نوکری کی خاطر قربانی

جاسم محمد

محفلین
نوکری کی خاطر قربانی
30/11/2019 عمار مسعود



میں ایک دو نہیں ایسے بے شمار صحافیوں کو جانتا ہوں کہ جو سچ کہنے کے جرم میں گذشتہ چند سالوں میں بے روزگار ہوئے۔ انہیں نوکریوں سے بہیمانہ طریقوں سے نکال دیا گیا۔ ان کے لئے اخبارات اور چینلز کے دروازے بند کر دیے گئے۔ مگر یہ اپنی حق گوئی کی سرشت سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روش باقی رکھی۔ یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے۔ ایسے بھی ہیں جن کے گھر میں بوڑھے والدین علاج اور دوائی کو ترستے ہیں مگر یہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔

ان پر روزگار کے سب دروازے بند کردیئے گئے۔ ان کے سابقہ واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے حالات کے پیش نظر اپنی گاڑی بیچ دی اور موٹرسائیکل پر اگئے۔ اور اب جب ان کے موٹرسائیکل میں پٹرول ختم ہو جاتا ہے تو وہ موٹر سائیکل کو سڑک پر لٹا کر پٹرول کا آخری قطرہ تک کشید کر لیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو مالک مکان سے آئے روز کرایہ نہ دینے کے تازیانے سہتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی کریانے کی دکان کا سوچ رہا ہے، کوئی برگر شاپ بنانے کا آئیڈیا لے کر پھر رہا ہے۔ کوئی ٹیوشن سنٹر میں پڑھا رہا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود یہ اپنے صحافتی اصولوں پر قائم ہیں۔

یہ وہ صحافی ہیں جو وٹس ایپ کی خبروں سے اجتناب کر تے ہیں۔ یہ وہ صحافی ہیں جو اپنے ”سورس“ کا نام کبھی نہیں لیتے۔ اس نام کی بڑھک کبھی نہیں مارتے۔ جو بغیر تحقیق کے خبر نہیں چلاتے۔ جو کم از کم دو ذرائع سے تصویق کیے بغیر خبر نہیں دیتے۔ جو خواہشات کو خبر نہیں بناتے۔ جو جذبات کو خبر کی راہ میں نہیں آنے دیتے۔ جو صحافتی اصولوں پر ہر قسم کے حالات میں قائم رہتے ہیں۔ ایسے بہت سے بے روزگار ہیں جو حال ہی میں بے روزگار ہوئے ہیں وہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی تعلق سے روزگار کی کوئی سبیل ہو، کوئی حلال ذریعہ آمدن ہو، کچھ کمائی ہو۔

لیکن جس ادارے میں جاتے ہیں وہاں ان کے اصول اور ان کا اصول پرست ماضی آڑے آ جاتا ہے۔ ان کے نام پر سرخ رنگ کا کراس لگ جاتا ہے۔ ہر دروازے کے بند ہونے کے باوجود یہ اس قبیل میں شامل ہونا پسند نہیں کرتے جو نسل آج کل ٹی وی سکرینوں پر عام ہو گئی ہے۔ یہ پراپگینڈا نہیں کرنا چاہتے۔ یہ کسی کے ایجنڈے پر نہیں چلنا چاہتے۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ یہ خبر دینا چاہتے ہیں اور سچی، درست اور باوثوق خبر دینا چاہتے ہیں۔

یہی خواہش اور جذبہ ان کی نوکریوں کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ لیکن تمام تر نامساعد حالات کے باوجود یہ اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں۔ نوکری کی خاطر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ جھوٹ نہیں بولتے، خواہ مخواہ بہتان نہیں لگاتے۔ الزام نہیں لگاتے۔ خبر تخلیق نہیں کرتے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تخیل کی پرواز کی مدد سے فسانے نہیں تراشتے۔ یہ صحافی ہیں۔ سچی خبر کے متلاشی رہتے ہیں اور اس تلاش میں نوکری کی پرواہ نہیں کرتے۔

ان میں سے زیادہ تر صحافی وہ ہیں جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جو جمہوری اداروں کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جو ہر وقت سول سپریمسی کی جنگ لڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ جو عوام کے حقوق کے دفاع کی بات کرتے ہیں۔ جو آمریت کے خلاف ہیں۔ ظلم، جبر اور استبداد کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں۔ جو آزادی اظہار کے حق پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ جو رائٹ ٹو انفارمیشن کی خاطر جان پر کھیل جاتے ہیں۔ جو پارلیمنٹ کو مقدس جانتے ہیں۔

جو سیاسی جماعتوں سے بھی جمہوریت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جو اسمبلی کی تکریم کرتے ہیں۔ جو قانون سازی کی بات کرتے ہیں۔ جو کسی بھی غیر جمہوری قدم کو غداری تصور کرتے ہیں۔ یہ وہی صحافی ہیں جو مارشل لاؤں میں کوڑے کھاتے ہیں۔ جبر کے دور میں ”غائب“ کر دیے جاتے ہیں۔ جن کو نامانوس نمبروں سے دھمیکیاں ملتی ہیں۔ کوئی کسی خبر کے چکر میں حد سے بڑھ جائے تو اس کی ”ٹھکائی“ بھی کی جاتی ہے۔

یہ وہی ہیں جن کی نجی زندگی کی فائلیں اور وڈیوز بڑی محنت سے تیار کی جاتی ہیں۔ جن کے اہل خانہ ہر وقت خطرے میں رہتے ہیں۔ جن کے گھر والے گھر سے نکلتے ہوئے ان پر آیت الکرسی کا ورد کرتے ہیں۔ ان کی گھر واپسی تک ان کی سلامتی کے دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ وہی صحافی ہیں جن کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ ان کی شبینہ داستانوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ان کو لفافہ کہا جاتا ہے۔ وطن دشمن کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ رشوت خوری کا الزام بھی انہی پر لگتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود یہ اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں۔ نوکری پر رہنے کے لئے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اسی لئے بے روزگار ہو جاتے ہیں۔

نہ ان کے بینک میں اربوں کی رقم ہوتی ہے نہ سیف ڈپازٹ میں سونے کی اینٹیں ہوتی ہیں نہ ان کے پاس چار چار کنال کے بنگلے ہوتے ہیں نہ ان کی کوئی آف شور کمپنی ہوتی ہے نہ مرسڈیز اور پجیرو جیسی گاڑیاں ان کی دسترس میں ہوتی ہیں نہ ان کے بچے امریکن سکول میں پڑھتے ہیں۔ نہ ان کے گھر میں ملازموں کی فوج ہوتی ہے۔ نہ ایک چینل سے دوسرے چینل پر جانے پر ان کی کے بارے میں کوئی خبر بنتی ہے۔ نہ ان کے کے پروگرامز کی ”بل بورڈز“ پر تشہیر ہوتی ہے۔

نہ ان کے چینلوں کے مارننگ شوز پر انٹرویو ہوتے ہیں نہ سفارت خانوں کی تقاریب میں ان کی شمولیت پر ان کی تصویریں اخبارات کے رنگین صفحات پر چھپتی ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی پروٹوکول ہوتا ہے نہ ان کے ارد گرد مسلح محافظوں کو جھمگھٹا ہوتا ہے۔ نہ وزیر مشیر ان کے دوست ہوتے ہیں نہ کوئی سینٹر یا سیکرٹری ان کی سفارش کرتا ہے نہ کوئی جرنیل ان کا حامی ہوتا ہے۔ لیکن انہیں اس سب کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی یہ اپنی بات پر ڈٹے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری اور مفلسی میں بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہی ان کا جرم ہوتا ہے جس کی پاداش میں ان کو تمام عمر سزا ملتی رہتی ہے۔ طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خطرات کو جھیلنا پڑتا ہے۔

گذشتہ چند دنوں میں جو کچھ سپریم کورٹ میں ہوا وہ سب کے سامنے ہیں۔ کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ کوئی راز پوشیدہ نہیں رہا۔ اس سارے عمل کا ملکی سیاست پر کیا اثر ہوا۔ جمہوریت کہاں پر کھڑی ہے۔ یہ قصہ پھر سہی۔ لیکن سپریم کورٹ کی اس ساری کارروائی کے دوران مجھے یقین ہے کہ ان شوریدہ سر، بے باک اور حق گو صحافیوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہو گا کہ نوکری کتنی اہم چیز ہے۔ اس کے لئے اصول تو کیا آئین تک قربان کیا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں ایک دو نہیں ایسے بے شمار صحافیوں کو جانتا ہوں کہ جو سچ کہنے کے جرم میں گذشتہ چند سالوں میں بے روزگار ہوئے۔
ایسے تو بہت سے صحافی ہیں جو اپوزیشن جماعتوں سے پیسے لے کر ان کے حق میں بولا کرتے تھے۔ مگر اب سرکاری اشتہارات بند ہونے پر نوکریوں سے فارغ کئے جا چکے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ یہ خبر دینا چاہتے ہیں اور سچی، درست اور باوثوق خبر دینا چاہتے ہیں۔
جتنی سچی، درست اور باوثوق خبریں اب تک ان بے روزگار صحافیوں نے قوم کو لا کر دی ہیں وہ سب کی سب باؤنس ہو چکی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان میں سے زیادہ تر صحافی وہ ہیں جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جو جمہوری اداروں کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جو ہر وقت سول سپریمسی کی جنگ لڑنے کو تیار رہتے ہیں۔
یہ بے روزگار واقعی صحافی تھے یا سیاسی جماعتوں کے کارکنان؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وہی صحافی ہیں جو مارشل لاؤں میں کوڑے کھاتے ہیں۔ جبر کے دور میں ”غائب“ کر دیے جاتے ہیں۔ جن کو نامانوس نمبروں سے دھمیکیاں ملتی ہیں۔ کوئی کسی خبر کے چکر میں حد سے بڑھ جائے تو اس کی ”ٹھکائی“ بھی کی جاتی ہے۔
جی ہاں یہ وہی صحافی ہیں جو جمہوری دور میں ۵۰ ارب روپے کے سرکاری اشتہارات پر پلتے ہیں۔ اور حکومت کے ہر غلط فعل کا ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہیں۔ کاش ایسے نمک حلال نظریاتی صحافی تحریک انصاف حکومت کے پاس بھی ہوتے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوکری پر رہنے کے لئے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اسی لئے بے روزگار ہو جاتے ہیں۔
صحافی کبھی بے روزگار نہیں ہوتے۔ وہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے نکال دئے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر آجاتے ہیں۔ اور یوں اپوزیشن جماعتوں سے لفافے لے کر قوم کو گمراہ کرنے کا کام جاری رکھتے ہیں۔
 

آورکزئی

محفلین
اجکل کے سچے ایماندار اور صادق و آمین صحافی انور لودھی ، ارشاد بھٹی ۔۔۔ باقی دو عدد جاسم اپ ایڈ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top