نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت ملنے کے بعد پاکستان میں صدارتی نظام کی بازگشت

جاسم محمد

محفلین
بس، یہی انڈرسٹینڈنگ ہی تو ہے جس کا چرچا ہے۔
یہ رہی انڈر اسٹینڈنگ :)

جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے لوگ وزیر بن گئے، کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اللہ نے مجھے مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا ہوا ہے، جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے یہ لوگ وزیر بن گئے ، شہباز شریف منڈیلا کی شکل بناکر کھڑے ہوگئے، کسی ایک کو بھی معاف نہيں کروں گا ، چاہے سارے اکٹھے ہوجائيں۔

وزيارعظم عمران خان نے ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ مجھے کہا جاتاہے کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں گا ، جو 800 سے زائد قیدی پچھلے دور میں جیلوں میں مرگئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟

ان کہنا تھا کہ کھیل ہو یا کوئی اور میدان جیت ہمیشہ جنون کی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا سی پیک صرف ایک سڑک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا منصوبہ ہے، ہم نے موٹر ویز تو بنانی ہیں لیکن پیسہ عوام پر خرچ کرنا ہے۔

جے یو آئی ف کے دھرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک سرکس ہوئی، دھرنے سے ہماری کابینہ کے کچھ لوگ گھبرا گئے تھے کیونکہ وہ کمزور دل رکھتے ہیں لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ تسلی رکھیں کچھ نہیں ہو گا۔

پہلے کہا تھا یہ لوگ ایک ماہ یہاں گزار لیں ان کی ساری باتیں مان لوں گا: وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ جو جتنا بڑا کرپٹ تھا وہ کنٹینر پر اتنا ہی زیادہ شور مچا رہا تھا لیکن انہیں شاید پتہ نہیں کہ پاکستان میں دھرنے کا ماہر میں ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ شروع میں کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ ایک مہینہ یہاں گزار لیں تو میں ان کی ساری باتیں مان جاؤں گا، پارٹی کے لوگوں کو بتایا کہ کنٹینر اور دھرنا کیا ہوتا ہے، جب آپ 126 دن گزارتے ہیں تو کوئی نظریہ اور مقصد ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جس طرح مدرسے کے بچوں کو لایا گیا مجھے اس کا بہت افسوس ہے کیونکہ وہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں، دھرنے میں شریک بچوں میں کسی نے کہا کہ عمران خان اسرائیل کا جھنڈا گاڑھنے کے لیے آیا ہے اس لیے ہم دھرنے میں آئے ہیں اور کوئی کہہ رہا تھا کہ پاکستان پر قادیانیوں کا قبضہ ہونے والا ہے، سب سے زیادہ تکلیف اس پر ہوئی کہ بچے بیچارے سرد موسم میں بیٹھے رہے اور فضل الرحمان کنٹینر میں بیٹھا رہا۔

مجھے فضل الرحمان کی آخرت کی فکر ہے: عمران خان
مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا ایک آدمی اسلام کے نام پر سیاست کر رہا ہے، ڈیزل کے پرمٹ پر بکنے والا، کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر بکنے والا حکومت گرانے کی باتیں کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے فضل الرحمان کی آخرت کی فکر ہے، دعا مانگتا ہوں کہ اللہ تعالی انہیں وہ سزائیں نہ دے جو انہیں ملنی ہیں۔

شہباز شریف نیلسن منڈیلا بننا چاہتے ہیں: عمران خان
مسلم لیگ ن کے صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک مجرم جسے عدالت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی، ہمیں عدالتی فیصلہ قبول ہے لیکن شہباز شریف جو نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش کرتا ہے اس نے اس معاملے پر سیاست کی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کابینہ کے زیادہ تر اراکین نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں باہر جانے کی اجازت دی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے شریف خاندان سے صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا مانگا تھا، شریف خاندان نے اتنا پیسہ بنایا ہوا ہے کہ 7 ارب روپے تو یہ ٹپ میں دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا شہباز شریف کہتے ہیں کہ میں گارنٹی دوں گا، شہباز شریف کا بیٹا بھاگا ہوا ہے، ان کا داماد بھاگا ہوا ہے، ان کی گارنٹی کون دے گا، نواز شریف کے دونوں بیٹے اور سمدھی بھاگے ہوئے ہیں ان کی گارنٹی کون دے گا، اور سب سے بڑی بات کہ خود شہباز شریف کی گارنٹی کون دے گا۔

بلاول بھٹو پر تنقید

وزیراعظم نے چیئرمین پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بلاول بھی وہاں موجود تھا جو خود کو لبرل کہتا ہے، وہ لبرل نہیں بلکہ لبرلی کرپٹ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ بلاول بھٹو کی تھیوری سے تو آئن اسٹائن بھی گھبرا گیا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے، آئن اسٹائن کی روح اس سے بھی زیادہ اس وقت تڑپ اٹھی ہو گی جب بلاول نے کہا کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے زیادہ پانی آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار ملتے وقت پہلے ہی روز کہا تھا کہ یہ سب کرپٹ مفادات کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے اور ان لوگوں نے کنٹینر پر چڑھ کر ثابت کیا کہ ان کے اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔

مشرف نے اپنے اقتدار کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو این آر او دیئے: وزیراعظم پاکستان
وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر میں 100 سے زائد روز سے کرفیو لگا ہوا ہے لیکن میڈیا اس پر لگا رہا کہ مولانا آ رہا ہے مولانا جا رہا ہے، سب کی ایک ہی کوشش تھی کہ دباؤ ڈال کر کسی نہ کسی طرح عمران خان کو بلیک میل کر لیا جائے۔

انہوں نے کہا اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں سے کسی کو بھی عمران خان کی جگہ وزیراعظم بنا دیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ عمران خان کی کوئی قیمت نہیں ہے، عمران خان کسی صورت بکنے والا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا جنرل مشرف نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو این آر او دیئے، این آر او کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کرپشن کے کیسز معاف کر دیئے جائیں، میں بھی جنرل مشرف کی طرح انہیں این آر او دیکر آرام سے 4 سال حکومت کر سکتا تھا لیکن مجھے خوف خدا ہے، مجھے آخرت کی فکر ہے، مجھے ووٹ کی فکر نہیں ہے۔

مافیا کیلئے پیغام ہے کہ سی ایک آدمی کو بھی نہیں چھوڑوں گا: عمران خان
عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سب مافیا کے لیے پیغام ہے کہ مجھے اللہ نے مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہے، میں مافیا اسپیشلسٹ ہوں، 20 سال کھیلوں کے میدان میں میری تربیت ہوئی ہے، مجھے ہارنا بھی آتا ہے، جیتنا بھی آتا ہے اور ہار کر جیتنا بھی آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے یہ لوگ وزیر بن گئے لیکن میں 22 سال نیچے سے محنت کر کے آیا ہوں، جو بھی کرنا ہے کر لو، میرا وعدہ ہے کہ جس نے اس ملک کا پیسہ کھایا ہے کسی ایک آدمی کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔

چیف جسٹس انصاف دیکر ملک کو آزاد کریں: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور مستقبل کے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کی کہ انصاف دے کر ملک کو آزا د کریں، عدالت کے بارے میں تاثر درست کریں کیونکہ یہاں طاقتور فون کرکے فیصلے کرواتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سے جو مدد چاہیے حکومت تیار ہے لیکن اس ملک میں عدلیہ نے عوام کا ااعتماد بحال کرنا ہے کہ یہاں سب کے لیے ایک قانون ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سیاسی حقیقتیں بدلتی گئیں تو ہمارا بیانیہ بھی بدلتا جائے گا۔
18 نومبر ، 2019
270_092233_reporter.jpg
مظہر عباس
’مولانا کو بتایا گیا کہ عمران کے اسٹیبلشمنٹ سے بہترین تعلقات ہیں‘
208474_5991761_updates.jpg

ان کی 13 نومبر کو خارجی حکمت عملی ویسی ہی پراسرار رہی: فائل فوٹو

کراچی: مولانا فضل الرحمان کا ساتھ اصل میں ہاتھ کس نے کیا ہے؟ اکتوبر 27 کو انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ لینے اور ملک میں تازہ انتخابات کے اعلان کیلئے اسلام آباد کی تنہا پرواز لی۔

دو ہفتوں میں انہیں احساس ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیاہے جیسا کہ نا تو انہیں ان کے حزب اختلاف کے اتحادی بھرپور قوت کے ساتھ ملے اور نا ہی حکومت بے چین نظر آئی۔
ان کی 13 نومبر کو خارجی حکمت عملی ویسی ہی پراسرار رہی جیسے وفاقی دارالحکومت میں ان کا داخلہ جیسا کہ ان کی جماعت جے یو آئی ف پلان بی کے طور پر ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنے دے رہے ہیں۔

تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت اور بیرون ملک سفر کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کی سیاسی پیشرفت کے باعث پلان کا دوسرا حصہ اب تک میڈیا کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپایا۔

ان کی تین ماہ کی تیاریوں اور ایک درجن ملین مارچ کے بعد مولانا نے دو مواقع گنوا دئیے۔ پہلا یہ کہ انہیں اپنے اتحادیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مارچ یا اپریل 2020 تک اسلام آباد مارچ ملتوی کرنے کی تجویزمان لینی چاہئے تھی۔ دوسرا یہ کہ انہیں عدالتی کمیشن یا پارلیمانی کمیشن سے با آسانی فیصلہ کروانا چاہئے تھا جس کیلئے حکومت بھی تیار تھی اور حتیٰ کہ تازہ انتخابات کیلئے بھی تیار تھی اگر کمیشن انتخابات 2018 دھاندلی زدہ قرار دے دیتا، اس کا مطلب بھی وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ تھا۔

ایک بات تو یقینی ہے کہ مولانا کا مارچ ون مین، ون پارٹی شو تھا اور مستقبل کی سیاسی پیشرفت اس بات کا تعین کریں گی کہ آیا مولانا کے ساتھ ہاتھ ہوا یا اس منظر کے پیچھے اصلی دماغ بے نقاب ہوجائے گا۔

جس طرح سے مولانا نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے مذاکرات کئے، اس سے بھی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور آخر میں وہ کوئی قابل قبول ’فیس سیونگ‘(آبرو کا پاس) چاہتے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدریوں نے مولانا کو ملاقاتوں میں واضح طور پر بتادیا تھا کہ عمران کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور یہی وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے وہ مطمئن دکھائی دئیے اور اپنی جماعت کے رہنماؤں کو کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں، ہم کہیں نہیں جارہے۔

جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ق نئے الائنس کا حصہ ہوسکتے ہیں جیسا کہ ان کی ملاقاتوں میں موجودہ بحران سے بھی کہیں زیادہ باتیں ہوئی تھیں۔ اس سب کی وجہ سے تنہا پرواز کا فوری خاتمہ ہوا اور حقیقت یہی باقی رہتی ہے کہ یہ ناصرف مولانا کیلئے بلکہ پوری حزب اختلاف کیلئے دھچکا تھا جو بغیر شامل ہوئے بھرپور قوت سے مولانا کی سرگرمیاں دیکھ رہی تھی۔

یہ صرف مولانا ہی جانتے ہیں کہ انہیں اس صورتحال میں کس نے دھکیلا اور کس نے ان کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن اگر کسی نے واقعی اس حالیہ سیاسی گیم سے کچھ حاصل کیا ہے تو وہ گجرات کے چوہدری ہیں جو ناصرف مولانا سے نمٹے بلکہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کیلئے بھی پوزیشن لی۔

پلان اے کی طرح ان کے پلان بی نے بھی ابھی تک ملک میں کوئی سیاسی اثر نہیں دکھایا۔ مجھے شک ہے کہ یہ طویل عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے اور کوئی بھی ان کے پلان سی کے بارے میں نہیں جانتا۔ جیسا کہ نواز شریف منگل کو لندن جارہے ہیں، توجہ کا مرکز پھر سے مولانا ہوسکتے ہیں۔ بے شک 40 سالہ سیاست میں یہ مولانا کا سب سے بڑا سیاسی جوا تھا۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سیاسی پنڈت کیا کہتا ہے، وہ حکومت کے برعکس خود کو اور حزب اختلاف کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنے۔ اگر مولانا کے آزادی مارچ کے پیچھے کوئی اور نہیں تھا یا کسی نے مولانا کو مشورہ دیا تھا اور پھر وہ پیچھے ہٹ گیا یا مولانا سے ہاتھ کر گیا تھا تو اس سے جے یو آئی کو مستقبل میں مزید نقصان پہنچے گا اور انہیں اپنے ہزاروں ماننے والے افراد کی سرشار قوت کو مطمئن کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

اس مارچ سے مولانا کو جو کریڈٹ مل سکتا ہے وہ اپنے درجن بھر ملین مارچ کے ساتھ سیاسی موبلائزیشنز ہے۔ گزشتہ 13 دنوں میں وہ یقیناً حزب اختلاف کی مرکزی شخصیت رہے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے آگے نظر آئے جو مولانا کے پلان کی پراسراری کے باعث الجھن میں دکھائی دیں۔ دونوں جماعتوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ پوری قوت کے ساتھ مولانا کے ساتھ جاتے بھی ہیں تو تب بھی وہ حکومت نہیں گراسکیں گے اور محاذ آرائی تیسری پارٹی کی مداخلت کا باعث بن سکتی ہے۔

یوں حکومت کو ملک میں قیمتوں میں شدید اضافے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بے یقینی کے باوجود اب تک حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمان اور باہر دونوں جگہ کسی بامعنی سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

سینیٹ میں اکثریت کے باوجود وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے چیئرمین سینیٹ تک کو نہیں ہٹا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جے یو آئی ف نے پارلیمان میں اپنی نمائندگی کے ساتھ یا بغیر مضبوط سیاسی مذہبی قوت کے طور پر اپنی تنظیمی صلاحیت، تنظیم اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پہلی مرتبہ مولانا نے شاید فیصلہ کن مہمکے آغاز کے وقت میں غلطی کردی اور وہ بھی کسی فرد کی جانب سے عملی مدد کے بغیر۔
 
Top