ کیا بدعت ہے۔ تیرا دین اور مذہب کیا ہے۔ عرض کی بندہ مسلمان اور قرآن خوان ہے مگر یہ راز زبان پر نہ لایا۔ اس باعث سے سگ پرست کہلایا ۔جہاں پناہ بھی معاف کریں۔ اس بات سے در گزریں۔ فرمایا اپنی جان سے ہاتھ دھو یا کاشف راز ہو۔ناچار سگ پرست نے دونوں قیدیوں کو پنجرے سے باہر کیا ۔ایک کو طرف راست دوسرے کو جانب چپ لیا۔ کہا، جہاں پناہ سلامت یہ دونوں جوان اس ناتوان کے بڑے بھائی ہیں بعد از رحلت والد بزرگوار مال بے شمار رہا۔ بھائیوں نے کہا بانٹ لیجیے ۔میں لڑکا تھا ۔بھائیوں سے کہا باپ اگر موا کیا ہوا ۔تم مربی ہو ۔مجھ کو کھانا کپڑا درکار حصہ سےکیا سروکار ہے۔ فرمایا تو جھوٹا ہے اور زمانہ کھوٹا ہے مبادا ہم سے مال خرچ ہو جائے نوجوانی میں فساد اٹھائے۔ ابھی اپنا حصہ لے یا لا دعوی لکھ دے۔ میں نے فارغ خطی مہر قاضی سے لکھوادیں۔ کچھ تکرار نہ کی۔ چند روز کے بعد انہوں نے مجھے خارج کیا اور گھر سے نکال دیا یہاں تک کہ اگر میرا کتا جاتا استخوان نہ پاتا۔والد بزرگوار ان کی نسبت مجھے پیار کرتے تھے۔ اپنی عین حیات میں ایک حویلی بنائی۔ میرے نامزد فرمائی۔ مجھ سے کہا پانچ ہزار اشرفی وہاں حوض کے نیچے مدفون ہے۔ وقت پر لیجیو ۔اپنی معاش کیجیو ۔میں اسی حویلی میں جا رہا ۔ بھائی ناواقف تھے

ریختہ صفحہ 21

کچھ نہ کہا معاملت سے منہ موڑا مگر اس حویلی کو نہ چھوڑا ۔باپ کی امانت پائی ۔تجارت کی دکان جمائی ۔دو تین سال میں اقتدار اور اعتبار پیدا کیا۔ ایک روز میرا غلام باہر سے آیا اشک بھر لایا کہ تمہارے دونوں بھائی مار کھاتے ہیں اور یہودی پکڑے لیے جاتے ہیں ۔میں نے رو کر پوچھا انہوں نے تمہارا کیا لیا کہ بے حرمت کیا۔ کہا اگر تجھے رحم آتا ہے پانسو دینار ہمارے دے ان کو لے ۔اسی وقت ان کا دین پہنچادیا ۔بھائیوں کو ساتھ لیا۔ پوشاک فاخرہ دی ۔مدت تک خدمت کی سوداگر ترکستان کو چلے۔ بھائیوں نے کہا اگر کچھ اسباب پاتے ہم بھی جاتے ۔میں نے دو حصہ مال جدا کیا ہر ایک کو علیحدہ سرانجام کردیا۔ ملک التجار سے کہا ان کو اپنے زیر سایہ رکھیو ۔ممد و معاون معاونین رہیو ۔ایک سال کے بعد قافلہ آیا۔ بھائیوں کو نہ پایا ۔مشوش رہا۔ ایک نے کہا تمہارے بڑے بھائی نے اپنا مال قماربازی میں دیا اور دوسرے نے چھوکرے کے عشق میں صرف کیا ۔میں آتش غیرت سے جلا۔ خفیہ ترکستان کو چلا ۔بھائیوں کا وہی حال پایا جو سننے میں آیا ۔پھر ان کے واسطے اسباب تجارت خرید کیا اور ہمراہ لیا۔ دو منزل پر چھوڑ کر تنہا گھر آیا ۔ٹھہرایا کہ لوگ ساتھ لیجئے، بھائیوں کا استقبال کیجئے۔ دوسرے روز تا دوپہر شہر سے باہر منتظر رہا۔ ایک آنے والے نے کہا کاش تمہارے بھائی اس راہ سے نہ آتے ۔تین پہر رات گئی تھی کہ قزاقوں نے شبخون کیا ۔ان کے ساتھ غریبوں کو بھی لوٹ لیا ۔اب دونوں بھائی بلباس گدائی پوشیدہ بیٹھے افسوس وغم کھاتے ہیں ۔شرم سے نہیں آتے ہیں۔ میں نے سن کر پیچ و تاب کھا یا۔ پھر گھر میں آیا۔پوشاک اور لی ۔پھر بھائیوں کو جا کر دی۔ ان کو کچھ نہ کہا۔ تقدیر پر راضی رہا۔ چند روز کے بعد میں نے ہندوستان کا قصد کیا ۔عیال واطفال کو ساتھ لیا ۔یہ دونوں بزرگوار کشتی پر سوار منزل بمنزل خوش آتے اور بفراغت بسر لے جاتے ۔قضا را میری کنیز بھائی کو نظر پڑی، دل میں گڑی ۔دوسرے سے اس نے صلاح کی بھائی کو درمیان سے اٹھا دیجئے مال سب آپ لیجئے۔ایک رات میں سوتا تھا۔انہوں نے پکارا بھائی جلد آنا مردم آبی رقصاں ہیں اور ہاتھوں میں شاخ مرجان ۔تماشا غریب ہے اور واقعہ عجیب ہے ۔ میں ان کے کہنے پر یقین لایا ۔ آنکھیں ملتا نکل آیا ۔ان سنگ دلوں نے خوف خدا نہ کیا ۔مجھے اٹھا کر دریا میں ڈال دیا ۔ہر چند دست و پا مار کر ہارا اور رفقاء کو پکارا ۔کسی نے میری سرگزشت نہ جانی مگر کتے نے آواز پہچانی۔بے اختیار کود کر آیا۔ آپ کو مجھ تک پہنچایا ۔میں نے اس کی دم پکڑ لی اور اس نے شناوری کی ۔
نظم :
نہ کشتی نہ بیڑا بحکم خدا
وہی موج دریا ہوئی ناخدا
میں جاتا تھا مردہ سا بے اختیار
مثال حباب ایک دم پر قرار
تیسرے روز کنارا پایا۔ شکر الہی بجا لایا ۔نہ قدم میں طاقت نہ دم میں قوت ۔اشتہا غالب ہوئی ۔افتان و خیزان چلا ۔ایک شہر ملا ۔وہاں کی زبان

ریختہ صفحہ 22
سمجھی نہ جاتی اور میری بات ان کی فہمید میں نہ آتی۔ مگر دو آدمی اجنبی دور سے نظر آئے آپ نے ہم جنس پائے ۔معلوم کیا یہ دونوں البتہ مہربانی فرمائیں اور کچھ کھلائیں ۔جو نزدیک آیا بھائیوں کو پایا۔ میں نے دوڑ کر سلام لیا اور رو دیا۔ دونوں حیرت میں آئے غضب لائے۔دوڑ کر چوب لی ۔ زد و کوب کی۔ ہر چند خدا اور رسول کو شفیع لایا۔ مار سے ہاتھ نہ اٹھایا ۔ہر ایک سے کہتے یہ بدبخت نوکر تھا ہمارے بھائی کو دریا میں ڈال دیا اور مال سب آپ لیا۔ بعد مدت آج ہاتھ آیا خدا نے غیب سے ملایا۔ حاکم کو کار سازی دی اور عرض کی اس کو سولی دیجئے۔ قصاص لیجئے۔ سرسنگ دار کے نیچے لائے دونوں بھائی ساتھ آئے ۔وہی بھائی ہیں کہ رشوت حاکم کو دی اور میرے قتل کی فکر کی ۔
نظم :
یہی دونوں عزت کے خواہاں ہوئے
یہ بھائی میرے دشمن جاں ہوئے
میری بات کے ہیں یہ دونوں گواہ
کہ کاذب نہ جانے مجھے بادشاہ
اس حالت میں میں نے کوئی اپنا نہ پایا ۔خدا کی طرف رجوع لایا۔ وہ غریب نواز ہے اور بے چاروں کا چارہ ساز ہے ۔اس وقت اس شہر کا والی بیمار ہوا اور درد قولنج میں گرفتار ہوا۔ جان سے تنگ آیا ۔طبیبوں نے ہاتھ اٹھایا۔ ایک نے عرض کی جہاں اپنا اگر اسیروں کو رہا فرمائیں، اغلب ہے کہ ان کی دعا سے شفا پائیں ۔ پس حکم ہوا ۔ایک خواص نے اس طرف گزر کیا۔ میرے گلے سے تسمہ کاٹ دیا ۔بھائیوں نے حاکم کو خبر دی اس نے طمع کی۔ آہستہ پیادوں سے کہا مبلغ قرارداد لو۔ زندان سلیمان میں ڈال دو ۔وہ کنواں تھا عمیق تنگ تر از گور اور خانہ مارومور والی ولایت جس کو اس میں قید کرتا وہ اجل گرفتہ و ہیں مرتا۔ سرہنگوں نے زہر قرارداد لیا۔ مجھ کو کنویں میں ڈال دیا ۔
ابیات:
کہوں کیا میں اپنی مصیبت کا حال
کنوئین میں انہوں نے دیا مجھ کو ڈال
جو یوسف پہ گزرے تھے رنج و ملال
وہی بھائیوں نے کیا میرا حال
کنوئیں میں ایک شخص اور تھا۔ میں ہر چند پوچھتا رہا اس نے کچھ نہ کہا۔ بندہ کنوئیں میں حیران، کتا غریب اوپر سرگرداں۔ ہر دم بیتاب ہوتا اور بے اختیار روتا۔ اتفاقاً ایک شخص آدھی رات کو آیا۔ آذوقہ کنویں میں پہنچایا۔ یہ سگ و فا دار نے معلوم کیا کہ اس نے کسی کو دیا۔ صبح دم آپ شہر میں در آیا۔ روٹی قزاقی کر لایا۔ کنویں میں چھوڑ دی اور آواز کی۔ میں نے سر اٹھایا۔ گردہ نان پایا۔ سیر ہو کر کھایا۔ شکر خدا بجا لایا۔ اسی طرح ہر صبح جاتا روٹی لاتا۔ ایک بڑھیا قریب رہتی تھی۔ اس کے گھر جا کر کُتا اڑا، پاؤں پڑا اور پانی کا اشارہ کیا۔ بڑھیانے ۔۔۔۔۔ نہ پیا۔ کنویں کا راستہ لیا۔ اس نے جانا زندان سلیمان میں کوئی قیدی آیا۔ ڈول بھر کر کنویں میں لٹکایا۔ سگ نے شور کیا میں نے پانی پیا۔ اس طرح چھ مہینے تک کُتا روٹی لاتا اور بڑھیا سے پانی پاتا۔ ایک رات کسی نے رسی دراز کی اور آواز دی۔

ریختہ صفحہ 23
کہ دوست بے بدل، کنویں سے نکل۔ میں نے زینہ پایا۔ نکل آیا۔ ایک جوان ہے خوش لباس دو گھوڑے اس کے پاس۔ ایک پر مجھے سوار کیا دوسرا آپ لیا۔ گھوڑے اٹھائے دور نکل آئے۔ جب صبح روشن ہوئی گھوڑے کی باگ لی۔ میری طرف نگاہ کی۔ اپنا دوست نہ پایا۔ غصے میں آیا۔ مجھ پر تلوار نکالی میں نے خالی دی۔ اور عرض کی کہ اے عیسیٰ روزگار مجھے نہ مار۔ تو نے نہ دیکھا نہ بھالا، کمند ڈال کر مجھ غریب کو نکالا۔ اب میرے مارنے سے کیا حاصل ہے۔ بارے میری عاجزی پر رحم آیا۔ فرمایا خیر سوار ہو۔ تمام روز اس کی چشم تر تھی اور خاطر مضطر تھی۔ شام کو جنگل میں قیام کیا۔ گھوڑوں کو چرنے کے واسطے چھوڑ دیا۔ میری سرگذشت پوچھی۔ میں نے عرض کی۔ سن کر رو دیا اور کہا اب میری روداد سن۔ اس شخص کا باپ اس ولایت میں مالک تاج و نگین ہے۔ میں اس کی بیٹی پردہ نشین ہوں ۔ ایک روز وزیر زادہ نظر آیا۔ میں نے تیر عشق کھایا۔ چند روز زخمی رہی۔ آخرش دایہ سے سر گذشت کہی۔ اس نے سعی بلیغ فرمائی۔ اس کو میرے پاس لائی۔ وہ ہر شب آتا صبح دم جاتا۔ ایک رات چوکیداروں نے چور جان کر حوالی حرم میں پکڑ لیا اور میرے باپ کے حکم سے زندان سلیمان میں بند کیا۔ میں نے اس بات کا شکر کیا کہ کسی نے میرا بھید نہ پایا اور نہ جانا وہ حرم میں کس واسطے آیا۔تین سال تک تیسرے روز شب کو خفیہ جاتی آذوقہ اس کو پہنچاتی۔ رات کو خواب میں ایک بزرگ نظر آیا۔ اس نے فرمایا اے زلیخائے عصر۔ رسی کنویں میں ڈال۔ اپنے یوسف کو نکال۔ خانماں برباد زاد راہ غربت لے۔ میں خوش ہو کر اسی دم دو گھوڑے تیز قدم باساز و براق طویلے سے لائی اور کمند لے کر کنویں پر آئی۔ اس کا اختر زوال میں اور تیرا ستارہ اقبال پر تھا۔ وہ عزیز موا اور تو زندہ ہوا۔ نصیب اس کو کہتے ہیں۔ پھر شیر مال خورجی سے نکال کر تناول کی اور مجھ کو دی۔ میں نے نوش کی اور کُتے کو دی۔ اپنے ہاتھ سے میری مو تراشی کی، پوشاک فاخرہ دی۔میں نے غسل کر کے دوگانہ ادا کیا۔ اس نے ہنس دیا۔ پوچھا کیا حرکت تھی۔ کہا اس کی عبادت ہے جس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے زمین آسمان کو بنایا اور مجھ گدا کو تجھ شہزادی سے ملایا۔ اسی طرح سے راہ طے کرتی اور آہ سرد بھرتی کہتی اس کے واسطے میں وطن سے آوارہ اور غریب بیچارہ ہوئی۔ جب شہر نظر آیا ۔ولایت فرنگ میں پہنچی اور حویلی مول لی، سکونت کی۔ بطریق اسلام ایمان لائی اور میرے نکاح میں در آئی۔ ایک صندقچہ پُر از جواہر مجھ کو دیا۔ میں نے دکان جواہر فروشی کو گرم کیا۔ وہاں چند شخص اجنبی رہتے تھے۔ مجھ کو بھائی کہتے تھے۔ ایک روز بازار تھا۔ معلوم ہوادو آدمی اجنبی پکڑے آتے ہیں۔ گردن مارے جاتے ہیں۔ میں بھی دیکھنے آیا۔ دونوں بھائیوں کو پایا۔ میرے خون نے جوش کیا پیادوں کو زر کثیر رشوت میں دیا کہ تا حاکم پاس جاؤں پروانگی لاؤں۔ حاکم

ریختہ صفحہ 24

ایک دانہ ء جواہر سو اشرفی کو لیتا تھا اور میں نہ دیتا تھا۔ وہی دانہ بخوشامد دیا اور رہائی کے واسطے التماس کیا۔ اس نے کہا مدعی کو راضی کر وگرنہ درگزر ۔ پانچ سو تومان دے کر سمجھایا ان کو گھر میں لایا۔ ان کے روبرو اپنی عورت کو جانے نہ دیا۔ اور میں نےخدمت میں کسی نوع پر قصور نہ کیا۔ ایک روز صاحب خانہ حمام سے نکل کر سر برہنہ صحن میں کھڑی تھی۔ منجھلے بھائی کی نظر پڑی۔ عنان صبر ہاتھ سے دی۔ میرے مارنے کی فکر کی۔ بڑے بھائی نے کہا ملک بیگانہ کی باد شاہی گدائی سے بدتر اور وطن کی گدائی بادشاہی سے بہتر ہے۔ میں نے ان کی خاطر سے وطن کا قصد کیا۔ اہل و عیال کو ساتھ لیا۔ ایک منزل میں منجھلے بھائی نے کہا اس نواح میں ایک چشمہ دل کشا اور باغ قابل تماشہ ہے۔ اگر کل مقام ہوتا ،جاتے سیر کر آتے۔ میں نے بھائیوں کی خوشی کے واسطے مقام کیا۔ دونوں صاحب منش صبح سے بیدار اور کمر باندھ کر تیار ہوئے۔ میں نے سواری طلب کی۔ بھائیوں نے صلاح نہ دی کہ قرب و جوار ہے سواری کیا درکار ہے۔ پیادہ رواں ہوئے۔ دونوں بھائی تیر اندازی کرتے جاتےاور لطیفہ طرب انگیز فرماتے۔ دو غلام میرے ساتھ تھے۔ ایک کو کہیں بھیج دیا اور دوسرے سے سواری کو طلب کیا۔ میں قضائے حاجت انسانی کے لئے ایک درخت کے نیچے بیٹھا۔ دونوں بھائی تلوار کھینچ کھینچ کر پہنچے۔ ایک نے میرے سر پر لگائی کان تک اتر آئی۔ دوسرے نے تیغہ جڑا۔ میں گر پڑا۔ مجھ کو تنہا پایا چورنگ بنایا۔ کتے غریب نے حملہ کیا۔ اسے بھی دونوں نے ایک ایک ہاتھ جڑ دیا۔
نظم
کیا ٹکڑے ٹکڑے میرا سب بدن
گئے چھوڑ بے گور اور بے کفن
میرے بھائیوں نے کیا یہ خیال
کہ کھائیں اسے بھیڑئیے اور شغال
اے درویشو یہ سن کر مجھ کو رقّت آئی۔ سگ پرست نے پہلو اور پشت دکھائی۔ فی الواقع دو غار نظر آتے تھے۔ سوداگر نے پھر کہا ۔ دونوں بھائیوں نے زخم ہلکے ہلکے اپنے مارے اور قافلے میں جا کر پکارے کہ اثنا ئے راہ میں قزق آ ٌپہنچے۔ بھائی مارا گیا ہم بچے۔ ملکہ بھائیوں کے کردار سے خبردار تھی۔ آپ کو ضرب خنجر سے ہلاک کیا۔ مال سب بھائیوں نے لیا۔ میں زخمی پڑا تھا۔ قضا را دختر بادشاہ فرنگ با کنیزان شوخ و شنگ، ہر ایک گھوڑے پر سوار بطریق سیر و شکار ادھر آئی۔ مجھ میں سدّ رمق جان پائی۔ اس کو رحم آیا۔ جراح کو تعّین فرمایا۔ ملکہ باپ سے چالیس روز کی رخصت لے کر باگ میں چمن آرا تھی۔ اور مشغول سیر صحرا تھی۔ جراح مجھ کو غالیچے میں لپیٹ کر باغ میں لایا۔ زخموں کو سی کر مرہم لگایا۔ملکہ دن میں تین بار تشریف لاتی اور مرغ کا شوربہ روبرو پلاتی۔ چالیس روز کے بعد میں نے غسل کیا۔ ملکہ نے جرّاح کو انعام دیا اور میری احوال پرسی پر متوجہ ہوئی۔ میں نے اپنی مصیبت کی حقیقت سب مو بمو کہی۔ افسوس کرتی رہی ۔ بارے

ریختہ صفحہ 25
تسلی دی اور خاطر داری کی۔ مقتضائے جوانی سے حرص طالب ہوئی اور ہوس غالب ہوئی۔ شب کو تنہا میرے پاس آتی۔ محظوظ ہو کر جاتی۔ میں بھی اس کے میوہ ء وصل سے حلاوت پاتا۔ غم و غصہ بھول جاتا۔ ایک روز باپ کے دولت خانے میں تھی۔ میں نے قضائے عمری کی فرصت پائی۔ ایک گوشہ میں جانماز بچھائی۔ دل با خدا و دست بدعا ہوا۔ ناگاہ نوافل شب کو آئی۔ میری خوابگاہ خالی پائی۔ بدگمان ہو کر دایہ سے کہا شاید کسی لونڈی کے پاس رہا پھر آپ اور دائی میری طرف سیر کرتی آئی۔ حرکات نماز دیکھ کر قہقہہ مارا اور دائی کو پکارا کہ اجنبی بیچارہ دیوانہ ہوا۔ میں ڈرا کہ یہ ظالم کافر اور میں غریب مسافر۔ دیکھئیے کیا آفت لائے اور کیونکر پیش آئے۔ دایہ نے کہا مرد مسلمان ہے اور بت پرستی سے بدگمان ہے۔ میں نے برا کیا کہ دشمن کو بغل میں لیا۔ دو روز تک تشریف نہ لائی۔ تیسرے روز آئی۔ دائی سے پوچھا وہ راندہء بت کیا کرتا ہے۔ کہا مرتا ہے۔ فرمایا باہر آئے اور اپنا طریق بتائے۔ میں آ کر خوفزدہ کھڑا ہو رہا۔ اس نے دایہ سے کہا اگر یہ میرے ہاتھوں سے مارا جائے بت بزرگ مہربانی فرمائے۔ دائی نے کہا اس کام سے درگذر۔ بت بزرگ کے حوالے کر۔ پھر ایک جام مجھ کو دیا اور زیر لب خندہ کیا۔ دایہ مزاج دان تھی۔ دعائے خیر کہی اور جا کر سو رہی۔ ملکہ نے فرمایا اے جاہل۔ بت بزرگ میں کیا بدی پاتا ہے کہ اس کے آگے سر نہیں جھکاتا ہے۔ میں نے کہا اے ملکہ بت ایک سنگ ہے تراشیدہ۔ نہ گوش رکھتا ہے نہ دیدہ۔ میں اس کی پرستش کرتا ہوں کہ ہر دم حاضر و ناظر ہے اور سب چیز پر قادر ہے۔
نظم
وہی سب کو دیتا ہے روزی و جان
اسی سے ہے قائم زمین آسمان
جہان میں جہاں تک گل و خار ہے
اسی کی یہ قدرت نمودار ہے
خدا نے اسے توفیق دی ۔ دولت اسلام قبول کی۔ کہا میں چچا کے بیٹے سے منسوب ہوں ۔ البتہ وہ کافر آئے گا رسمِ عروسی بجا لائے گا۔ اس کی کیا فکر کیجئیے۔ میں نے کہا جو مزاج میں آئے۔ فرمایا وطن چھوڑ دیجئیے۔ غربت اختیار کیجئیے۔ فی الحال تو کارواں سرا میں جانا۔ چند روز ادھر نہ آنا۔ دایہ تیرے پاس ہر روز آئے گی ایک جواہر گراں بہا پہنچائے گی۔ جس وقت بلاد عجم کے سوداگر مسافرت کریں اور اسباب کشتی پر دھریں۔ اس روز میں خبر پاؤں شب کو تیرے پاس آؤں ۔ میں نے کہا اے بلند مزاج دایہ کا کیا علاج۔ فرمایا وہ اہل ہے اور اس کا کام سہل ہے۔ ناچار داغ مفارقت اٹھایا۔ کارواں سرا میں آیا۔ بعد مدت سوداگروں نے ارادہ کیا ۔ مجھ کو پیغام دیا کہ کفرستان سے نکل۔ ہممارا حال سقیم ہے اور خدا کریم ہے۔ پھر باہم مشورت کی ۔ کشتی مول لی۔ اپنا اسباب کشتی پر دھرااور شہر کو پھرا کہ یاروں سے رخصت ہو آؤں اور اپنی کنیز لاؤں۔ دایہ سے بخوشامد کہا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 26
کہ اے سراپا دانائی تیری بدولت راحت بہت پائی۔ اب ولایت کو جاتا ہوں۔ خدا جانے آب و خورش کب لائے۔ کسی طرح دیدار ملکہ میسر آئے۔ بار ے دایہ بر سر رحم آئی۔ میری خبر پہنچائی۔ ملکہ نے نصف شب کو پوشاک بدلی۔ معہ صندوقچہ جواہر نکلی۔ میں نے ایک ضرب شمشیر میں دایہ کو مار کر ڈال دیا۔ ملکہ کو ساتھ لیا۔ صبح ہوتے کشتی پر آیا شکر الٰہی بجا لایا۔ جبکہ کشتی روانہ ہوئی تو پ کی آواز سنی۔ ملاحوں نے لنگر ڈال دیا۔ کہا منع کیا ۔معلوم ہوا ملکہ کے گم ہونے سے شاہ بندر کو حکم پہنچا کشتی جانے نہ پائے۔ ہر تاجر اپنی کنیز لائے۔ بشرط پسند قیمت پائے گا ورنہ لے جائے گا۔ مجھ کو خوف نے لیا ملکہ کو صندوق میں بند کیا۔ اور بھی جس کی لونڈی خوبصورت آئی اس نے صندوق میں چھپائی۔ شاہ بندر آپہنچا۔ ہر ایک کی لونڈی لی اور تشفی کی کہ اب جاتی ہیں تا شام پھر آتی ہیں۔ کسی غمّاز نے اس سے کہا جو لونڈ یاں قابل پسند ہیں صندوق میں بند ہیں۔ اس نے سب کو نکال باہر کیا اور تاوان لیا۔ وقتِ شام سب نے اپنی اپنی لونڈی پائی مگر میری معشوقہ نہ آئی۔ چاہا کہ دریا میں گروں ڈوب مروں۔ سوداگروں نے کہا صبر کر۔ ہر تجارت پیشہ جتنی ہیں دوچند قیمت کر دیتی ہیں۔ میں راضی نہ ہوا۔ اپنا صندوقچہ اٹھایا؟؟؟میں لایا۔ پریشان اور تباہ ،سگ وفادار ہمراہ ۔ دن کو جنگل جنگل پھرتا، شب کو شہر میں جستجو کرتا۔ مدت تک سرگرداں رہا کسی نے احوال نہ کہا۔ ایک رات جان بازی کر کے دولت سرا بادشاہ میں در آیا، کہیں نشان نہ پایا۔ شاہ بندر کی حویلی کی طرف گزرا اس کے گرد پھرا۔راہ در آمد نہ پائی۔ ایک مہری نظر آئی۔ پنجرہ آہنی تھا ۔حربہ کیا، کھود کر در آیا۔ دیکھا باغ ہے میوہ دار تازہ بہار ۔ وہ نیک بخت درخت کے نیچے بیٹھی آواز جان گداز کہتی تھی کہ الہی میں تیری وحدانیت پر یقین لائی اور دین محمدیؐ میں آئی۔ بحق پیغمبرؐ مجھ بے کس پر رحم فرما اور میری دولت گم گشتہ کو ملا۔ میں دوڑ کر قدم پر گرا اور اس کے گرد پھر ا۔اس نے جان پائی اور آغوش میں آئی۔ دونوں روتے رہے ۔دامن بھگوتے رہے۔
نظم
وہ رونے میں بے اختیاری ہوئی
کہ ہر آنکھ سے نہر جاری ہوئی
ہوا باغ غم سے مرے غمکدہ
ٹپکنے لگا مثل شبنم زدہ
فرمایا، بادشاہ بندر نے مجھ کو جمیلہ جانا بادشاہ کی نذر نہ گزرانا۔ خود ہر روز آتا ہے تعشق ظاہر کر جاتا ہے۔ لطائف الحیل سے آج تک نزدیک آنے نہیں دیا ۔اس نے بھی معلوم کیا اب تو گھر میں ہے۔ایک روز بر میں ہے۔ خاطر داری میں رہتاہے اور کچھ نہیں کہتا ہے۔ اب تک دامن عصمت لوث سے بچا مگر تا کجا ۔ اگر تو نہ آتا اور وہ ہاتھ لگاتا میں کنی کھاتی مر جاتی۔ مگر اب اور فکر ہے اغلب کہ اس تدبیر سے رہائی پاؤں اور تیرے ہاتھ آؤں۔ رسم ہے کہ شہری یا بیرونی جو کوئی مفلسی سے تنگ آ تا ہے سیاہ کپڑے پہن کر بتخانہ ء بزرگ میں جاتا ہے تین روز تک زیارت کرنے والے

ریختہ صفحہ 27
جتنے ہیں نقد اور جنس اسے دیتے ہیں۔ چوتھے روز کچھ سرکار سے پاتا ہے، رخصت ہو جاتا ہے۔ تو مال نہ لیجیو اور عرض کیجیو ۔میں ستم رسیدہ اور جفا دیدہ ہوں مال مجھ کو کیا درکار مگر انصاف کا امیدوار۔ مادرِبرہمنان میری خبر لےاور بت بزرگ داد دے۔ نہیں تو روز عید آپ کو قربان کروں گا ۔اسی آستانہ پر مروں گا۔ مادر برہمنان پیرزال ہے اور اس کی عمر صد و پنجاہ سال ہے۔ خلق اس کو معشوقہ بت بزرگ کہتی ہے اور وہ چالیس بیٹے رکھتی ہے ۔جب وہ آئے اور تجھے بلائے ،پاؤں پر گرنا عرض کرنا۔ یہ اجنبی تمہارا آواز ہءعدل و انصاف سن کر بت بزرگ کے طواف کے واسطے آیا ۔شاہ بندر نے ظلم کیا میری عورت کو چھین لیا۔ اپنا قاعدہ یہ ہے نامحرم اگر عورت کو ہاتھ لگائے ،اس کا قتل لازم آئے۔ اور بے انتقام ہم پر کھانا پینا حرام ہے۔ یقین ہے کہ خبر لے اور تیری داد دے۔ القصہ ملکہ سے رخصت ہوا اور بت خانہ میں گیا۔ تین روز میں اس قدر زر و زیور فراہم آیا کہ شمار سے باہر پایا۔ چوتھے روز برہمن آئے خلعت رخصت لائے۔میں نے کچھ نہ لیا انصاف طلب کیا۔ مادر برہمنان کو رحم آیا، روبرو بلایا۔ دیکھا ایک بڑھیا منحنی مال دنیا سے غنی ،تخت مرّصع پر بیٹھی ہے ۔میں نے جا کر پایہء تخت کو بوسہ دیا اور ماجرا گزارش کیا۔ مرد اجنبی کو تمہاری قوم میں عورت بیگانہ کے نزدیک جانا خوب۔ اس نے کہا سخت معیوب۔ بڑھیا کے روبرو دو لڑکے وہ دوازدہ سالہ ماہ ر و ہلال ابرو کھیلتے تھے۔ فرمایا جاؤ بادشاہ سے کہو شاہ بندر مردم آزار اور جفا کار ہے۔ اس کا قتل اس نظر کردہ بت بزرگ کے لیے لکھ دے۔ حیلہ نہ لے ۔نہیں تو آج کی رات سنگسار اور عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ وہ دونوں ماہ جماعت پنڈوان سوار ہو کر رواں ہوئے اور ایک گروہ آگے سرود کنان تا قوس زنان مردم اعلیٰ دادنے ان کی خاک پاک سرمہ کرتے اور سر پر دھرتے۔ بادشاہ نے پیادہ استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھا لیا ۔لڑکوں نے پیغام پہنچایا۔ فرمایا شاہ بندر آئے قصہ انفصال پائے۔ میں ڈرا اگر قضایا روبرو آیا اپنی بیٹی لے گا اور مجھ کو سولی دے گا ۔لڑکوں نے قرینے سے معلوم کیا کہ یہ حکم اس غرضی کے خلاف مرضی ہے۔کہا، فرمودہء بت بزرگ نہیں مانتے ہو اور ہماری ماں کا قول جھوٹ جانتے ہو۔ خراب جاؤ گے سزا پاؤ گے ۔ ناخوش ہوئے، اٹھ چلے۔ بادشاہ فرنگ نے خوف کھایا ان کو منایا ۔عذرخواہی بدرجہء اتم کی اور چٹھی میرے نام پر شاہ بندر کو لکھ دی۔ لڑکے سوار ہو کر آئے نذر نیاز بہت سی لائے ۔ مادر برہمنان نے فرمایا پانچ سو سوار جائیں شاہ بندر کو پکڑ لائیں ۔سواروں نے گھوڑے اٹھائے شاہ بندر کی حویلی میں در آئے۔ وہ اس ماجرے سے بے خبر غافل از قضا و قدر ۔میں نے اسے جا لیا۔ مار کے ڈال دیا۔ اپنی معشوقہ لی اور کسی کو ایذا نہ دی۔ اس کا نقد اور جنس قلمبند کیا رائیگاں جانے نہ دیا۔ برہمن میری داد ودہش سے مالدار ہوئے اور غریب غربا

ریختہ صفحہ 28
شکر گزار ہوئے دوسرے روز بارگاہ بادشاہ میں حاضر ہوا ارکان دولت کو تحفہ جات دیا، رضامند کیا ۔بادشاہ نے سرفراز کیا، خلعت فاخرہ دیا ۔معمول تھا جو قافلہء دریا اترتا، میں مال ملاحظہ کرتا ۔بعد مدت ایک بار مال ملک التجار خدمتگار ہیرےروبرو لائے۔ ان میں دونوں بھائی نظر آئے ۔مجھ کو غیرت آئی کہ میں بایں شان اور بھائی پریشان۔ افسوس کھایا۔ ان کو ساتھ لایا۔ حضور میں تقریب شائستہ کی۔ ہر ایک کو خدمت عمدہ دی ۔ایک روز میری صاحب خانہ باغ میں روبرو کھڑی تھی ، منجھلے بھائی کو نظر آئی پسند فرمائی۔ میں سوتا تھا دونوں بھائی مسلح شمشیر برہنہ لئے میرے مارنے کے واسطے آئے۔ سگ وفادار سے آنے نہ پائے۔ چوکیداروں نے پکڑا رسی سے جکڑا۔ اس روز سے بھائیوں کو قید کیا اور کسی طور کا رنج نہ دیا۔ ابو ان کے دیدار سے محظوظ ہوں۔ جہاں پناہ سلامت دونوں بھائی موجود ہیں پوچھ لیجئے اگر خلاف عرض کرتا ہوں سزا دیجئے۔ میں نے اس عزیز کی مروت پر آفرین کی اور خلعت سے عزت دی۔ پوچھا جواہرات کہاں سے پائے۔ التماس کیا ایام حکومت بندر میں ایک روز برائے تفرج قصد ہوا۔ بالائے بام بیٹھا تھا دور سے دو نفر مسافر جنگل میں نظر آئے۔ حسب الایما ؟؟؟ انہیں لائے۔ ایک نوجوان تھا پریشان حال دوسری عورت صاحب جمال۔ آتے ہی روٹی طلب کی، میں نے دی۔ جوان کھا کے بے ہوش ہوا ۔چند آستین بوسیدہ اس کے سر پر پیچیدہ تھیں۔ خدمتگار کھول لائے جواہرات نظر آئے۔ جب ہوش میں آیا پوچھا کہاں سے لایا ۔کہا یہ غریب بیچارا وطن آوارہ ستم زمانہ سے نیم جان باشندہء آذربایجان ہے۔ باپ ملک التجار تھا۔ سفر ہند اختیار کیا مجھ کو ہمراہ لیا ۔مادر مہربان مانع ہوئی۔ باپ نے کہا میں پیر ناتوان اور یہ فضل الٰہی سے جوان ہے مبادا مجھ کو ساقی قضا و قدر شربتِ اجل پلائے اور دیدار میسر نہ آئے ۔پس مجھ کو ساتھ لیا اور مختار کیا۔ ہندوستان میں آیا وہاں سے وزیرآباد میں لایا۔ ارادہ فرنگ پر کشتی لی اور رواں کی۔ ایک روز بادِ مخالف آئی۔ کشتی نے پہاڑ سے ٹکر کھائی ۔پارہ پارہ اور ہر طرف آوارہ ہوئی۔ میں تن تنہا رہا میرا تختہ بہا۔ نہ باپ کی خبر مجھ کو، نہ میری خبر اس کو۔ خدا جانے موا یا جانبر ہوا۔
نظم
نہ جی تن میں تھا اور نہ تن جی کے ساتھ
میری باگ تھی موجِ دریا کے ہاتھ
کروں کیا میں جینے کا اپنے حساب
یہی ایک دم تھا مثالِ حباب
تین روز کے بعد کنارہ پایا بہ ہزار خرابی باہر آیا۔ تشنہ گرسنہ سروپا برہنہ افتاں و خیزاں چلا۔ ایک کھیت چنے کا ملا۔ کئی شخص سیاہ فام ہولے کھاتے تھے۔ انہوں نے مجھ کو دیے۔ میں نے لے لئے۔ تھوڑے کھائے حواس آئے۔ ان کی زبان فہمید میں نہ آئی صحبت سے کیفیت نہ پائی۔ آگے چلا دشت تھا۔ آتش بار ذرہ ذرہ شرار۔ ہوا اس قدر گرم اگر چڑیا آتی کباب ہو جاتی۔ میں نے رات دن گردش کھائی

ریختہ صفحہ 29
آبادی نظر نہ آئی۔ تھوڑے بوٹ کے دانے پاس تھے۔ انہیں تناول کیا پانی پیا۔ چوتھے روز ایک قلعہ بلند نظر آیا۔ قفل دروازہ بند پایا۔ مایوس ہو کر آگے چلا ایک پہاڑ ملا۔ اس کے نیچے شہر عظیم اور شہر پناہ مستقیم۔ گرتے پڑتے آپ کو وہاں پہنچایا۔ بسم اللہ کہہ کر دروازے میں در آیا۔ ایک مرد با لباس فرنگ بالائے کرسی خوش رنگ کرسی پر بیٹھا تھا۔ مجھ کو بھوکا معلوم کیا نان و کباب دیا۔ اسے جو کھایا غش آیا۔ افاقہ کے بعد پوچھا اب کیا ارادہ ہے ۔کہا، یہ فقیر چاہتا ہے کہ چند روز اس شہر میں بسر کی جائے تاکہ توانائی آئے۔ کہا، اے برادر فی الحال مع بیل و غر بال اس ٹیلے پر جا۔ زمین کھود ۔جو ہاتھ آئے چھان کر لا۔ وہ کان جو اہر تھی۔ تین توبڑے بھر لایا اور کئی دانوں کو چھپایا۔ اس عزیز نے کچھ نہ لیا سب مجھ کو دیا ۔کہا جہاں دل چاہے وہاں لے جا مگر اس شہر میں نہ آ۔ میں نے گردش کھانی تھی اس کی پند گوش نہ کی ۔ ناچار اس نے اپنی انگشتری کی کہا ایک شخص میری صورت کا چوک میں ہے۔ اس کے پاس جانا جو وہ کہے عمل میں لانا۔ میں جا کر شہر میں داخل ہوا ۔شہر آباد بازار کشاد۔رونق خوب آدمی محبوب۔ مردوں کی خرید و فروخت مردوں سے ،عورتوں کی داد وسند عورتوں سے۔ اس سے جا کر ملاقات کی انگشتری دی ۔کہا وہ گردن شکستہ آنے سے مانع نہ ہوا۔ میں نے کہا اس عزیز نے بہت سمجھایا میری رائے میں نہ آیا۔ میں نے اپنا قصہ پرغصہ کھا ایک ساعت چپ رہا۔ بولا اے نادان سو طرح کا عذاب اٹھاتا یہاں نہ آتا۔ اس شہر کے باشندے کافر اور دشمن مسافر ہیں جو غریب یہاں آتا ہے بے سجدہء بت رہنے نہیں پاتا ہے۔ اگر چاہے بھاگ جائے، جانے نہ پائے۔ بت کے پیٹ میں ایک شیطان ہے اور اس کی گفتگو بہتان ہے۔ میں نے افسوس کھایا کہ عبث آیا۔ کہا خوب اب تو تقدیر لائی۔ میں نے تیرے واسطے جو رو بہم پہنچائی۔ اس شہر کی رسم ہے مرد اجنبی جب سجدہ ء بت بجا لائے جو مانگ سو پائے۔ کل بادشاہ بتکدے میں آئے گا بندہ بھی جائے گا۔ تو پرستش بت کے بعد بادشاہ کے قدم لیجیو اور دختروزیر کی درخواست کیجیو۔ میں تیرا حال مفصّل کہوں گا اور اس کام کے درپے ہوں گا۔ پھر لباس فاخرہ دیا اور ساتھ لیا۔ دیکھا گرد بتخانہ کے انبوہ ہے اور ہر طرف زن و مرد کا گروہ ہے۔ بادشاہ فرنگ روبرو ئےبت سجدہ گزار اور امیر اور امراء دست بستہ امیدوار۔ میں نے بت کو سجدہ کیا اور پائے برہمن چوم لیا۔ میں بادشاہ کے نثار اور وزیر کی بیٹی کا طلب گار تھا۔ بادشاہ نے فرمایا یہ اجنبی کہاں سے آیا۔ اس عزیز نے عرض کی یہ میرے اقربا سے ہے۔ بت بزرگ کی زیارت کے واسطے آیا۔ وزیر زادی کا تیر نگاہ کھایا ۔اب اس پر مائل ہے اور جہاں پناہ سے سائل ہے۔ امیدوار ہوں وزیر اس کو اپنی غلامی میں لائے اور سرفراز فرمائے۔ بادشاہ نے با آواز بلند وزیر سے فرمایا کہ اسے خلعت
ریختہ صفحہ 30
دامادی دینا واجب آیا۔ شہرت ہوئی کہ بزرگ نے مہربانی فرمائی اور اجنبی نے دختر وزیر پائی۔ اسی وقت برہمن مجھ کو بت کے آگے لایا اور رشتہ ء زنار گلے کا ہار بنایا۔ میں نے گردن جھکائی بت سے کچھ آواز آئی۔ وقت شام بادشاہ خود مقام وزیر پر آیا مجھ کو ساتھ لایا۔ خلعت فاخرہ دیا دختر وزیر سے منعقد کیا ۔شادیانہ شاہی بلند اور عالم خرسند ہوا۔ ایک سال کے بعد معشوقہ حاملہ ہوئی۔ وقت اسقاط حمل موئی۔ میں غمگین تھا سینکڑوں رنڈیاں آئیں۔ نوحہ بر لائیں۔ دونوں ہاتھوں سے میرا سر پیٹنا شروع کیا اٹھنے نہ دیا۔ قریب تھا کہ میرا کام تمام ہو وہی شخص کہ آنے سے مانع ہوا تھا مجھے کھینچ کر دیوان خانے میں لایا اس آفت سے بچایا۔ کہاغم سے درگزر اپنا ماتم کر ۔میں نے تجھ کو بہت سمجھایا تیری خاطر میں نہ آیا۔ القصہ تمام املاک اور میری خانہ داری کا سب اسباب بیچ کر جواہرات لیا وہ جو اہر اور چالیس روز کا قوت توشہ ء تابوت کیا۔ بادشاہ وزیر ہمراہ ہر ایک با لباس سیاہ اسی قلعہ مقفل کی طرف کہ پہلے روز میں نے دیکھا تھا ،تابوت لائے اور سو آدمی باتفاق دروازہ کھول کر اس میں درآئے ۔مجھ کوکہا یہ آذقہ کھانا اور چند روز بسر لے جانا تاکہ بت بزرگ خبرلے اور تیری داد دے۔ میں نے چاہا کچھ کہوں وہاں نہ رہوں ۔اس مرد نے بزبان اجنبی کہا اے بیہوش خاموش۔ والا ابھی ہمہ سوختی لاتے ہیں اور ہمیں تجھے جلاتے ہیں۔ مجھ کو نکلنے نہ دیا دروازہ بند کیا۔ میں نے لاش پر لات ماری کی تو کیوں موئی جو میری یہ خرابی ہوئی۔ چالیس روز تک وہی تو شہء تابوت میں نے اپنا قوت کیا اور ایک مہری سے آب گرم بہا وہی پیا۔ جب قوت آخر ہوا میں نے کہا اب موا۔ اتفاقا" ایک تابوت اور آیا میں نے آپ کو چھپایا۔ اس کے ساتھ پیر زال آذقہ مالامال۔ میں نے ایک ضرب چوب سے اس کا کام تمام کیا اور صندوقچہ لیا۔ چالیس روز کھا یا پھر تابوت آیا۔ اس کے ساتھ دختر پری پیکر ماہ رومشکین مو لباس کد خدائی دربر تاج عروسی بر سر صندوقچہ جواہر آبدار طعام لذیذ خوشگوار۔ میرا دل اس نازنین شمائل پر مائل ہوا۔ آذقہ لیا اور اس کو طلب کیا۔ اس نے گریز کی میں نے طرح دی کہ کہاں جائے گی آخر آئے گی۔ جب اس پر اشتہا غالب ہوئی دیکھا مجھ کو کہ ہر روز کھاتا ہے اور نہیں ستاتا ہے ۔دور سے سوال کیا میں نے میوہ دیا۔ چند روز میں رام اور ہم کلام ہوئی۔ پوچھا تو کون ہے۔ کہا، دختر وکیل مطلق بادشاہ شب زفاف کو میرا شوہر بیمار ہوا اور اسی مرض میں موا۔ میں نے بھی اپنا حال ظاہر کیا اور اس کو بغل میں لیا۔ ہم دونوں اپنا اپنا درد اور دکھ آپس میں کہتے اور ایک جا رہتے۔ ایک سال کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ اس پر دل شیدا ہوا ۔بہت مصیبت اٹھائی طبیعت تنگ آئی۔ ایک روز میں نے رو دیا ۔ جناب کبریا میں التماس کیا کہ اے کریم کارساز غریب نواز کب تک زندہ درگور رہو ں اور تیرے سوا کس سے کہوں۔ مجھ بے کس کی خبر لے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 31
اس قید سے رہائی دے۔ ایک بزرگ نے خواب میں کہا مہری کی راہ سے باہر آ۔ مہری سنگ و آہن سے استوار اس کا جدا کرنا دشوار۔ بارے میری عقل سے میخ آہنی تابوت شکستہ سے لی ۔کھود نے کی محنت اختیار کی۔ ایک سال کے بعد اس میں رخنہ ہوا۔ اسی طرف سے باہر آیا۔ تھوڑے جواہر ساتھ لایا۔ ایک مہینہ کئی روز ہوئے جنگل طے کرتا ہوں، آبادی نہیں پائی آج تقدیر یہاں لائی۔ اے جہاں پناہ مجھ کو اس عزیز کے حال تباہ پر رحم آیا ،کھانا کھلایا، لباس دیا، رفیق کیا ۔معتبر نظر آیا میرے نزدیک رتبہ پایا۔ اس کی عورت بندہ زادےکے ساتھ کہ ملکہ فرنگ سے تولد ہوا تھا، بارو ہمکنار ہوئی اس سے دو فرزند پیدا ہوئے لیکن دونوں موئے۔ چند مدت کے بعد بندہ زادہ بھی مر گیا۔ وہاں سے دل نفرت کر گیا۔ شاہی؟؟؟ اس کو سپرد کی۔ شاہ فرنگ سے رخصت لی۔ آپ سگ پرست کہلایا بڑے بھائیوں کی بات زبان پر نہ لایا مگر اس لڑکے کی خاطرسے ادھر کا راستہ لیا اور آپ کے روبرو یہ راز ظاہر کیا۔ اے درویشو میں نے لڑکے کی طرف رخ کیا اس نے زمین کو بوسہ دیا ۔کہا جہاں پناہ سلامت میرا باپ بند اور یہ عاجز و فرزند ناچار مردانہ وار باہر آئی۔سگ پرست کو لائی۔ بادشاہ ملاحظہ فرمائے اور میرا باپ رہائی پائے۔ سگ پرست نے یہ سن کر بے اختیار رو دیا اور افسوس کیا کہ میرے فرزند تنہا چاہا اس کو فرزندی میں لاؤں اور اپنا جانشین بناؤں۔ خدا نے یہ بھی نصیب نہ کیا۔ زمانے نے فریب دیا۔ القصہ اس کے گریہ جانسوز سے میرا دل آب اور جگر کباب ہوا۔ اس کو نزدیک بلا یا۔ آہستہ فرمایا دختر وزیر کو اپنی زوجیت میں لے اور غم و غصہ جانے دے۔ فی الجملہ صبر آیا اور آداب بجا لایا۔ میں نے اس کو مختارکار کیا اور اعتبار دیا۔ چند روز کے بعد وزیر زادی کو اس کے ساتھ منعقد کیا۔ اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک میری سرکار کا مختار ہے اور دوسرا ملک التجار ہے۔ اے درویشو مطلب اس حکایت سے یہ ہے کہ حجاب درمیان سے اٹھ جائے اور ہر ایک اپنی سرگزشت بیان فرمائے۔
داستان چہارم زبانی درویش سوم
تیسرا درویش بولا کہ اے اداس یہ فقیر شہزادہ ءملک فارس ہے ۔ایام طفولیت میں استادوں نے تعلیم فرمایا۔ ہر فن سے بہرہ وا فرما یا۔ ہمیشہ حکایات بزرگان سنتا اور گل فیض چنتا۔ اتفاقاً ایک شخص نے ذکر حاتم کیا کہ خدا نے جوہر سخاوت اسی کو دیا۔ میں نے کہا اس کی کوئی روایت مختصر بیان کر۔ عرض کی اس کا دفتر بے نہایت ہے از اں جملہ یہ حکایت ہے کہ نوفل نامی سردار عرب نے ایک بار رشک سخاوت سے حاتم سے عداوت کی۔ فوج برائے قتل تعین فرمائی ۔حاتم نے خبر پائی۔ کہا بے جرم و گناہ خونریزی سپاہ ہوگی ۔بجان واحد آپ کو ایک میں مخفی کیا۔ نوفل نے گھر لوٹ لیا۔ کہا جو سر حاتم لائے ہزار اشرفیاں پائے۔

ریختہ صفحہ 32
عالم تلاش میں چلا، کسی کو نہ ملا۔ ایک مرد پیر اور پیرزن متصل غار خارکشی کرتے تھے۔ بڑھیا کی زبان سے نکلا اگر حاتم کہیں ہاتھ آتا ہمارا اخلاص بالکل جاتا۔ پیر مرد نے کہا ہے اے عاقلہء جہاں وہ نصیب کہاں کہ دولت پائیں۔ فراغت سے کھائیں۔ حاتم نے یہ سن کر دل میں کہا اس غریب کو محروم رکھنا بعیداز مروت اور دور از فتوت ہے۔ غار سے باہر آیا۔ پیرمرد کو بلایا۔ کہا میں حاتم ہوں ،نوفل کے پاس لے چل،قید مفلسی سے نکل۔ اس نے کہا اے حاتم فی الواقع میری پریشانی جاتی ہے اور دولت ہاتھ آتی ہے مگر یہ کیا لطف ہے کہ ایک بے گناہ کو دشمن کے قبضہ میں دوں اور خون ناحق گردن پر لوں۔ حاتم نے قسم دی اس نے قبول نہ کی۔ اس بحث پر ہجوم ہوا اور خلق کو معلوم ہوا۔ حاتم نے کہا اگر تو نہیں لے چلتا ہے میں خود جاتا ہوں ۔تجھ کو پکڑ بلاتا ہوں کہ اس بڈھے نے مجھے چھپایا، اس باعث سے میں نہ آیا۔ پیرمرد بولا سبحان اللہ نیکی برباد گناہ لازم۔ طوعاً اور کرہاً ہمراہ ہوا۔ اس کے گرد گروہ گروہ عالم کا انبوہ۔ جب وہاں پہنچا نوفل نے پوچھا حا تم کیونکر آیا۔ ایک رند نے کہا میں لایا۔ فرمایا اشرفیوں کا توڑا اس کے آگے دھرو اور حا تم کو قتل کرو۔ حا تم نے کہا اے نوفل اگر سچ پوچھ تو یہ مجھے نہیں لایا اس پیر مرد نے پایا۔ نوفل نے اسے بلایا۔ پوچھا حاتم کیونکر آیا۔ پیر مرد نے خار کشی کے طریق پر خار کی طرف اپنا جانا اور طمعء دنیا سے حاتم کا ذکر لانا اور وہ بات حاتم کے گوش زد ہونا اور توجہات کی راہ سے اس کا نکل آنا اور اپنا انکار اور اس کی تکرار سب بیان کیا۔ نوفل نے کہا افسوس خون نا حق ہوا تھا اس جوانمرد نے غریب کے واسطے جان تک دریغ نہ کی۔ ایسے صاحب سخاوت سے عداوت کی۔سخت دون ہمتی ہے اور پست فطرتی ہے۔ پھر پیر مرد کو زر خطیر دیا اور پاس حاتم بدرجہء اتم کیا۔ اے قبلہء عالم میرے دل میں گزرا حاتم ایک مرد شریف اس کی یہ تعریف۔ تو بادشاہ زمانہ مالک زمانہ تو ہی داد سخاوت دے اور نیک نامی لے ۔حکم کیا ایک عمارت تازہ مع چار دروازہ جلد تیار ہو اور نقد وہاں انبار ہو۔بعد تیاری شہرت دی اور منادی کی کہ محتاج آئے احتیاج لے جائے۔ روز و شب زرافشانی تھی اور کامرانی تھی۔ ایک فقیر نے صدا کی میں نے اشرفی دی۔ اسی طرح ہر دروازے سے لایا۔ میری زبان سے نکلا یہ فقیر حریصوں کا پیر ہے ۔فقیر نے تبسم کیا جو پایا تھا رکھ دیا۔ کہا تیرے آگے کچھ چیز ہے اور میرے سامنے کمتر از پشیز ہے ۔اےعزیز جب تک سخاوت ملکہ ءبصرہ دیکھ نہ آئے گا نیک نامی نہ پائے گا۔ میں نے دو چند سہ چند دیا قبول نہ کیا۔ کہا اگر سلطنت دے گا فقیر نہ لے گا۔ من دوگھڑی متحیر رہا۔ دل میں کہا اگرچہ بصرہ دور ہے مگر جانا ضرور ہے۔ وزیر کو خوب ملک پر متسلط کیا اور آپ لباس درویشی لیا اور بذات واحد سفر کیا ۔بعد مدت ولایت بصرہ میں داخل ہوا جس شہر اور گاؤں میں گزرتا گماشتہ ملکہ خدمت کرتا۔ جب شہر بصرہ میں پہنچا

ریختہ صفحہ 33
ایک جوان سر دروازہء عالیشان نظر آیا۔ مجھ کو بلایا ۔کہا یہ تکیہ گاہ فقیر ہے اور مہمان خانہ ءغریب و امیر ہے۔ جو تشریف لائے سرفراز فرمائے۔ تواضع سے پیش آیا اپنے مقام پر لایا۔ حویلی خوب مکان مرغوب فرش زیبامسند دیبا ظروف مسی بے شمار۔ ہر ایک نادرہ کار۔ دسترخوان وسیع بچھایا کھانا لذیذ کھلایا۔ تین روز جانے نہ دیا ۔چوتھے روز میں نے قصد کیا۔ کہا کیا مضائقہ ظروف وغیرہ یہ سب اسباب آپ کا ہے۔ باربرداری لائیے لے جائیے۔ میں نے کہا اس قدر بارمجھ کو کیا درکار ۔کہا ملکہ اگر سنے گی ۔فقیر آیا اور قبول نہ فرمایا۔بندہ مورد عتاب ہو اور گرفتار عذاب ہو۔ فی الحال اگر لے جانا محال ہے اسباب تمام ایک مقام پر رکھ کر قفل بند کیجیے۔ اس کی خاطر سے سب اسباب ایک حجرے میں بند کیا اور قفل دیا۔ اسی وقت ایک خواجہ سرا لباس فاخرہ پہنے آیا۔ حرف دعوت درمیان لایا کہا یہ خاکسار ایک مدت سے انتظار میں تھا کہ کوئی بزرگ آئے بندہ خدمت بجا لائے۔ الحمدللہ میری دعا نے اجابت پائی آرزو برآئی۔ میں نے ہر چند عذر کیا جانے نہ دیا۔ مکان میں لایا دستر خوان بچھایا۔ طبق ہائے زریں کاسہ ہائے سیمیں ۔کھانے مزیدار شربت خوشگوار۔ تین روز تک نہ چھوڑا ۔چوتھے روز کہا اگر قیام کیجئے مقام لیجیے۔ اور جو مصرف اس مکان کا ہے مال مہمان کا ہے۔ اس کے سوا اور جو کچھ حضرت ارشاد فرمائیں خدمت ملکہ میں عرض کیا جائے۔ مجھ کو طمع انسانی اور حرص جوانی نے لیا۔ کہا خدا نے مجھے کسی چیز کا محتاج نہیں کیا مگر ایک مطلب ہے زبانی نہ کہوں گا رقعہ لکھوں گا۔ اگر مہربانی فرمائیے سربمہر لے جائیے۔ خواجہ سرانے قبول کیا میں نے رقعہ لکھ دیا۔ مضمون یہ تھا کہ یہ فارس ملک فارس میں تخت فرمانروائی پرکامکار اور شہرہء روزگار تھا۔ ایک سیاح نے اوصاف حمیدہ اورخصائل پسندیدہ ملکہ سے شمہ بیان کیا۔ مجھ کو اشتیاق نے لیا۔ لباس بدلا اکیلا نکلا۔ حق تعالیٰ نے بخیروخوبی یہاں پہنچایا حال ملکہ جو سنا تھا کہیں اس سے زیادہ پایا۔ سرکار کے گماشتے باخلاق پیش آئے۔ نقد و جنس سب حاضر لائے۔ لیکن عالم آزادی میں یہ بار مجھ کو کیا درکار۔ اگر ملکہ شرع شریف سے انکار نہ فرمائے میرے عقد نکاح میں آئے۔ عہد کرتا ہوں کہ تا زندگی حلقہ ءبندگی سے باہر نہ آؤں گا اور غلام وار فرمابرداری بجا لاؤں گا۔ باقی اختیار بدست مختار۔ خواجہ سرا نے خط پہنچایا ملکہ نے یاد فرمایا۔ سر دروازہ ءحرم ایک دا یہ محرم بازیو مرصع کار بالائئےکرسی زرنگار بیٹھی تھی۔ میں نے بھی جاکر ایک کرسی پر نشست کی۔ ہر ایک نے تعظیم دی۔ دایہ نے کہا اے فرزند ملکہ دعا کہتی ہے اور فرماتی ہے کہ نہ مجھ کو شرع شریف سے عارہے نہ شوہر کرنے سے انکار ہے۔ ایک مدت سے تجھ سے محب صادق کی۔

ریختہ صفحہ 34
جستجو ہے آج سے مجھ کو اپنا نامزد جان اور خادموں سے کم تر پہچان۔ دنیا میں عورت کا مہر مقرر ہے مگر میرا مہر ایک شرط پر منحصر ہے۔ پوچھا شرط کیا۔ دایہ نے کہا کوئی جائے بہروز کو لائے۔ بہروز پوشاک فاخرہ در بر ہزار کلید بالائے کمرخراماں خراماں آیا۔ دایہ نے فرمایا اے بہروز احوال نیمروز بیان کر۔ اس نے کہا اے عزیز سرکار جہاں مدار ملکہ میں ہزار غلام صاحب اقتدار ہے اور سب سے کم ترین یہ خاکسا رہے۔ ہر ایک تجارت کے واسطے جاتا ہے اور جب آتا ہے ملکہ حرف سود و زیاں درمیان نہیں لاتی ہے۔ وضع ہر دربار استفسار فرماتی ہے۔ ایک بار میں شہر نیمروز کی طرف گزرا وہاں ہر شخص سیاہ پوش نظر آیا۔ ہر چند پوچھا کسی نے نہ بتایا
نظم
سب ادنی و اعلی سے تا بادشاہ
سیاہ پوش تھے جس طرح نجم و ماہ
میں ہر چند پوچھا کیا سب سے بھید
نہ ہرگز ہوئ وہ سیاہی سپید
روز اول ماہ از وزیر تا بادشاہ تمام خرد و بزرگ ہمراہ شہر سے نکل کر باہر کھڑے ہوئے۔ ہر ایک روبصحرا برابر صف آرا۔ ایک نوجوان گاؤ زرد پر سوار آگے حدمت گار نیستان سے نمودار ہوا۔ جلد گاؤ سے اتر کے اس نے نشست کی۔ غلام مرتبان صف کی طرف لایا ہر ایک کو دکھایا۔ سب نے تحسین و آفرین کی۔ غلام ادھر سے ادھر پھرا اس کے آگے مرتبان دھرا۔ اس نے وہ تیغہ جڑا کہ اس کا سر دس قدم پر جا پڑا۔ پھر سوار ہو کر نیستان کو چلا۔ ہر ایک نے دست افسوس ملا۔ میں پوچھتا رہا کسی نے کچھ نہ کہا۔ غرض ہر سال یہی از دحام اور اس جوان کا وہی کام ہے۔ میں نے خدمت ملکہ میں یہ احوال عرض کیا ملکہ کو حیرت نے لیا۔ فرمایا کوئی جائے تحقیق کر آئے۔ ایک غلام گیا چند ماہ کے بعد وہاں بیمار ہوا اور موا۔ نامہ لکھا کہ جو کچھ سمع شریف میں پہنچا راست ہے مگر اس عقدے کا حال کھلنا دشوار ہے۔ آگے ملکہ مختار ہے غلام فدا اورحق نمک ادا ہوا۔ اے عزیز ملکہ نے یہ سن کر تعجب کیا اور کشف اس راز کا اپنا مہر قرار دیا۔ جویہ خبر لائے وہ خلعت دامادی پائے۔ اگر تجھ میں قدرت ہو، جا خبر لا ۔ نہیں تو آپ کو خاک میں ملا ۔مگر اس ہوس سے درگزر خیال خام نہ کر۔ میں نے کہا جاتا ہوں۔ انشاء اللہ تعالی کامیاب ہو آتا ہوں۔ مگر ایک عقدہ ہے اگر ملکہ مجھ کو متصل پردہ بلائے اور حال بیان فرمائے مہربانی سے بعید نہ ہوگا۔ دایہ نے پیغام پہنچایا ملکہ نے یاد فرمایا۔ سبحان اللہ مکان نمونہ بہشت لونڈیاں حور سر شت۔ میرے واسطے ایک کرسی آئی ملکہ پسِ پردہ تشریف لائی۔ میں نے ثنا و صفت کے بعد کہا جس روز سے تقدیر قلمرو ملکہ میں لائی منزل بمنزل ضیافت کھائی اور شہرہ خاص میں کارپردازان سرکار نے اس قدر نقد و جنس در پیش کیا کہ مال دنیا سے بے نیاز کر دیا۔ لیکن میں نے اس عالم آزادگی میں کچھ نہ اٹھایا

ریختہ صفحہ 35
معلوم ہوا اسی طرح جو مسافر آتا ہے ممنون ہو جاتا ہے۔ اپنی دانست میں انتفاع ولایت ایک مہمان خانے کو کفایت نہیں کر سکتا ہے یہ خرچ کہاں سے چلتا ہے۔ اگر ملکہ اس رارزسے مطلع فرمائے بندہ تلاش کے واسطے جائے۔ دایہ نے کہا شب کو گزارش کیا جائے گا۔ میں اٹھ کر مہمان خانے میں آیا۔ شب کو مجھے یاد فرمایا۔ جا کر دیکھا کہ دو شاخہ اور پنج شاخہ روشن بے شمار نقرہ و طلا کے شمع دان ہزار شامیانے زر وزری با جھالر مروارید جابجا استادہ۔ اسباب عیش و عشرت بخوبی آمادہ۔ فرش ملوکانہ نام مسند خسروانہ۔ چلتے چلتے دایہ محل سرائے خاص میں لائی۔ آئینہ بندی مستحکم شیشہ ہائے حلبی قدآدم۔ در ودیوار کو اس قدر مرصع کیا ہے گویا تمام عالم کا جواہر جڑ دیا ہے۔ ملکہ پس پردہ تشریف لائی دایہ باہر آئی۔ مجھ کو کرسی دی۔ آپ حکایت آغاز کی کہ اس دیار کا والی سات بیٹیاں رکھتا تھا۔ بلند اختر ایک سے ایک بہتر ۔روز جشن سب بیٹیاں پوشاک پہن کر باپ کے سامنے آئیں آداب بجا لائیں۔ باپ نے سب سے پوچھا تم میرے نصیب سے پاتی ہو۔ ہر ایک نے عرض کی یہ حشمت آپ کی بدولت ہے مگر چھوٹی لڑکی نے کہا غریب پرور نصیب اپنا اپنا رہبر ہے۔ یہ سخن نا پسند آیا فرمایا کہ نا لکی میں ڈال کر اسے لے جائیں صحرائے لق و دق میں چھوڑ آئیں۔ آدھی رات کو لوگ سوتے میں اٹھا لائے اور صحرائے ہولناک میں چھوڑ آئے۔ شاہزادی جاگی رونے لگی
نظم
کروں کیا میں رونے کا اس کے بیاں
ہوئے دونوں آنکھوں سے دریا رواں
جو ڈیرے وہاں خشک تھے سو بھرے
ہوئے خار صحرا کے سارے ہرے
نا یگانہ نہ بیگانہ نہ پانی نہ دانہ ۔تن تنہا حیران دل پریشان۔ تیسرے روز خدا کی طرف رجوع لائی اس کی دعا نے اجابت پائی۔ غیب سے ایک فقیر آیا۔ اسے بھوکا پایا۔ اپنے کشکول سے روٹی دی اور تسلی کی ۔کہااے شہزادی خاطر جمع رکھ۔ میں بھیک مانگ لاؤں گا تجھ کو کھلاؤں گا۔ چنانچہ ہر روز فقیر جاتا گدائی کر لاتا۔ ملکہ نے ایک روز تیل اور کنگھی طلب کی، فقیر نے لادی۔ کنگھی کرنے میں بالوں سے ایک جواہر ہاتھ آیا فقیر پانچ سو کو بیچ لایا۔ ملکہ نے کہا مزدور آئیں حویلی بنائیں۔ فقیر بولا اگر مٹی کھدی ہوئی پاتا میں آپ دیوار بناتا۔ ملکہ نے بیل ہاتھ میں لیا شغل اختیار کیا۔ تھوڑی زمین کھودی کہ ایک دروازہ نظر آیا خا نہ پُر از خزانہ پایا۔ بقدر احتیاج لیا اور بند کیا
نظم
نہ تھے اس کی قسمت میں جو درد و رنج
دیا حق نے اس کو خرابے میں گنج
کہا شہزادی نے کلمہ بجا
کہ ہر ایک کا ہے نصیبہ جدا
فقیر بموجب ایما معمار اور مزدور شہر سے لایا۔ ملکہ نے شہرپناہ بلند اور قلعہ آسمان پیوند تجویز فرمایا۔ زر خطیر دیا اور امیدوار کیا۔ عمارت عالی جلد تیار ہوئی اور شہرہء روزگار ہوئی۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 36
رفتہ رفتہ بادشاہ نے خبر پائی۔ پوچھا یہ ملکہ کس خاندان سے آئی۔ جواب شافی نہ پایا حیرت میں آیا۔ اپنا ایک معتمد ملکہ کے نزدیک بھیجا ارادہ ہے کہ ہم آپ بطریق سیر آئیں عمارت ملاحظہ فرمائیں۔ ملکہ نے خوش ہو کر عرض کی اس غریب کے زہےنصیب جہاں پناہ اگر کل تشریف لائیں سرفراز فرمائیں۔ دوسرے روز شاہ والا تبار تخت رواں پر سوار ہو کر آئے۔ ملکہ با کنیزان خوبرو اور مع نغمہ سرایان خوش گلو تا دروازہ آئی آداب بجا لائی۔ زنجیر فیل کوہ پیکر اور کئی گھوڑے با زیور پیش کش کیے۔ اور چند جواہر گراں بہا نذر دیے۔ بادشاہ حیران رہا ۔زبان مبارک سے کہا اے عاقلہ کس ولایت سے آئی اور کیوں حویلی ویرانے میں بنائی۔ ملکہ نے عرض کی یہ وہی کنیز بے تمیز اور دخترنا چیز ہے کہ آپ نے غصہ کیا اور نکال دیا۔ بادشاہ کو فوراً وہ بات یاد آئی۔ شفقت پدری فرمائی۔ پیشانی پر بوسہ دیا اور گود میں لیا۔ پھر خاصہ آیا تناول فرمایا۔ بادشاہ بیگم اور لڑکیوں کو طلب کیا ملکہ نے ہر خوا ہر کو جواہر اس قدر دیا کہ اگر ہفت اقلیم کے جواہرات لائیں اس کے پاسنگ کو نہ پائیں۔ تاحین حیات بادشاہ نے حکمرانی فرمائی اس کے بعد ملکہ پر سلطنت قرار پائی۔ دولت خداداد بے زوال ہے بلکہ ترقی شامل حال ہے۔ اے قبلہ عالم میں نے یہ سن کر ملکہ کو دعا دی اور نیمروز کی راہ لی۔ مدت کے بعد وہاں پہنچا عالم سیاہ پوش پایا جو سنا تھا وہی نظر آیا۔ میں نے تحقیقات کے واسطے سر دھنا کسی سے کچھ نہ سنا۔ غرہ ماہ کو پھر جو وہی ہنگامہ روبکار ہوا اور گاؤ سوار نمودار ہوا۔ چاہا اس کے پیچھے جاؤں دریافت کر آؤں۔ لوگوں نے مجھ کو گھیرا بزور پھیرا۔ مطلب بر نہ آیا افسوس کھایا۔ ناچار تیسری بار میں نے کسی سے نہ کہا نیستان میں چھپ رہا۔ جب گاؤ سوار صف سے دوچار ہو کر پھرا گاؤ مثال باد اڑا۔ میں پیچھے چلا شمشیر کھینچ کر کہا جا یہاں نہ۔ میں نے آوازہ فقیرانہ کیا خنجر مرصع پھینک دیا۔ میں نے پیچھا نہ چھوڑا پھر باگ کو موڑا۔ اے فقیر خون ناحق ہوتا ہے کیوں جان کھوتا ہے۔ میں نے کہا اے جوانمرد دریغ نہ کرنا مجھ کو راحت ہے مرنا۔ یہ سن کر تلوار میان میں کی اور اپنی راہ لی۔ دو کوس پر ایک باغ تھا دیوار یں بلند دروازہ بند نعرہ ہولناک زبان پر لایا کہ تمام باغ نے لرزہ کھایا دروازہ کھلا وہ اندر سے چلا۔ میں نے دل میں کہا مطلب رہا۔ بارے خدا نے اس کو رحم دیا مجھ کو طلب کیا۔ دیکھا ایک جوان ہے نازنین بالائے مسند مربع نشین۔ طیاری شیشہءحلبی روبکاراورمہر وزمردیں اس کے درمیان طیار۔ میں آداب بجا لایا بیٹھنے کو فرمایا۔ حاضری طلب کی مجھ کو بھی دی۔ وقتِ شام اس مقام سے اٹھا۔ غلاموں نے کنارہ کیا میں نے بھی گوشہ لیا۔ وہ نوجوان مانند سرور وان باغ کی طرف آیا میں نے دریچہ سے نکل کر آپ کو زیر درخت چھپایا۔ اس نے ایک چوب دستی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 37
ہاتھ میں لی۔ گاؤ کو خوب زد و کوب کی۔ پھر ایک دروازہ کھول کے در آیا وہاں کا احوال کچھ نہ پایا۔ پھر آکر گاؤ کا بوسہ لیا اور پیار کیا۔ پھر مکان اوّل میں آیا ۔کھا نا کھایا۔ میں تا وقت خواب بیٹھا رہا ۔مجھ سے کہا ہےاے عزیز سچ کہہ۔ کیا رنگ ہے کہ زندگی سے تنگ ہے۔ میں نے ابتدا سے انتہا تک سب بیان کیا۔ آہ سرد زبان پر لایا فرمایا اے عزیز تو کامیاب ہوا اور میں زیادہ تر بیتاب ہوا۔ اےقبلہء عالم میں نے اس میں عشق کی سوختگی پائی۔ قسم کھائی کہ اگر اس کار کے اسرار سے خبردار ہوں جب تک کہ آپ کی مراد بر نہ لاؤں اپنی منزل مقصود کی طرف نہ جاؤں۔ اس نے مجھ کو شفیق اور رفیق جانا۔ کہا میں اس ولایت کے والی کا فرزند ہوں۔ وقتِ تولد منجمون نے عرض کی فضل الٰہی سے شہزادہ جمیع علوم سے بہرہ یاب اور روشن تر از آفتاب ہو گا مگر چودہ برس تک آفتاب اور ماہتاب کا دیکھنا زبون ہے بلکہ پیہم جنون ہے۔ فرمایا دایہ تہ خانےمیں لے جائے ہرگز باہر نہ لائے۔ صلاح وزرائے دانشور سے ایک باغ مختصر طبع پسند دیواریں بلند ترتیب دیا اس پر خیمہ ءنمد استاد کیا۔ روشنی کے واسطے شیشےجابجا لگائے مجھ کو مع دایہ اور چند خواص وہاں لائے۔ باپ نے حکیم جہت تعلیم تعین فرمایا۔ ہر فن سے بہرہ وافر پایا۔ ایک روز شب ماہ تھی میں سیر باغ کرتا تھا۔ ایک گل عجیب نظر آیا میں نے ہاتھ دوڑایا نہ پایا۔ جب میں جھکتا وہ چھپتا اور جب ہاتھ دور لے جاتا نظر آتا۔ ظاہرا دست درازی شاخ نہاں سے نمد بوسید میں سوراخ ہوا وہ گل شعاعی تھا۔ میں نے کبھی دھوپ اور چاندنی نہ دیکھی تھی حیران ہوا۔ ناگاہ نمد پارہ ہوا اور چاندنی آشکار ہوئی۔ اوپر سے آواز قہقہہ آئی میں نے نگاہ اٹھائی۔ دیکھا ایک تحت ہے طلا کار اس پر ایک نازنین سوار۔ تاج مرصع برسر چارقب مروارید دربر۔ فوراً تخت نیچے آیا مجھ کو پکڑ کر پاس بٹھایا۔ دو جام پے در پےپئے۔ صحبت موافق آئی لذت وافر پائی۔ اس قدر میرا دل لیا کہ فریفتہ کیا۔ فرمایا آدمی بے وفا ہوتا ہے نہیں تو جب تک جیتی تیری مے محبت پیتی۔ ایک ساعت کے بعد پریزاد آئی آداب بجا لائی۔ کچھ اپنی زبان میں عرض کیا۔ وہ نازنین روئی۔ کہا میں نے چاہا تھا تیرے ساتھ کوئی دم خوشی سے بسر لے جاؤں اور لطف زندگی پاؤں
نظم
میں جاتی ہوں ناچار اے میری جان
نہ ہونا میری سمت سے بد گمان
شب و روز دم تیرا بھر نا مجھے
فراموش تو بھی نہ کرنا مجھے
میں نے کہا اے راحت جان تیرا مقام کہاں۔ اگر چاہوں کہ پھر دولت دیدار پاؤں کس سے پوچھو ں کدھر جاؤں۔ اپنے مقام سے نشان دےیا مجھے ساتھ لے۔کہا میں بادشاہ جن کی بیٹی ہوں آدمی کی کیا قدرت کہ وہاں جائے اور مجھے دیکھنے پائے۔ یہ حرف کہاں اور آنسوؤں کا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 38
دریا بہا ۔پریزادوں نے تخت اٹھایا۔ ہوا پر اڑایا۔ جہاں تک نظر کام کرتی رہی میں اسے دیکھتا رہا اور وہ مجھے دیکھتی رہی ۔جب غائب ہوئی سودا زدہ ہر طرف پھرا اور بے اختیار زمین پر گرا۔ روتا اور کہتا
نظم
کہاں تو گئی اے مری نور عین
نہ آرام جی کو نہ دل کو ہے چین
تیرے ہجر میں ہائے مرتا ہوں میں
کئی دم ہیں باقی سو بھرتا ہوں میں
معلّم نے سورۂ جن دم کیا۔ بادشاہ کو اس خبر نے صدمہ دیا۔ بادشاہ خود تشریف لائے دانا اور ذوفنون ساتھ آئے۔ ہر ایک نے تدبیر فرمائی سودمند نہ آئی۔ میں روز بروز لاغر ہوتا اور راتوں کو نہ سوتا۔
نظم
کبھی آسمان کی طرف تھی نگاہ
کبھی باد سے پوچھتا اس کی راہ
کبھی اڑتی چڑیا سے کہتا پکار
بتانا مجھے اس پری کا دیار
اس عرصہ میں ایک سوداگر وارد ہوا اس نے التماس کیا ہندوستان میں ایک جزیرہ ء دلکشا جانفزا ہے۔ وہاں جوگی رہتا ہے افلاطون کردار ارسطو روزگار اس کی حویلی نہایت بلند برج بارہ آسمان پیوند۔ سال کے بعد روز باہر آتا ہے دریا کو جاتا ہے۔ نزدیک دور کے بیمار اس کے منتظر رہتے ہیں اس روز کو روز عید کہتے ہیں۔ جوگی اشنان کے بعد ایک نظر دیکھ کر نسخہ لکھ کر سب کو دے جاتا ہے ہر ایک شفا پاتا ہے۔ اگر اجازت پاؤں شہزادے کو وہاں لے جاؤں۔ بادشاہ نے حکم دیا وزیر کو ساتھ کیا۔ مدت کے بعد وہاں پہنچا فی الواقعہ اس ٹاپو کی فضا جانفزا تھی اور آب وہوا دل کشا تھی۔ دل کو راحت اور جی کو فرحت ہوئی مگر اس پری کی یاد شب و روز تھی اور گرمیء عشق سینہ سوز تھی۔ ایک روز بیماروں نے خوشی کا نقارہ بجا یا کہ کل روز عید اور ساعت سعید ہے۔علی الصباح جوگی باہر آیا دریا میں نہایا۔ بعد اشنان قلمدان مرصع در بر دستار نو بر سر لنگوٹ بند قد بلند عقص گردن فربہ بدن دست راست میں قلم ۔جادو رقم بیماروں کی صف کی طرف گیا ہر ایک کو نسخہ لکھ دیا۔ جب میری نوبت آئی دیوانگی پائی۔ بعد فراغ اپنے باغ میں آیا مجھ کو ساتھ لایا۔ ایک مکان میں بٹھایا باغ کا دروازہ معمور کیا قفل دیا۔ پھر ایک حجر ےمیں جاکر زنجیر بند کی پھر میری خبر نہ لی۔ وہاں درخت بار دار تھے میں میوہ خوشگوار کھاتا اور بسرلے جاتا۔ چالیس روز کے بعد آیا مجھے خوش پایا۔ ایک مرتبان معجون کا دیا کہ ہر روز چنے کے برابر کھانا اور جس میوے پر رغبت ہو تناول فرمانا۔ یہ کہہ کر گوشہ لیا اور دروازہ بند کیا۔ میں بدستور میوہ کھاتا شکر الہی بجالاتا۔ اپنی حالت روز بہتر نظر آتی مگر وہ پر ی خاطرسے نہ جاتی۔ اس مکان میں کتب خانہ تھا۔ میں کتاب لاتا بہرہ اٹھاتا علم و حکمت سے خبردار ہوا اور طبابت میں واقف کار ہوا۔ جب پھر روز عید آیا جوگی مجھے باہر لایا۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 39
میرے رفقا دوڑے آئے شکر الٰہی بجالائے۔ جوگی نے اشنان کیا۔ قلمدان مجھکو دیا۔ ہر بیمار کا نسخہ لکھا میں نے نسخہ نویسی کو بھی سیکھا۔ ایک مریض تھا جو نہایت ناتواں خوش رو چار ابرو۔ صاحب لیاقت مگر بے طاقت۔ جوگی جب باغ میں چلا کہا اس کو ساتھ لا۔ میں نے جوانی کو کام فرمایا گود میں اٹھا لایا۔ جوگی نے اسے حجرے میں لیا اور دروازہ بند کیا۔ ایک رخنہ سے کیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑی کھوپڑی اس کے سر سے جدا کی ہے اور انبر ہاتھ میں لی ہے۔ میں نے ایک کتاب میں مطالعہ کیا تھا کے اگر ہزارپا کان میں جائے انبر نیم گرم سے اس کو نکال لائے۔ میری زبان سے نکلا کہ ہیں استاد انبر گرم ہے اور ہزارپا نرم۔ مبادا سوختہ ہو ناخن رہ جائے اور بیمار ایذا پائے۔ یہ حرف سن کر پیچ تاب کھایا حجرے سے باہر آیا۔ رشک سے سرزمین پر ٹپکا اور پھانسی گلے میں ڈال کر درخت سے لٹکا۔ اس کا وعدہ برابر ہوا فوراً موا۔ جل گیا جان کو دیا۔ میں جو ادھر آیا اسے مردہ پایا۔ افسوس کیا کھود کر گاڑ دیا۔ اس کے موئے سر سے ایک کنجی ہاتھ آئی اس کا قفل تلاش سے پایا کھول کر در آیا۔ وہ خانہ پر از خزانہ تھا ۔ وہاں ایک کتاب ملی بخط جلی۔ اس میں اور اور مجربات اور نسخہ تسخیر جنّات تھے۔ میں نے خوش ہو کر مریض کی خبر لی۔ کھوپڑی قائم کی۔ مرہم لگایا۔ اس نے شفا پائی۔ زخم بھر آیا۔ جوان بزرگ خاندان یار موافق اور دوست صادق ہوا۔ صحت کے بعد دروازہ کھول دیا ۔جوان کو رخصت کیا بمشورت وزیر مال فقیر سے کشتی پُر کی اور وطن کی راہ لی ۔جب شہر کے نزدیک پہنچا بادشاہ نے مع سپاہ تشریف ارزانی فرمائی۔ جان تازہ پا ئی۔ قدم بوسی کے بعد میں نے عرض کی کہ اے قبلہ دو جہاں، میرا باغ قدیم کہاں۔ فرمایا وہاں کسی نے تم کو رنج دیا اس باعث سے ویران کیا۔ اب قلعے میں مقام لیجئے آرام کیجئے۔ میں نے قبول نہ کیا اور رو دیا۔ ہر چند سمجھایا خاطر میں نہ لایا ناچار کی۔ ہزار معمار مستعد کار اور باغ بدستور تیار ہوا میں نے وہاں گوشہ لیا اور عمل تسخیر شروع کیا۔ ہر روز احوال عجیب نظر آیا مگر برکت اسم اعظم سے خوف نہ کھا یا۔ شب چہلم لرزہ زمین اور آواز سنگین کے بعد ایک پیر مرد سر پر تاج مرصّح کار تخت پر سوار ہوا سے نیچے آیا۔ ملامت کے بعد فرمایا اے عزیز کیاچاہتا ہے کہ ہم کو ستاتا ہے۔ میں نے کہا تیری دختر میری غارتگرہے۔ برائے خدا مجھے دکھا۔ کہا جنات کی قسم سے ایک قوم سیاہ ہے بندہ اس گروہ کا بادشاہ ہے۔ میری دختر بدہیئت ہے اورتو فرشتہ طلعت ہے۔ وہ تیری صحبت کے قابل نہیں۔ میں نے کہا حیلے سے درگزر، اسے حاضر کر۔ تنگ آیا، ناچار ہو کر بلایا۔ ایک دختر کریہہ منظر ،زر زیور و گو ہر میں غرق مگر اس مہ جبین سے زمین آسمان کا فرق تخت پر سوار
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 40
نمودار ہوئی میں نے کہا تو نے وہ نازنین چھپائی ۔اس نے قسم کھائی۔ کہا اغلب ہے کہ تیری معشوقہ دختر بادشاہ عمان ہو مگر اس کا ہاتھ آنا مشکل اور محنت بی حاصل ہے۔ میں نے اسے صادق القول پایا۔ اس کا کہنا خیال میں لایا۔ اسے رخصت دی دعوت پھر شروع کی۔ شب اربعین اس نازنین کا باپ مع چند خدمتگار تخت پر سوار آیا۔ کہا ہم کو کیوں طلب فرمایا۔ میں نے کہا ایک مدت سے تیری دختر نے مجھ کو دیوانہ اور آپ سے بیگانہ کیا ہے۔
نظم
نہ باہر خوش آتا ہے مجھ کو نہ گھر
شب وروز رہتا ہوں آشفتہ سر
کوئی مجھ سا دنیا میں مسکین نہیں
کہ جس کو کسی طور تسکین نہیں
کہا تو خاکی وہ آتشی، موافقت دشوار اور صحبت ناگوار ہے۔ صورت مباشرت میں اس کو قوت تجھ کو مضرت ہے۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار یہ خاکسار فقط طالب دیدار ہے۔ آرزومند بوس وقت کنار نہیں۔ اس نے کہا آدمی زاد زبان سے کہتا ہے مگر قول پر ثابت نہیں رہتا ہے۔ میں نے کہا برائے خدا ایک بار دیدار دکھا کہ مدت سے بے تاب اور بے خور و خواب ہوں۔ بارے رحم کیا اور قول لیا۔ فوراً وہ پری مثال زہرہ و مشتری دُر و گوہر میں غرق تاج مرصّع بالائے فرق دروازے سے آئی۔ میں نے زندگی پائی۔
اشعار
نظر آئی مجھ کو جو وہ خوش ادا
دل و جان سے اس پر ہوا میں فدا
محبت سے آغوش میں لے لیا
جدا دو گھڑی تک نہ ہونے دیا
ہوئے میرے محکوم جن و پری
پری تھی سلیمان کی انگشتری
خوشی سے میرا غنچہ ء دل کھلا
مجھے تخت جمشید گویا ملا
ہم دونوں فراغت سے باغ میں بسر لے جاتے اور آپس کے دیدار سے حلاوت پاتے۔ وہ پری میری دلبری میں رہتی اور ہر وقت کہتی اے دوست دار جنوں سے خبردار یہ مکار اور جفا کار ہوتے ہیں۔ ایک رات مجھ کو شہوت غالب اور ہوس بشری طالب ہوئی۔ قول فراموش کیا اور اسے آغوش میں لے لیا۔ کسی نے کہا اس وقت کلام ربانی پاس رکھنا نادانی ہے۔ میں نے اپنے بیگانے میں تمیز نہ کی کتاب اس کو دی۔ پری نے فرمایا تو نے فریب کھایا۔ کتاب عفریت کو دی آفت سر پر لی۔ میں نے دوڑ کر اسے لیا اور اس نے کتاب کو اور کے ہاتھ میں دیا۔ مجھ کو ایک افسوں یاد آیا۔ اس کو بیل بنا یا۔ خدا جانے جنوں نے کیا سحر کیا وہ پری بے ہوش اور میں از خود فراموش ہوا۔ ناچار شغل کے واسطے زمرد کا مرتبان بناتا ہوں اور غرہ ہر ماہ کو باہرجاتا ہوں۔ قتل غلام محض اس واسطے ہے کہ کسی کو رحم آئے میرے حق میں دعا فرمائے۔ جہاں پناہ سلامت اس عزیز کے حال پر مجھ کو رقت آئی ۔قسم کھائی کہ جب تک تیرا مطلب بر نہ لاؤں ، اپنے کام کو نہ جاؤں۔ پھر رخصت ہوا۔ پانچ برس تک گردش کھائی مراد بر نہ آئی۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 41
اتفاقاً ایک کوہ پر گزرا چاہا وہاں سے گروں اور فوراً مروں۔ ناگاہ وہی مرد خدا آگاہ نظر آیا۔ بزرگوں کے طریق پر ارشاد فرمایا اس جہت سے آب و دانہ ادھر لایا۔ الحمدللہ آپ کی حضوری میں دخل پایا۔ یقین ہے کہ حسب ارشاد فقیر برآمد کار ہو اور ہر ایک شکر گزار ہو۔
قصّہ درویش چہارم
چوتھا فقیر بولا کہ یہ کم ترین شہزادہ ء ملک چین ہے۔ میں خرد سال تھا باپ نے وقت رحلت اپنے بھائی کو سلطنت دی اور وصیت کی کہ میرا فرزند جس وقت حد بلوغ کو پہنچے اپنی بیٹی دیجیو اور ملک کا مالک کیجیو۔ چچا نے مجھ کو فرمایا حرم میں جائے باہر نکلنے نہ پائے۔ جو بیٹی میرے نامزد تھی میں اسے بہت چاہتا اور خوش رہتا۔ مبارک نام میرے باپ کا غلام تھا۔ کبھی کبھی میں اس کے پاس جاتا وہ حق نمک بجالاتا۔ چودہ برس کی عمر میں ایک کنیز نے مجھ کو گالی دی میں روتا ہوا مبارک کے نزدیک آیا۔ وہ مجھ کو چچا کے پاس لایا۔ عرض کی بھائی کی وصیت بجا لائے اس کو کدخدا فرمائے۔ چچا نے مجھ کو گود میں لیا منّجم کو طلب کیا۔ پوچھا ساعت سعید اس نور دیدہ کی شادی دامادی کے واسطے سو برس میں آئے گی۔ منّجم مزاج دان تھا۔ تقویم لی۔ عرض کی قبلہ ء عالم تین سو برس تک عطارد خانہء زحل میں نازل ہے اور نحوست شامل ہیں۔ اس کے بعد روز عید اور ساعت سعید ہے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ جب ایّام نیک آئیں گے شادیا نہ بجائیں گے۔ مبارک یہ سن کر خاموش رہا۔ بادشاہ نے کچھ اس کے کان میں کہا۔ آداب بجا لایا اور مکان پر آیا۔ میں نے پوچھا کیا حکم ہوا۔ کہااے برخوردار تجھ کو اس جفا کار کے پاس عبث لے گیا۔ بہار جوانی دیکھ کر ہر امیر کا دل باغ باغ ہوا مگر وہ ظالم بددماغ ہوا۔ آہستہ مجھ سے کہا اس مدعی سلطنت کو زہر دیجیواور دفع کیجیو۔ اب کیا کروں۔ نہ تیرا مار نا منظور نا عدول حکمی کا مقدور۔ یہ سن کر میں نے رو دیا اس نے گود میں لیا۔ پدر بزرگوار کے مقبرہ میں آیا۔ مجھ کو ساتھ لایا۔ زمین کھو دی ایک دروازہ نظر آیا۔ مجھ کو اندر بلایا۔ میں نے جانا اس نے فریب دیا اور میرا کام تمام کیا۔ میں خوفز دہ در آیا۔ مکان وسیع پایا۔ دیکھتا کیا ہوں ایک حوض ہے لبریز در اور دس خُمن اشرفیوں سے پر۔ ہر خُم پر ایک پتھر کا بندر نمودار مگر ایک خُم بے کار۔ میں نے کہا اے نیک نہاد اس سے کیا مراد ۔ کہا تیرا باپ عطر وغیرہ تحفہ ملک صادق جن کے واسطے لے جاتا اور وہاں سے زبرجد کا ایک بندر لاتا۔ میں پوچھتا آپ تحفہ جات لے جاتے ہیں ایک پتھر لاتے ہیں کیا فائدہ۔ کہاکسی سے نہ کہنا ہر بندر سردار ہے اور ہزار ہزار جن ایک ایک کا فرمانبردار ہے۔ مگر ملک صادق کا حکم ہے جب تک دس میمون فراہم نہ آئیں
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 42
اطاعت بجا نہ لائیں۔ تھوڑا عرصہ باقی تھا کہ باپ موا اور یہ راز فاش نہ ہوا۔ چاہتا ہوں تجھ کو ملک صادق کے نزدیک لے جاؤں اور میمون باقیماندہ لاؤ ں کہ جنوں کی مدد سے یہ ظالم سزا پائے اور ملک موروثی تیرے ہاتھ آئے۔ میں نے کہا تو بجائے والد بزرگوار ہے اور میرے کام کا مختار ہے۔ محل سرا میں پہنچایا اور خود تحفہ جات فراہم لایا۔ ایک روز بادشاہ سے عرض کی اگر حکم ہو اس کو صحرائے ہولناک میں لے جاؤ ں اور دفع کر آؤں۔ چچا نے پروانگی دی۔ مبارک نے وقت شب مجھ کو ساتھ لیا ایک مہینے میں راستہ طے کیا۔ جب لشکر جن کے قریب پہنچا آنکھوں میں سرمہ سلیمانی دیا۔ داخل لشکر ہوئے۔ دیکھا ہر ایک جوان خوش رو سم شگافتہ مثال آہو۔ ہم جدھرگزرتے عفریت خوش طبعی کرتے۔ چلتےچلتے بارگاہ بادشاہ میں در آیا، آداب بجا لایا۔ ملک صادق تاج مرصّع برسر چارقب مروارید در بر بہ تجمل تمام جلوس فرما اور ارکان دولت ہر ایک اپنے پائے پر درپے نشونما مبارک نے زمین کو بوسہ دیا التماس کیا اس کا باپ موا اور یہ یتیم ہوا۔ چچا نے اس کی وصیت نہ مانی بلکہ اس کے دفع میں صلاح جانی۔ وہاں آپ کو جانبر ہوتے نہ پایا۔ سر کو قدم بنا کر یہاں آیا۔ بخیال بندگی والد بزرگوار امیدوار ہے کہ بادشاہ؟؟ بارگاہ میمون دہم عنایت فرمائے تو ملک موروثی ہاتھ آئے۔ ملک صادق نے فرمایا برادر مرحوم نے میری خدمت بہت کی تو بھی میں نے اجازت نہ دی۔ اب اس کا فرزند عزیز آیا ہے ۔اس کے واسطے ایک کام تجویز فرمایا ہے۔ اگر درمیان خیانت نہ لائے گا زیادہ تر باپ سے منزلت پائے گا۔ اور اگر خلاف کرے گا بے موت مرے گا۔ مبارک نے کہا کیا مقدور ۔پھر ایک کاغذ مجھ کو دیا اور حکم کیا کہ اس تصویر کی صورت کی عورت میرے واسطے پیدا کر لاؤ۔ میں نے جو وہ تصویر پری پیکر ملاحظہ کی طاقت ہاتھ سے دی۔ قریب تھا کہ بے ہوش ہوں۔ بارے سنبھل کر رخصت ہوا۔ مبارک سے میں نے کہا ملک صادق نے یہ کام دیا مجھ کو ہلاک کیا۔ جنوں کے یہ مقدور ہیں اگر آسمان پر سراغ پائے اٹھا لائے۔ مبارک نے کہا ملک صادق کاذب نہیں البتہ کہیں ہوگی۔ تو نوجوان ہے یہ برائے امتحان ہے۔ پھر ہم دونوں نے دہ بدہ شہر بہ شہر سات برس تک گردش کھائی۔ کوئی اس تصویر کی نظیر نظر نہ آئی۔ اتفاقاً ایک شہر میں پہنچے۔ اس میں ہر ایک تسبیح خوان اور حافظ قرآن۔ وہاں ایک اندھانظر آیا محتاج پایا۔ میں نے ایک اشرفی نذر کی اس نے دعا دی۔ ہم سیر کرتے چلے۔ ایک عمارت تھی وسیع نہایت رفیع مگر جائے شکستہ
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 43
خراب و خستہ۔ میری زبان سے نکلا افسوس یہ عمارت عالیشان اور اس صورت سے ویران۔ چشم عبرت سے دیکھتا تھا۔ وہی نابینا عصا زنان آیا کسی کو بلایا اندر سے ایک آواز آئی خیر ہےجلد مراجعت فرمائی۔ کہا اے فرزند ایک فرزند سعادتمند نے مہربانی کی، اشرفی دی۔ بعد مدت طعام لذیذ لیا اور تیرے واسطے لباس خرید کیا۔ کریم کار ساز اپنا فضل فرمائے ۔اس کی مراد بر لائے۔ یہ بات سن کر مجھ کو ترس آیا اندھے کو بلایا۔ پھر ایک مشت درم دی اور خاطر کی۔ وہ دعا دیتا اندر گیا ایک نازنین ماہ جبین اندر کے دروازے سے نظر آئی۔ اصل تصویر کی پائی۔ میں نے دیکھ کر غش کیا۔ مبارک نے مجھے بغل میں لیا۔ دیر تک پوچھتا رہا میں نے کچھ نہ کہا۔ وہ نازنین پردے سے بولی کہ اےعزیز خدا سے ڈر۔ پرائی استری پر نظر نہ کر۔ میں اس دلآرام کی فصاحت کلام پر متعجب رہا۔ جواب میں کہا کہ میں مسافر ہوں بیچارہ وطن آوارہ۔ اگر تمہارا بزرگ ایکدم مجھ تک آئے یا مجھ کو اپنی خدمت میں بلائے مہربانی سے بعید نہ ہوگا۔ اس پیر مرد نے میری آواز پہچانی اندر طلب کیا۔ نازنین نے گوشہ لیا۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار میرا باپ فرما نروائے ملک چین ہے اور یہ خاکسار عشق کی بدولت آوارہ ء روئےزمین ہے۔ یہ تصویر عوض مبلغ خطیر ایک سوداگر سے لی۔ لباس تبدیل کرکے سیاحی اختیار کی۔ دہ بدہ شہر بشہر گردش کھائی۔ آج میری مراد بر آئی۔ وہ گنج حسن اس ویرانے میں نمودار ہے۔ آگے تو مختار ہے۔ اس نے کہا اے برخوردار وہ زیبا نگار ایک بلا میں گرفتار ہے۔ اس کا وصل خیلے دشوار ہے۔ پوچھا سبب کیا۔ کہا میں اس دیار میں عالی تبار ہوں اور شریف روزگار ہوں۔ خدا نے مجھ کو دختر کرامت فرمائی حسن میں بے نظیر پائی۔ جس نے سنا دیوانہ ہوا اس کا شہر ہ خانہ بخانہ ہوا۔ قضا را شاہزادے نےسن کر غائبانہ دل ہاتھ سے دیا۔ بادشاہ نے مجھ کو رضامند کیا۔ بادشاہ کی قرابت کے سبب سے میرا رتبہ زیادہ اور در دولت کشادہ ہوا۔ کمال تجمل سے شادی ہوئی اور ہر طرف سے مبارکباد ی ہوئی۔ شب زفاف کونوشہ نے چاہا بوس و کنار سے حظ اٹھائے۔ آواز نالہ و آشوب اور صدائے زدوکوب حجرے سے بلند ہوئی۔ ہر چند چاہا اندر جا یئں خبر لائیں۔ دخل نہ پایا۔ جب ہنگامہ فرو ہوا دیکھا نوشہ تیغ سم سے کشتہ ہے اور عروس خوفزدہ خاک و خون میں آغشتہ ہے۔ بادشاہ نے ماتم کیا اسے میرے گھر میں بھیج دیا۔ جو شہزادہ اس کے سبب سے قتل ہوا ارکان دولت نے التماس کیا دختر بداخترہے قصاص بہتر ہے۔ بادشاہ نے مشاورت فرمائی جمع کثیر میرے گرد آئی۔ خود بخود درودیوار مقف دینار سے اس قدر بارش سنگ وخشت ہوئی کہ ہر ایک نے گریز کی اور اپنی اپنی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 44
راہ لی۔ بادشاہ نے آواز ہولناک سنی کہ اے ظالم بد اختر دختر سے درگزر نہیں تو جو تیری بیٹی نے سزا پائی یقین کر کہ وہی آفت تجھ پر بھی آئی۔ بادشاہ نے خوف کھایا فرمایا اس سے ہاتھ اٹھاؤ ہرگز نہ ستاؤ۔ اس آفت سے حافظ قرآن ہر طرف تلاوت کرتے ہیں اور منتر جنتر پڑھتے ہیں۔ اے عزیز مجھ کو بھی اس واردات سے خوب خبر نہ تھی مگر ایک روز عاجزہ سے پوچھا تھا۔ کہا شب زفاف کو چھت شق ہوئی ایک شخص سردار تخت پر سوار اور ایک جماعت بصورت انسان خوشرو مگر سم شگافتہ مثال آہو نیچے آئی، یہ آفت لائی۔ جماعت نے شاہزادے کا قصد کیا اور سردار نے مجھے گود میں لیا۔ میں خوف سے بے ہوش اور از خود فراموش ہوئی۔ اے جوان اس دن سے میرا حال تباہ ہے اور روز سیاہ ہے۔ یاروں نے جدائی اور نوکروں نے بے وفائی کی۔ اسباب سب فروخت ہوا بلکہ سوخت ہوا۔ اب گدائی کر لاتا ہوں اوقات بسر لے جاتا ہوں۔ خوف سے کوئی میرا نام نہیں لیتا ہے بلکہ بھیک بھی نہیں دیتا ہے۔ بعد مدت آج تیری بدولت طعام لذیذکھایا اور پوشاک نفیس لایا۔ اگر آسیب کا صدمہ نہ ہوتا یہ عاجزہ تجھ کو دیتا۔ اب اس کا نام نہ لیجیو اور کسی سے یہ ذکر نہ کیجیو۔ میں ہر چند خوشامد سے پیش آیا جواب نہ پایا۔ وقت شام کاروان سرا میں آیا خوشی سے پیرہن میں نہ سمایا۔ مبارک نے کہا الحمدللہ بخت بیدار اور طالع یار ہوا۔ اور میں اپنے احوال پُر اختلال پر متفکر کہ خدا جانے یہ مرد اپنی بیٹی دے یا نہ دے۔ اور جو دے، مبارک ملک صادق کے واسطے نہ لے اور اگر مبارک کو برسر رحم لاؤں ملک صادق سے امان کیوں کر پاؤں اور اس شہر میں قیام خوف بادشاہ مدام۔ خدا جانے کیا سلوک فرمائے کیونکر پیش آئے۔ اس منصوبہ میں رات آخر کی اور صبح پوشاک اور غذا خوب لی۔ پیرمرد کو جا کر دی اور پھر عرض کی۔ اس نے کہا اےعزیز اپنی جان مفت نہ کھو۔ اس آرزو سے ہاتھ دھو۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار بہت گردش کھائی، تب دولت میسر آئی۔
اشعار
کہاں اب مجھے تاب دوری کی ہے
کہاں دل کو طاقت صبوری کی ہے
میرا سر ہے اور آستانہ ترا
خدا جلد لائے زمانہ ترا
غرض ایک مہینے تک خدمت کرتا رہا۔ ایک روز پیر مرد نے کہا اے جوان تو اس ہوس سے دستبردار نہیں ہوتا ہے اپنی جان مفت ہوتا ہے۔ خیر دختر سے ذکر لاتا ہوں دیکھو ں کیا جواب پاتا ہوں۔ میں نے جو یہ خوش خبری پائی تمام رات نیند نہ آئی۔ صبحدم سر کو قدم بنا کر آیا پیر مرد نے فرمایا اے عزیز تو نے میری خدمت بہت کی میں نے بیٹی تجھ کو دی۔ مگر جب تک جیتا ہوں وہ میری غمگسار ہے۔ آگے تو مختار ہے۔ قضائے کار چند روز کے بعد وہ پیرمرد موا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 45
میں تجہیز اور تکفین میں مشغول ہوا۔ مبارک دختر کو چادر اوڑھا کر کاروان سرا میں لایا اور تسلی دے کر منہ ہاتھ دھلایا۔ میں نے چاہا آج اپنی محبت آشکار کروں اور تعشق اظہار کروں۔ مبارک نے کہا ہے اےبیخبر برسوں کی محنت ضائع نہ کر۔ میں نے رو دیا اور کنارہ کیا۔ مبارک نے میری تسلی کے واسطے کان میں کہا اگر تو امانت ملک صادق کو پہنچائے گا۔ اغلب ہے کہ وہ مہربانی سے تجھ کو عنایت فرمائے گا۔ نہیں تو اس کے ہاتھوں سے جانبر نہ ہو گا۔ پھر دو شتر خرید کیے۔ کجاوےلیے۔ جب سوار ہو کر شہر سے چلے کئی جن آکر ملے۔ مبارک سے کہا کسی نے ملک صادق سے خبر پہنچائی کہ وہ نازنین ہاتھ آئی۔ فرمایا اسی وقت جاؤ۔ منزل بمنزل ساتھ آؤ۔ یہ سن کر وہ نازنین بے اختیار اور بے قرار ہوئی۔ ہر دم روتی اور کہتی اے ظالمو مجھ کو شہر سے کیوں باہر لائے کہ جنّات گرد آئے اور آدمزاد جنّات کو دیتے ہو کیوں لعنتی لیتے ہو۔ مبارک بلا فصل چلا جاتا اور مجھ سے اس کو چھپاتا۔ ایک روز مبارک کو خواب میں غافل پایا پھر عہد اس سے درمیان لایا کہ جب تک جان پابندِ قا لب ہے بندہ تیرا طالب ہے۔ کہا اگر چاہتا تھا شہر سے کیوں باہر آیا۔ میں نے کہا بادشاہ سے خوف کھایا۔ اس نے کہا پھر ناچاری اور مقام بے اختیاری ہے۔ مجھ کو بھی تیری محبت میں مرنا مگر تو فراموش نہ کرنا۔ یہ کہہ کر ہم دونوں روئے اور منہ لپیٹ کر سوئے۔ مبارک بیدار ہوا اور میرے قول سے خبردار ہوا۔ کہا اے پسر جلدی نہ کر میرے پاس ایک روغن ہے اس کے بدن پر ملو ں گا۔ اغلب ہے کہ ملک صادق کو اس سے نفرت آئے اور تجھ کو عطا فرمائے۔ بارے تسکین پائیں دل کو قوت آئی۔ ہنوز سپیدہ ءصبح نمودار نہ ہوا تھا کہ کئی جن مع خلعت فاخرہ ہمارے پاس آئے اور ایک ہودج زرنگار اس زیبا نگار کے واسطے لائے۔ مبارک نے جلد روغن ملا اور لے چلا۔ رفتہ رفتہ بارگاہ ملک صادق میں پہنچے۔ اس نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور امیدوار کیا۔ پھر حرم کی طرف قدم رنجہ فرمایا اور ناخوش ہو کر نکل آیا مبارک کو گالی دی اور تندی کی کہ اے گیدی خوب شرط بجالایا۔ مبارک نے اپنا ستر دکھایا کہ حضرت سلامت غلام نے جس وقت یہ مہم اپنے اوپر لی رجولیت کاٹ ازل ملک کے حوالے کی۔ تھوڑا مرہم سلیمانی لگایا زخم بھر آیا۔ وہ میری طرف مخاطب ہوا کہا اے نادان یہ خیال محال تیرے دل میں آیا کہ روغن لگایا۔ اس قدر رنجش فرمائی کہ مجھ کو تاب نہ آئی۔ میں نے دوڑ کر خنجر چلایا وہ تخت کے نیچے آیا۔ معلوم کیا کہ موا اور وہ لوٹ پوٹ کر صورت گردباد ہوا۔ ایک گھڑی کے بعد آکر میرے وہ لات جڑی کہ ہوش نہ رہا۔ جس وقت
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 46
مجھ کو ہوش آیا آپ کو جنگل میں پایا۔ نہ وہ مقام نہ وہ دل آرام ۔خون جگر کھایا۔ آہ سرد لبوں پر لایا۔ صحرا صحرا کوہ کوہ گردش کھائی۔ ملک صادق کے ملک کی راہ نہ پائی۔ ارادہ کیا کوہ سے گروں ۔اتفاقاً وہ عابد کہ جس نے ان بزرگوں کو اس دیار کی طرف روانہ کیا اس نے مجھ کو بھی حکم دیا۔ الحمدللہ ان بزرگوں کی دولتِ ملاقات پائی اور جہاں پنا ہ کی حضوری میسر آئی۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک کی مراد بر آئے اور فقیر کا فرمودہ ظہور پائے۔

بادشاہ کے تولد فرزند کی خبر پانے اور فقیر کے مطلب بر آنے کا احوال

یہ گفتگو در میان تھی کہ دولت سرائے بادشاہ سے آوازہ شادی و مبارکبادی بلند ہوا۔ خواجہ سرا خبر لایا کہ شہزادے نے گلشن وجود میں جلوہ فرمایا۔ بادشاہ نے کہا کہ اہل حرم میں سے کوئی سی قامت باردار نہ تھی یہ مژدہ عشرت اندوز ہو کہاں سے سامعہ افروز ہوا۔ عرض کی کہ فلانی سہیلی نورد عتاب سلطانی خوف جان سے حضور میں نہ آتی تھی ملکہ جہانیاں حاملہ جان کر خبرگیری فرماتی تھی۔ اس سے گل گلبن شہر یاری شگفتہ ہوا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر اسی دم شہزادے کو باہر نکالا اور درویشوں کے قدموں پر ڈالا اور کہاں اے فرماں روایان کشور دانائی تمہاری برکت سے میری مراد بر آئی۔ خدا تمہاری مراد بھی بر لائے اور شتاب کامیاب فرمائے۔ فقیروں نے شہزادے کو گود میں لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ شادیانہ شادی بلند ہوا اور عالم خرسند ہوا۔ بادشاہ نے ارکان دولت کو انعام اور منصب عالی دیا اور رعیت کو محصول سہ سالہ معاف کیا۔ دو گھڑی گزرنے نہیں پائی کہ اندر سے آواز نوحہ آئی. معلوم ہوا کہ جس وقت شاہزادے کو نہلا کر دایہ نے گود میں لیا ایک ابر تیرہ نے ظہور کیا۔ شاہزادہ غائب ہے اور حالت دا یہ عجائب ہے۔ ہر ایک حیرت میں آیا سر نیچے لایا۔ فقیر دست بد دعا ہوئے اور امیدوار فضلِ خدا ہوئے۔ دو روز کے بعد شاہزادہ خلعت فاخرہ پہن کر آیا اور گہوارہ مرصّع ساتھ لایا۔ نئے سر سے شادی تازہ ہوئی اور مبارکبادی بلند آوازہ ہوئی۔ اسی طرح شاہزادہ ہر مہینے جاتا اور تیسرے روز مع تخفہ جات آتا۔ ہر ایک حیرت زدہء روزگار کہ الٰہی یہ کیا اسرار۔ القصّہ بادشاہ نے ایک عمارت دلکشا متصل محل سرا فقیروں کو دی۔ چاروں نے ایک جا سکونت کی۔ بادشاہ جب امور ملکی سے فراغت پاتا ہر روز ایک بار ان کے پاس جاتا۔ ساتویں برس درویشوں کی صلاح سے بعد آرزوئے ملاقات اور شکرگزاری احسانات نامہ قلمبند کیا اور شہزادے کی بغل میں رکھ دیا۔ شہزادہ غائب ہوا۔ بادشاہ فقراء کی خدمت میں حاضر اور جواب خط کا منتظر تھا۔ ناگاہ ایک کاغذ ہوا سے نیچے آیا مطالعہ فرمایا۔ لکھا تھا اے آزاد بخت شہزادہ بختیار کی خاطر کی اور تحت لانے کی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 47
اجازت دی۔ چند نفر رہبر آتے ہیں تم کو لاتے ہیں۔ آزادبخت شکرگزار ہوا اور مع فقرا تیار ہوا۔ اسی وقت چار پانچ شخص آئے۔ آزاد بخت کا تخت فلک پر اڑایا اور باغ ارم میں پہنچایا۔ سرمہ سلیمانی سب کی آنکھوں میں لگایا۔ عجب تماشا دکھایا۔ گلزار تھا بہشت نشان، عمارت عالیشان۔ دو شاخوں ، پنج شاخوں کی روشنی اس قدر کہ رات دن سے بہتر۔ ملک شہپال نائب سلیمان بالائی تحت مرصّع مجلس آرا اور خیل خیل پریزادوں سے قدرتِ خدا آشکارا۔ ایک نازنین دختر ہفت سالہ روبرومشغول بازی اور شہزادہ بختیار پریزادوں سے مصروف دمسازی۔ آزاد بخت نے سلام کیا ملک شہپال نے آغوش میں لیا ۔تعظیم دی تکریم کی ہم نوا اور ہم پیالہ ہوئے۔ تمام رات ناچ رنگ رہا اور طبلہ اور مرد نگ۔ دوسرے روز احوال پوچھا۔ آزاد بخت نے سرگزشت ہربزرگوار اور ان کی برکت سے پیدائش شہزادہ بختیار سب شرح دی اور عرض کی سات برس فضل کریم کارساز پر نظر رکھ کر بسر لائے اور اب حضور مو فورالسرور میں آئے۔ پری زادوں کا شاہنشاہ توجہ فرمائے کہ غریبوں کی مراد بر آئے۔ ملک شہپال نے افسوس کیا بلکہ خون جگر پیا۔ بادشاہان جنات بحروبر کو نامہ لکھا کہ بمجرد درود فرمان ہر ایک آپ کوبارگاہ فلک جا ہ نائب سلیمان میں پہنچائے اور آدمی زاد جس کے پاس ہو ،ساتھ لائے۔ عفریتوں نے نامے لیے ہر ایک کو جا کر دیے۔ ملک شہپال نے اپنی داستان آغاز کی کہ میں بھی فرزند کا آرزو مند تھا۔ جب حمل قرار پایا یہ میری زبان پر آیا کہ دختریا پسر جو خالق جن و بشر کرامت فرمائے، اس کی شادی آدم زاد کے ساتھ کی جائے۔ جو دختر ہوئی ،اسی وقت عفریت عالم کے گرد آئے ۔شہزادہ بختیار کو لائے۔ پریزادوں نے گود میں لیا، شیر دیا۔ ہر مہینے اسے یاد فرماتا ہوں اور تیسرے روز تمہارے پاس پہنچاتا ہوں۔ بیٹا تمہارا ہے اور داماد ہمارا ہے۔ آزاد بخت شکر گزار اور منت دار ہوا۔ ایک ہفتے کے بعد شاہ جن و پری اطاعت بجا لائے سب حضور میں آئے۔ ملک شہپال نے ہر ایک کو خلعت فاخرہ دیا اور مجلس کو آراستہ کیا۔ ملک صادق سے نازنین شاہزادہء چین طلب فرمائی۔ اس نے چھپائی۔ ملک شہپال نے سمجھایا وہ ناچار اسے لایا۔ اس کے بعد بادشاہ ولایت دریائے عمان سے ،شاہزادہ نیمروز اور وہ خوابیدہ اور وہ عفریت جو بیل ہو گیا تھا ، طلب کیا۔ اس نے بھی حاضر کر دیا۔ پھر دختر شاہ فرنگ اور بہزاد کی جست و جو درمیان آئی۔ ہر ایک نے قسم کھائی۔ مگر بادشاہ قلزم نے سر نہ اٹھایا۔ ملک شہپال نے مبالغہ فرمایا۔ اس نے عرض کی جس روز اس کا باپ استقبال کو آیا اور عالم ہجو م لایا میں سیر دریا کرتا تھا۔ شہزادی نظر آئی میں نے تیغِ عشق کھائی۔ اس کو گرداب نے لیا میں نے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 48
ڈوبنے نہ دیا۔ بہزاد خان کمک کو پہنچا۔ میں نے اسے بھی کھینچا کہ صاحب درد اور جوان مرد تھا۔ دونوں موجود اور خوشنود ہیں۔ ملک شہپال نے کہا یہ جو ان کا محق ہے ۔وہ نازنین اس کو دے حیلہ نہ لے۔ نائب سلیمان کی خاطر کی لا دی۔ جب کہ تذکرہء دختر بادشاہ شام آیا سراغ نہ پایا۔ فرمایا اب تو اولاد جن سے کوئی باقی نہیں۔ کہا مسلسل جادو کہ نہایت صاحب شکوہ ہے اور اس کا قلعہ بالا ئے کوہ ہے۔ فرمایا جلد لاؤ۔ اسی وقت عفریتان قوی باز ہو آئے۔ بالائے قلعہ مسلسل جادو جا کراس کو باندھ لائے۔ دختر شاہ شام کا ذکر کیا اس نے جواب نہ دیا ۔حسب اشارہ وہ دوپارہ ہوا۔ دختر شاہ شام کو ایک کنوئیں میں بند پایا ۔ کوئی نکال لایا۔ فقیر شاد شاد ہوئے اور قیدِ غم سے آزاد ہوئے۔ ملک شہپال نے نئے سرسے مجلس شادی آراستہ کی اور پری نوش اپنی بیٹی شہزادہ بختیار کو بیا ہ دی اور دختر شاہ شام ،خواجہ زادہء یمنی کے عقد نکاح میں آئی اور دختر شاہ فرنگ شہزادہ ءعجمی نے پائی۔ ملکہ ء بصرہ شاہ زادہ ءفارس سے ہم پیالہ ہوئی اور معشوقہء ملک صادق شہزادہ ء چین کے حوالہ ہوئی۔ اس کے عوض شاہزادہء چین کی بیٹی منگائی ملک صادق کو عنایت فرمائی۔ شہزادہء نیمروز کو اس کی معشوقہ دل افروز دی اور بادشاہ نیمروز کی بیٹی بہزاد خان کو مرحمت کی۔ چالیس رات دن ہنگامہ شادی گرم رہا۔ اس کے بعد آزاد بخت نے رخصت کے واسطے کہا۔ حکم ہوا کہ جنات اور پریاں ہر ایک کو لے جائیں بحفاظت تمام پہنچائیں۔ بس طرفتہ العین میں ہر ایک اپنے مقام پر آیا شکر الہی بجا لایا۔ خواجہ زادہء یمنی اور بہزاد خان نے شہزادہ ءبختیار کی رفاقت ہاتھ سے نہ دی۔ گلستانِ ارم کی ہوا پسند کی ۔تا زندگی درمیان جن و انس رسم مکاتبات اور ترسیل تحفہ جات رہی۔
خاتمہ الطبتع
بتوفیق توفیق بخشے چار عنصر فسانہ رنگین اثر دلچسپ و پسندیدہ طبع قصہ چار درویش موسوم بہ نوطرز مرصّع طبع آفاق مرجع عالی ہمت صاحب شوکت و زور منشی نول کشور صاحب بمقام کانپور ماہ فروری 1874 ع بزیبائش طبع مقبول خاص و عام ہوا۔
 
آخری تدوین:
Top