نواز لیگ کے قوم پرستوں سے رابطہ

مسلم لیگ نون نے سندھ میں حمایت کے لیے قوم پرستوں سے رابطے کیے ہیں اور ان سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جاری تحریک کی حمایت اور مدد کے لیے کہا ہے ۔ان میں زیادہ تر وہ سیاستدان ہیں جو روایتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف رہے ہیں۔
20090304123426jeay_sindh_flags.jpg

مسلم لیگ نون کے رہنما میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی نااہلی کے خلاف کراچی میں تو کچھ احتجاج نظر آیا مگر اندرون سندھ کوئی موثر احتجاج نہیں ہوسکا، جس کی وجہ تجزیہ نگار مسلم لیگ نون کی سندھ کے اندر تنظیمی طور پر غیر موجودگی بتاتے ہیں۔

مسلم لیگ نون کے رہنما سردار رحیم اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت سندھ میں بھی مقبول ہے، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نو سال تک اسے دیوار اسے لگایا گیا اور اسے کچلنے کی کوشش کی گئی، تنظیم کو توڑنے کی کوشش ہوئی، جو سرکردہ لوگ تھے ان کی خرید فروخت کا بازار لگایا گیا اس صورتحال کے باوجود اس کی حیثیت اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ برقرار رہا، اس نے ایک زندہ جماعت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مسلم لیگ نون نے سندھ کے قوم پرست رہنماوں ممتاز بھٹو، رسول بخش پلیجو اور جیے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ سے رابطے کیے ہیں جنہوں نے انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ تمام جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف موقف رکھتی ہیں۔

ممتاز بھٹو جنہیں گزشتہ دنوں گرفتار بھی کیا گیا تھا مسلم لیگ نون سے مستقل رابطے جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بنیادی اصول اور نکات ہیں اس پر ہم آہنگی ہے، آگے چل کر مزید ملاقاتیں ہوسکتی ہیں، جن میں تفصیل سے لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

ان کے مطابق دونوں جماعتوں میں اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ موجودہ صورتحال قابل برداشت نہیں ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو سنجیدہ مخلص اور اصول پسند نظریاتی اور سیاسی جماعتیں ہیں انہیں اکٹھا ہونا چاہیے۔

کالا باغ ڈیم اور تھل کینال کی تعمیر، قومی مالیاتی ایوارڈ، صوبائی خود مختاری جیسے معاملات پر سندھ میں پنجاب مخالف جذبات رہے ہیں۔ یہ ہی نکات پی پی پی اور قوم پرستوں کے درمیاں قربت کا سبب رہے اور مشرف دور حکومت میں ان پر مشترکہ جدوجہد کی گئی مگر پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ان کی راہیں جدا ہوگئیں ۔

عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کالاباغ ڈیم کے معاملے پر نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے جب دیکھا کہ سارا سندھ اس منصوبے کے خلاف ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک سندھ متفق نہیں ہوتا اس ڈیم کو نہیں بنایا جائےگا جس پر وہ قائم رہے۔ وہ کہتے ہیں’سندھ وڈیروں کی نہیں ہے عوام کی ملکیت ہے، سندھ میں بہت شعور ہے سندھی کئی سال پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں وہ نواز شریف کا سندھ میں خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہاں اپنی سیاست جاری رکھیں‘۔

ان کے مطابق وہ اگر وفاقی سطح پر پرامن جمہوری سیاست کرتے ہیں تو یہ گناہ ہوگیا اور کہتے ہیں کہ ہم وفاقی جماعت ہیں تو کیا عوام کو وفاقی سیاست کرنے کا حق نہیں ہے؟

سندھ کی دیگر دو قوم پرست جماعتوں جیے سندھ قومی محاذ اور جیے سندھ ترقی پسند پارٹی نے مسلم لیگ نون کی حمایت یا مدد سے انکار کیا ہے، ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا ہے کہ نواز شریف اے پی ڈی ایم کے فیصلے پر بھی عمل پیرا نہیں ہوئے تھے وہ کسی کواقتدار تک پہنچانے کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے۔

ماضی میں مسلم لیگ نون کو سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں سے ہی قیادت ملی ہے، عوامی تحریک کے مرحوم رہنما فاضل راہو کے بیٹے اسماعیل راہو اور حمیدہ کھوڑو یا پھر قوم پرست رہنما عبدالحمید جتوئی کے بیٹے لیاقت جتوئی قوم پرست جماعتوں سے ہی مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہوئے۔

شریف برادران کو نااہل قرار دینے کے فیصلے پر ابھی پنجاب میں احتجاج جاری تھا اور ان کے لیے ہمدری میں اضافہ ہو رہا تھا کہ بینظیر بھٹو کی تصاویر نذر آتش ہونے کے واقعات رونما ہوئے اور دوسرے روز مسلم لیگ نون کی قیادت نے اس کو صوبائی معاملہ بناکر صوبائیت کی لکیریں کھینچ ڈالیں اور یہ تقاریر سننے میں آئیں کہ نااہلی کا فیصلہ پنجاب کے منہ پر چانٹا ہے۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جی این مغل کا کہنا ہے کہ ان نعروں اور تقاریر سے مسلم لیگ نون کو پنجاب میں فائدہ پہنچا مگر دیگر صوبوں میں اس کے برعکس اثر ہوا ہے۔ ان باتوں نے سندھ کی عوام کی سیاسی نفسیات پر اثر ڈالا۔

تجزیہ نگار جی این مغل کہتے ہیں :’اس کے بعد مسلم لیگ نون نے سندھ کی قوم پرست قوتوں سے رابطہ کیا اس سے مثبت اثر یہ ہوگا کہ جو سندھ اور پنجاب میں خلیج بڑھ رہی تھی وہ رک جائے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں ان قوم پرست گروپس کو اتنی پذیرائی حاصل نہیں ہے جس وجہ سے مسلم لیگ نون کو ایک علامتی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ سندھ کے عوام کی سیاسی حمایت پیپلز پارٹی کو حاصل رہی ہے۔‘

میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد کراچی کے دورے تو کیے مگر اندرون سندھ کے کسی اور شہر کا دورہ نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے انہوں نے صوبائی قیادت کے مشورے پر تین مارچ سے سندھ کے دورے کا اعلان کیا مگر بعد میں اس سےے موخر کردیا۔ قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو اس کو نواز شریف کی غلطی قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں سندھ کا دورہ کرنا چاہیے تھا۔

اس عرصے میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی اندرون سندھ اور ایم کیو ایم کراچی میں اجتماع کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرچکی ہیں۔ مسلم لیگ نون نے جمعہ کو سندھ میں ہڑتال کا بھی اعلان کر رکھا ہے جس کے لیے بھی اس کی نظریں قوم پرستوں پر ہیں ۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
 
Top