نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کی میراث

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کی میراث
17/08/2019 خورشید ندیم



جنرل ضیا الحق کو دنیا سے رخصت ہوئے اکتیس سال ہو گئے۔ کیا مرحوم کے بارے میں تاریخ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا؟

میں نے زندگی میں جو چند بڑے اجتماعات دیکھے ہیں، ان میں سے ایک جنرل ضیا الحق مر حوم کا جنازہ بھی ہے۔ خلقِ خدا اس طرح سے امڈ آئی تھی کہ تا حدِ نظر انسانی سروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ رونے والوں میں ایک میں بھی تھا، جو اُس وقت اسلامی انقلاب کے قافلے کا ایک نا قابلِ ذکر ہم سفر تھا۔ بائیس سال کا ایک نوجوان جو یہ خیال کر رہا تھا کہ میرِ کارواں رخصت ہوا۔ اب کون لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا؟ اس کے خواب بکھر گئے تھے۔

پھر میں نے اُن کے مرقد کو بھی دیکھا۔ کئی بار۔ حسرت کی بولتی تصویر:، نوحہ خواں نہ سہی فاتحہ خواں ہی سہی! ، چراغ اور پھول تو خیر دور کی بات، معلوم نہیں کتنے عرصے بعد کوئی بھولا بھٹکا راہ گیر یہاں سے گزرتا اور مغفرت کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہو گا۔ اب ایسا نہیں کہ یہ قبر کسی ویرانے میں ہے۔ یہ اسلام آباد کا وہ مقام ہے جہاں شب و روز انسانوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ سیر گاہ بھی ہے اور عبادت گاہ بھی۔ فیصل مسجد کے ساتھ بلکہ اس کے ہمسائیگی میں۔

قبر تو خیر کیا ہے، مٹی کا ڈھیر۔ کبھی مٹ بھی جاتی ہے۔ اس ڈھیر پر انسانوں کا اکٹھ کسی کی عظمت کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ خلقِ خدا کا ہجوم کہیں بھی جمع ہو جاتا ہے۔ برسی یا عرس کے اجتماع کسی کی عظمت کی نشانی ہیں نہ مغفرت کی۔ اللہ تعالیٰ کبھی لوگوں کے دلوں کو بھی مزار بنا دیتا ہے جہاں یاد کا دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ یا یہ کہ کوئی تاریخ کے ایک مستند حوالے کے طور پر مجالس اور کتب میں زندہ رہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ضیا الحق مرحوم کا معاملہ یہ بھی نہیں۔ جو ان کے نام لیوا تھے، اب ذکر سے بھی گریزاں ہیں۔ کوئی خود کو ان کا جانشین نہیں کہتا، وہ بھی نہیں جن کو مرحوم نے دعا دی تھی کہ ان کی عمر انہیں لگ جائے۔

یہ سب کیا ہے؟ فراموشی کا یہ عالم کیوں؟ کیا ان کی کوئی سیاسی میراث نہیں؟ اگر ہے تو پھر وارث کون ہے؟ وہ رونے والے کہاں گئے؟ جنازے کے کاروان کے مسافر کیا ہوئے؟ سیاست ان کے ذکر سے خالی کیوں ہے؟ یہ کیسا المیہ ہے کہ ان کے نام لیوا آج بھٹو کا حوالہ تو دیتے ہیں، ان کا نام تک نہیں لیتے؟ کیا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ انہیں فراموش کر دیا جائے؟ قلم زد!

جنرل ضیا الحق کی میراث کیا تھی؟ افغانستان کی جنگِ آزادی جسے جہادِ افغانستان کہا گیا۔ پاکستانی معاشرے کی تشکیلِ نو، ریاست کی اسلامی تشکیل اور نواز شریف۔ میں نواز شریف سے آغاز کرتا ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مزاج میں فسطائیت تھی۔ اس نے ان کے مخالفین کی فہرست کو طویل تر کر دیا تھا۔ اس میں اسلامی انقلاب کے علم بردار تھے اور سوشلسٹ انقلاب کے داعی بھی۔ میاں طفیل تھے اور معراج محمد خان بھی۔ ولی خان تھے اور اچکزئی بھی۔ اگر نعیم صدیقی ان کے زخم خوردہ تھے تو حبیب جالب بھی۔ پیر پگاڑا جیسے جاگیردار تھے تو میاں شریف جیسے صنعت کار بھی۔ صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی ہی نہیں، حسین نقی بھی ان کے ستم گزیدہ تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں بھٹو صاحب دریا دلی کے ساتھ اس فہرست کو طویل سے طویل تر کرتے گئے۔ مخالفت کے دیگر اسباب اس پر مستزاد تھے۔

اس کے باوجود، نئے پاکستان، میں جو 1970 ء کے بعد وجود میں آیا تھا، وہ سب سے مقبول راہنما تھے۔ کسی سیاسی قوت کے بس میں نہیں تھا کہ تنہا ان کا مقابلہ کر سکے۔ مخالفین نے یہ رازجان لیا اور اپنے نظریاتی اور گروہی اختلافات بھلا کر ان کے خلاف متحد ہو گئے۔ 1977 ء کے انتخابات میں ان کی توقعات کے بر خلاف ایک عجیب الخلقت اتحاد وجود میں آ گیا جسے، پاکستان قومی اتحاد، کا نام دیا گیا۔

اس اتحاد کا سر اگر سبز رنگ کا تھا تو دم سرخ تھی۔ کمر کسی اور رنگ کی تھی اور ٹانگیں کسی اور رنگ کی۔ جنرل ضیا الحق جب بھٹو صاحب کو ہٹا کر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ان کی عوامی قوت سے خوف زدہ تھے۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ بھٹو صاحب کو اگر آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا موقع دیا گیا تو ان کا برسرِ اقتدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یوں انہوں نے ایک طرف بھٹو صاحب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا اور دوسری طرف ان کے مخالفین کو ایک لیڈر کے زیر سایہ جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سیاست پیسے کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ان کی نظرِ انتخاب میاں شریف مرحوم کے صاحب زادے نواز شریف صاحب پر پڑی۔

شریف خاندان کے پاس پیسہ تھا اور یہ بھٹو صاحب کے زخم خوردہ بھی تھے کیونکہ بھٹو عہد میں ان کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ پاکستانی کلچر کا ٹھیٹ نمونہ تھے جنہیں ایک عام آدمی آسانی سے قبول کر سکتا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے موزوں آدمی ہو سکتے تھے۔ یوں نواز شریف کی ذات میں بھٹو مخالف جذبات کی سیاسی تجسیم ہو گئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد جیسے سیاسی اتحادوں نے انہیں موقع فراہم کیا اور تمام بھٹو مخالف طبقات ایک چھتری تلے جمع ہو گئے۔ جماعت اسلامی سمیت، تمام بھٹو کی مخالف جماعتیں دھیرے دھیرے اپنے ووٹ بینک سے محروم ہوتی چلی گئیں۔ اب ان کے سیاسی راہنما نواز شریف تھے۔

افغانستان کو سوویت یونین سے آزادی دلانے کے لیے جو جنگ لڑی گئی، اس کے نتائج بھی جنرل ضیا الحق کی وراثت ہے۔ اس باب میں دو آرا ہیں کہ یہ پاکستان کو روس کی توسیع پسندی سے بچاؤ کی تدبیر تھی یا امریکہ کو واحد عالمی قوت بنانے کی سازش۔ نتیجہ اس کا امریکہ کا بلا شرکتِ غیرے عالمی اقتدار ہی نکلا۔ اس کی قیمت ساری دنیا بھگت رہی ہے اور ہم بدرجہ اولیٰ۔

اس جنگ کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے پاکستان کو تہذیبی، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر برباد کر دیا۔ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، سماجی روایات کی بربادی، فساد، اور مذہب کی توہین، وہ چند بڑے نتائج ہیں، جو اس پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کے انڈے بچے پورے ملک میں پھیل گئے۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی ہم خود کو اس کے اثرات سے نکال نہیں پائے۔ ضیا الحق صاحب نے پاکستانی سماج کی تشکیلِ نو کر دی۔

ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور اس طرز کے چند دوسرے اقدامات کی حقیقت بھی اب کھل چکی۔ یہ اقتدار کے دوام کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کے استحصال کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں انہوں نے مذہبی طبقات کو سیاسی و معاشی رشوت دی اور یوں مسجد و محراب کے تقدس کو مجروح کیا۔ ان کے اقدامات نے دینی مدارس کے سماجی تعارف ہی کو بدل ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد مذہب آج تک اپنا سماجی و اصلاحی کردار ادا نہیں کر سکا جس طرح ہماری روایت میں کرتا آیا ہے۔ اب مذہب فرقہ واریت کا موضوع ہے یا سیاسی بیانیوں کا عنوان۔ مذہب کے ساتھ ہمارا رومانوی تعلق بری طرح مجروح ہوا۔

یہ جنرل ضیا الحق کی کل میراث ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے، ان سوالات کے جواب تلاش کیے جا سکتے ہیں، جو میں نے کلام کے آغاز میں اٹھائے ہیں۔ میرے نزدیک اگر اس میں سے کچھ مثبت برآمد ہوا تو وہ نواز شریف ہیں۔ وہ بھی اُس وقت جب وہ مرحوم کے سیاسی اور مذہبی تصورات سے آزاد ہوئے۔ آج وہ مذہبی ہم آہنگی، تہذیبی احیا، جمہوری اقدار، علاقائی امن کی علامت ہیں۔ آج ان کی بیٹی کو بھٹو کا نام لیتے ہوئے تکلف نہیں ہوتا، جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے۔

آج نواز شریف کا ذکر آتا ہے تو لوگ 1980 ء کے دور میں جا نکلتے ہیں۔ وہ اس ارتقا کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اس دوران میں ہو چکا۔ وہ فرشتہ ہیں نہ مثالی لیڈر لیکن لمحۂ موجود میں ان اقدار کی علامت ہیں، جن کو اپنانے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ نواز شریف ضیا الحق کی میراث ضرور ہیں، لیکن لمحۂ موجود میں، اس کی تلافی بھی ہیں۔ اکتیس سال بعد تھیسس سے اینٹی تھیسس پیدا ہو چکا۔
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کی میراث
17/08/2019 خورشید ندیم



جنرل ضیا الحق کو دنیا سے رخصت ہوئے اکتیس سال ہو گئے۔ کیا مرحوم کے بارے میں تاریخ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا؟

میں نے زندگی میں جو چند بڑے اجتماعات دیکھے ہیں، ان میں سے ایک جنرل ضیا الحق مر حوم کا جنازہ بھی ہے۔ خلقِ خدا اس طرح سے امڈ آئی تھی کہ تا حدِ نظر انسانی سروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ رونے والوں میں ایک میں بھی تھا، جو اُس وقت اسلامی انقلاب کے قافلے کا ایک نا قابلِ ذکر ہم سفر تھا۔ بائیس سال کا ایک نوجوان جو یہ خیال کر رہا تھا کہ میرِ کارواں رخصت ہوا۔ اب کون لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا؟ اس کے خواب بکھر گئے تھے۔

پھر میں نے اُن کے مرقد کو بھی دیکھا۔ کئی بار۔ حسرت کی بولتی تصویر:، نوحہ خواں نہ سہی فاتحہ خواں ہی سہی! ، چراغ اور پھول تو خیر دور کی بات، معلوم نہیں کتنے عرصے بعد کوئی بھولا بھٹکا راہ گیر یہاں سے گزرتا اور مغفرت کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہو گا۔ اب ایسا نہیں کہ یہ قبر کسی ویرانے میں ہے۔ یہ اسلام آباد کا وہ مقام ہے جہاں شب و روز انسانوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ سیر گاہ بھی ہے اور عبادت گاہ بھی۔ فیصل مسجد کے ساتھ بلکہ اس کے ہمسائیگی میں۔

قبر تو خیر کیا ہے، مٹی کا ڈھیر۔ کبھی مٹ بھی جاتی ہے۔ اس ڈھیر پر انسانوں کا اکٹھ کسی کی عظمت کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ خلقِ خدا کا ہجوم کہیں بھی جمع ہو جاتا ہے۔ برسی یا عرس کے اجتماع کسی کی عظمت کی نشانی ہیں نہ مغفرت کی۔ اللہ تعالیٰ کبھی لوگوں کے دلوں کو بھی مزار بنا دیتا ہے جہاں یاد کا دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ یا یہ کہ کوئی تاریخ کے ایک مستند حوالے کے طور پر مجالس اور کتب میں زندہ رہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ضیا الحق مرحوم کا معاملہ یہ بھی نہیں۔ جو ان کے نام لیوا تھے، اب ذکر سے بھی گریزاں ہیں۔ کوئی خود کو ان کا جانشین نہیں کہتا، وہ بھی نہیں جن کو مرحوم نے دعا دی تھی کہ ان کی عمر انہیں لگ جائے۔

یہ سب کیا ہے؟ فراموشی کا یہ عالم کیوں؟ کیا ان کی کوئی سیاسی میراث نہیں؟ اگر ہے تو پھر وارث کون ہے؟ وہ رونے والے کہاں گئے؟ جنازے کے کاروان کے مسافر کیا ہوئے؟ سیاست ان کے ذکر سے خالی کیوں ہے؟ یہ کیسا المیہ ہے کہ ان کے نام لیوا آج بھٹو کا حوالہ تو دیتے ہیں، ان کا نام تک نہیں لیتے؟ کیا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ انہیں فراموش کر دیا جائے؟ قلم زد!

جنرل ضیا الحق کی میراث کیا تھی؟ افغانستان کی جنگِ آزادی جسے جہادِ افغانستان کہا گیا۔ پاکستانی معاشرے کی تشکیلِ نو، ریاست کی اسلامی تشکیل اور نواز شریف۔ میں نواز شریف سے آغاز کرتا ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مزاج میں فسطائیت تھی۔ اس نے ان کے مخالفین کی فہرست کو طویل تر کر دیا تھا۔ اس میں اسلامی انقلاب کے علم بردار تھے اور سوشلسٹ انقلاب کے داعی بھی۔ میاں طفیل تھے اور معراج محمد خان بھی۔ ولی خان تھے اور اچکزئی بھی۔ اگر نعیم صدیقی ان کے زخم خوردہ تھے تو حبیب جالب بھی۔ پیر پگاڑا جیسے جاگیردار تھے تو میاں شریف جیسے صنعت کار بھی۔ صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی ہی نہیں، حسین نقی بھی ان کے ستم گزیدہ تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں بھٹو صاحب دریا دلی کے ساتھ اس فہرست کو طویل سے طویل تر کرتے گئے۔ مخالفت کے دیگر اسباب اس پر مستزاد تھے۔

اس کے باوجود، نئے پاکستان، میں جو 1970 ء کے بعد وجود میں آیا تھا، وہ سب سے مقبول راہنما تھے۔ کسی سیاسی قوت کے بس میں نہیں تھا کہ تنہا ان کا مقابلہ کر سکے۔ مخالفین نے یہ رازجان لیا اور اپنے نظریاتی اور گروہی اختلافات بھلا کر ان کے خلاف متحد ہو گئے۔ 1977 ء کے انتخابات میں ان کی توقعات کے بر خلاف ایک عجیب الخلقت اتحاد وجود میں آ گیا جسے، پاکستان قومی اتحاد، کا نام دیا گیا۔

اس اتحاد کا سر اگر سبز رنگ کا تھا تو دم سرخ تھی۔ کمر کسی اور رنگ کی تھی اور ٹانگیں کسی اور رنگ کی۔ جنرل ضیا الحق جب بھٹو صاحب کو ہٹا کر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ان کی عوامی قوت سے خوف زدہ تھے۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ بھٹو صاحب کو اگر آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا موقع دیا گیا تو ان کا برسرِ اقتدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یوں انہوں نے ایک طرف بھٹو صاحب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا اور دوسری طرف ان کے مخالفین کو ایک لیڈر کے زیر سایہ جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سیاست پیسے کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ان کی نظرِ انتخاب میاں شریف مرحوم کے صاحب زادے نواز شریف صاحب پر پڑی۔

شریف خاندان کے پاس پیسہ تھا اور یہ بھٹو صاحب کے زخم خوردہ بھی تھے کیونکہ بھٹو عہد میں ان کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ پاکستانی کلچر کا ٹھیٹ نمونہ تھے جنہیں ایک عام آدمی آسانی سے قبول کر سکتا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے موزوں آدمی ہو سکتے تھے۔ یوں نواز شریف کی ذات میں بھٹو مخالف جذبات کی سیاسی تجسیم ہو گئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد جیسے سیاسی اتحادوں نے انہیں موقع فراہم کیا اور تمام بھٹو مخالف طبقات ایک چھتری تلے جمع ہو گئے۔ جماعت اسلامی سمیت، تمام بھٹو کی مخالف جماعتیں دھیرے دھیرے اپنے ووٹ بینک سے محروم ہوتی چلی گئیں۔ اب ان کے سیاسی راہنما نواز شریف تھے۔

افغانستان کو سوویت یونین سے آزادی دلانے کے لیے جو جنگ لڑی گئی، اس کے نتائج بھی جنرل ضیا الحق کی وراثت ہے۔ اس باب میں دو آرا ہیں کہ یہ پاکستان کو روس کی توسیع پسندی سے بچاؤ کی تدبیر تھی یا امریکہ کو واحد عالمی قوت بنانے کی سازش۔ نتیجہ اس کا امریکہ کا بلا شرکتِ غیرے عالمی اقتدار ہی نکلا۔ اس کی قیمت ساری دنیا بھگت رہی ہے اور ہم بدرجہ اولیٰ۔

اس جنگ کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے پاکستان کو تہذیبی، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر برباد کر دیا۔ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، سماجی روایات کی بربادی، فساد، اور مذہب کی توہین، وہ چند بڑے نتائج ہیں، جو اس پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کے انڈے بچے پورے ملک میں پھیل گئے۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی ہم خود کو اس کے اثرات سے نکال نہیں پائے۔ ضیا الحق صاحب نے پاکستانی سماج کی تشکیلِ نو کر دی۔

ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور اس طرز کے چند دوسرے اقدامات کی حقیقت بھی اب کھل چکی۔ یہ اقتدار کے دوام کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کے استحصال کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں انہوں نے مذہبی طبقات کو سیاسی و معاشی رشوت دی اور یوں مسجد و محراب کے تقدس کو مجروح کیا۔ ان کے اقدامات نے دینی مدارس کے سماجی تعارف ہی کو بدل ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد مذہب آج تک اپنا سماجی و اصلاحی کردار ادا نہیں کر سکا جس طرح ہماری روایت میں کرتا آیا ہے۔ اب مذہب فرقہ واریت کا موضوع ہے یا سیاسی بیانیوں کا عنوان۔ مذہب کے ساتھ ہمارا رومانوی تعلق بری طرح مجروح ہوا۔

یہ جنرل ضیا الحق کی کل میراث ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے، ان سوالات کے جواب تلاش کیے جا سکتے ہیں، جو میں نے کلام کے آغاز میں اٹھائے ہیں۔ میرے نزدیک اگر اس میں سے کچھ مثبت برآمد ہوا تو وہ نواز شریف ہیں۔ وہ بھی اُس وقت جب وہ مرحوم کے سیاسی اور مذہبی تصورات سے آزاد ہوئے۔ آج وہ مذہبی ہم آہنگی، تہذیبی احیا، جمہوری اقدار، علاقائی امن کی علامت ہیں۔ آج ان کی بیٹی کو بھٹو کا نام لیتے ہوئے تکلف نہیں ہوتا، جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے۔

آج نواز شریف کا ذکر آتا ہے تو لوگ 1980 ء کے دور میں جا نکلتے ہیں۔ وہ اس ارتقا کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اس دوران میں ہو چکا۔ وہ فرشتہ ہیں نہ مثالی لیڈر لیکن لمحۂ موجود میں ان اقدار کی علامت ہیں، جن کو اپنانے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ نواز شریف ضیا الحق کی میراث ضرور ہیں، لیکن لمحۂ موجود میں، اس کی تلافی بھی ہیں۔ اکتیس سال بعد تھیسس سے اینٹی تھیسس پیدا ہو چکا۔
میاں صاحب خود کسی زمانے میں بھٹو سے متاثر تھے؛ باقاعدگی سے ان کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ایک انٹرویو میں میاں صاحب نے یہاں تک کہا کہ کسی جلسے میں بھٹو صاحب کی جان کو خطرہ ہوا تو انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے بھٹو صاحب کی جان تک بچائی تھی؛ پورا واقعہ یاد نہ رہا۔ بعدازاں، انہیں نیشنلائزیشن اور وقت کی مجبوریاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف لے آئیں کیونکہ اقتدار کا رُوٹ بھی یہی تھا۔ بہرصورت، اب انہیں خود کو جمہوریت پسند کہلوانے کا شوق ہے اور اس کی خاطر وہ کئی بار اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا چکے۔ بشری کمزوریوں اور بدعنوانی کے الزامات سے قطع نظر، جو کچھ انہوں نے کیا ہے، یہ بھی آسان نہ تھا۔ یہاں تو آرمی چیف کے خلاف ایک بیان دینا بھی چیری بلاسمانہ روش کے منافی ہے، اور یہ صاحب ہیں کہ قریب قریب ہر آرمی چیف کو ہٹانے کی کوشش کی۔ :) نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ :) شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ارتقائی سفر طے کر جمہوریت کو بطور نظام اپنا چکے ہیں تاہم اُن کے اپنے رویے اور اُن کا اپنا تشکیل شدہ مزاج بھی جمہوریت کے منافی تھا، اور کیسے نہ ہوتا، کہ اقتدار میں آنے کے لیے، جن کی چاپلوسی تب ضروری تھی، آج بھی ضروری ہے، یہ وہ سب سے بڑا جرم ہے، جس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں اور شاید ہر وہ سیاست دان بھگتے گا جو اک ذرا چوں چراں کرے گا کہ مقدمے تو قریب قریب ہر ایک پر قائم ہیں۔ یہ اسٹیبلشیائی انتقام ایسا ہی ہوتا ہے اور اس میں پچھلے ساٹھ برس سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میاں صاحب خود کسی زمانے میں بھٹو سے متاثر تھے؛ باقاعدگی سے ان کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ایک انٹرویو میں میاں صاحب نے یہاں تک کہا کہ کسی جلسے میں بھٹو صاحب کی جان کو خطرہ ہوا تو انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے بھٹو صاحب کی جان تک بچائی تھی؛ پورا واقعہ یاد نہ رہا۔ بعدازاں، انہیں نیشنلائزیشن اور وقت کی مجبوریاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف لے آئیں کیونکہ اقتدار کا رُوٹ بھی یہی تھا۔ بہرصورت، اب انہیں خود کو جمہوریت پسند کہلوانے کا شوق ہے اور اس کی خاطر وہ کئی بار اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا چکے۔ بشری کمزوریوں اور بدعنوانی کے الزامات سے قطع نظر، جو کچھ انہوں نے کیا ہے، یہ بھی آسان نہ تھا۔ یہاں تو آرمی چیف کے خلاف ایک بیان دینا بھی چیری بلاسمانہ روش کے منافی ہے، اور یہ صاحب ہیں کہ قریب قریب ہر آرمی چیف کو ہٹانے کی کوشش کی۔ :) نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ :) شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ارتقائی سفر طے کر جمہوریت کو بطور نظام اپنا چکے ہیں تاہم اُن کے اپنے رویے اور اُن کا اپنا تشکیل شدہ مزاج بھی جمہوریت کے منافی تھا، اور کیسے نہ ہوتا، کہ اقتدار میں آنے کے لیے، جن کی چاپلوسی تب ضروری تھی، آج بھی ضروری ہے، یہ وہ سب سے بڑا جرم ہے، جس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں اور شاید ہر وہ سیاست دان بھگتے گا جو اک ذرا چوں چراں کرے گا کہ مقدمے تو قریب قریب ہر ایک پر قائم ہیں۔ یہ اسٹیبلشیائی انتقام ایسا ہی ہوتا ہے اور اس میں پچھلے ساٹھ برس سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
آپ نے بجا فرمایا کہ میاں صاحب بار ہا اپنی غلطیوں پر واویلا کر چکے ہیں اور اس کی تلافی کرنے کی بھی اپنی سی کوشش بارہا کر چکے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام ہی رہے تو اس سے ایک نتیجہ اور بھی نکل سکتا ہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ باوردی اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط ہے کہ جس کو چاہے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے اور جب چاہے اس کو اچھوت کہہ کر بارہ پتھر باہر کر دے ، چاہے وہ بعد میں لاکھ کہتا رہے کہ میں بھی براہمن رہا ہوں اور شتریوں کی دادا گیری نہیں چلنی چاہیئے لیکن اس کی ایک نہیں سنی جاتی!
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے بجا فرمایا کہ میاں صاحب بار ہا اپنی غلطیوں پر واویلا کر چکے ہیں اور اس کی تلافی کرنے کی بھی اپنی سی کوشش بارہا کر چکے ہیں
میرے خیال میں میاں صاحب نےاپنی غلطیوں کی تلافی کی تاحال کوئی کوشش نہیں کی۔
اپنے پہلے دور حکومت میں نواز شریف نے فوج کے دباؤ پر اکانمک ریفرمز ایکٹ پاس کر کے ملک میں پہلی بار منی لانڈرنگ کو قانونی تحفظ فراہم کیا تھا۔
بعد میں مختلف جعلی کمپنیز جیسے حدیبیہ پیپر ملز، العزیزیہ ، ہل میٹل، فلیگ شپ، چوہدری شوگر ملز وغیرہ بنا کر پورے شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کی ۔
اور جب جب پکڑے گئے تو بجائے اپنی غلطی مان کر لوٹا ہوا پیسا واپس کرنے کے ہمیشہ ملک کے اداروں کے خلاف ڈٹ گئے۔ اور ہر بار سیاسی شہید بننے کی ناکام کوشش کی۔
اگر آپ اسے تلافی سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں۔ میں تو اسے قوم سے مذاق ہی کہوں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جن کی چاپلوسی تب ضروری تھی، آج بھی ضروری ہے، یہ وہ سب سے بڑا جرم ہے، جس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں اور شاید ہر وہ سیاست دان بھگتے گا جو اک ذرا چوں چراں کرے گا کہ مقدمے تو قریب قریب ہر ایک پر قائم ہیں۔
لفافتی چاپلوسی؛ نواز شریف اور زرداری کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑنے کی وجہ سے آج جیل میں ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
لفافتی چاپلوسی؛ نواز شریف اور زرداری کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑنے کی وجہ سے آج جیل میں ہیں :)
یہ حامد میر کا غلط استدلال ہے۔ جو بات درست نہیں، اُسے کیسے غلط نہ کہا جائے۔ ایمان داری کی بات ہے! یہ واقعاتی طور پر سچ بات ہے کہ یہ دونوں رہنما سلاخوں کے پیچھے ہے، تاہم، اس کے قلابے کشمیر سے ملانا غلط اندازِ فکر ہے۔بس، یہی معاملہ ہے کہ ٹویٹ کے چکر میں، اور ہمہ وقت اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے خیال میں رہ کر، اچھا بھلا سیانا بندہ بھی اس طرح کی بے تکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کی میراث
17/08/2019 خورشید ندیم

کئی سالوں سے خورشید ندیم صاحب کے کالم پڑھ رہا ہوں یہ مسلسل نواز شریف کی حمایت میں لکھ رہے ہیں الا ماشاء اللہ۔ البتہ ان کے علمی کالم خوب ہوتے ہیں اگرچہ ان سے بھی سو فیصد اتفاق مشکل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کئی سالوں سے خورشید ندیم صاحب کے کالم پڑھ رہا ہوں یہ مسلسل نواز شریف کی حمایت میں لکھ رہے ہیں الا ماشاء اللہ۔
اگر نواز شریف نے واقعتا اپنے جرائم کا کفارہ ادا کردیا ہے تو ان کی حمایت کرنا کوئی غلط بات نہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف نے تاحال اپنی کرپشن، منی لانڈرنگ اور دروغ گوئی پر قوم سے کوئی معافی نہیں مانگی ہے۔ اور نہ ہی اس کا کفارہ لوٹا ہوا مال واپس کرکے ادا کیا ہے۔
اس کے باوجود محمد وارث فرقان احمد کا خیال ہے کہ قوم ایک بار پھر ان کے وارثین کو ووٹ دے گی۔
یعنی ابھی پچھلے قومی جرائم کا کھاتہ بند نہیں ہوا اور قوم نیا کھاتہ کھولنے کی اجازت دے گی؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ کو عدلیہ، اسٹیبشلمنٹ سے کچھ بار تو ڈھیل یا ڈیل مل سکتی ہے۔ ہر بار نہیں مل سکتی۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر نواز شریف نے واقعتا اپنے جرائم کا کفارہ ادا کردیا ہے تو ان کی حمایت کرنا کوئی غلط بات نہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف نے تاحال اپنی کرپشن، منی لانڈرنگ اور دروغ گوئی پر قوم سے کوئی معافی نہیں مانگی ہے۔ اور نہ ہی اس کا کفارہ لوٹا ہوا مال واپس کرکے ادا کیا ہے۔
اس کے باوجود محمد وارث فرقان احمد کا خیال ہے کہ قوم ایک بار پھر ان کے وارثین کو ووٹ دے گی۔
یعنی ابھی پچھلے قومی جرائم کا کھاتہ بند نہیں ہوا اور قوم نیا کھاتہ کھولنے کی اجازت دے گی؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ کو عدلیہ، اسٹیبشلمنٹ سے کچھ بار تو ڈھیل یا ڈیل مل سکتی ہے۔ ہر بار نہیں مل سکتی۔
ہم نے کب کہا کہ قوم ان کے وارثین کو ووٹ دے گی تاہم متبادل قیادت آپ خلا سے نہیں لا سکتے ہیں۔ یا تو آپ ان کو سیاست سے مکمل طور پر آؤٹ کر کے دکھا دیتے تو بات تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ایسا کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کوئی متبادل قیادت ابھرے گی بھی کیسے جب کہ اقتدار کے مراکز نے چہار سو کڑے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ آپ کی اسٹیبلشمنٹ بھی تو ان میں سے ہی کسی ایک کو چُنتی ہے۔ اب کیا بہترین قیادت خلا سے لائیے گا! ووٹ ان کے وارثوں کو اس لیے پڑتے ہیں کہ آپ بوجوہ ہر پانچ دس سال بعد ان کی سیاست کو زندہ کر دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ حامد میر کا غلط استدلال ہے۔ جو بات درست نہیں، اُسے کیسے غلط نہ کہا جائے۔ ایمان داری کی بات ہے! یہ واقعاتی طور پر سچ بات ہے کہ یہ دونوں رہنما سلاخوں کے پیچھے ہے، تاہم، اس کے قلابے کشمیر سے ملانا غلط اندازِ فکر ہے۔بس، یہی معاملہ ہے کہ ٹویٹ کے چکر میں، اور ہمہ وقت اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے خیال میں رہ کر، اچھا بھلا سیانا بندہ بھی اس طرح کی بے تکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
ECRIg54W4AIZtIl.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے بجا فرمایا کہ میاں صاحب بار ہا اپنی غلطیوں پر واویلا کر چکے ہیں اور اس کی تلافی کرنے کی بھی اپنی سی کوشش بارہا کر چکے ہیں
تلافی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جس کے نام پر اس سیاسی خاندان کا سارا منی لانڈرنگ نیٹورک چل رہاہےوہ خود پاکستان آکر اس کا جواب دے۔ اور اپنے خاندان کو اس مشکل سے نکالے۔

حسین نواز واپس آؤ!
سہیل وڑائچ

کسی کو اچھا لگے یا بُرا، نونی ناراض ہوں یا انصافی اپنی مرضی کا مطلب نکالیں، میں سرعام یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ ’’حسین نواز واپس آئو‘‘ تم جہاں بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، خوش ہو یا پریشان ہو، زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہو یا والد اور بہن کی جیل پر رنجیدہ ہو۔ جیسے بھی ہو فوراً جہاز پکڑو اور واپس آئو۔

ان کے وطن نہ آنے کی جو بھی قانونی، سیاسی اور خاندانی وجوہات تھیں یا ہیں ان کا جواز تھا یا نہیں، مگر اب صورتحال ایسی ہے کہ یہ تمام وجوہات اور جواز رد کرکے بھی حسین نواز کو فوراً واپس آنا چاہئے۔ ان کے والد نواز شریف اور بہن مریم دونوں پابندِ سلاسل ہیں، ایسے میں حسین نواز، لندن، جدہ یا دبئی جہاں کہیں ہیں، ان کا وہاں رہنا نہیں بنتا۔ بہت سے الزامات ایسے ہیں جو حسین نواز پر ہیں اور بالواسطہ سزا ان کے والد اور بہن بھگت رہے ہیں۔ پارک لین کی جائیداد کے مالک ہونے کے آپ دعویدار ہیں، آپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آپ کے اثاثے اور جائیداد آپ کو اپنے دادا میاں محمد شریف سے براہِ راست ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسین نواز واپس آئے گا تو گرفتار ہوگا مگر پھر بھی اُسے آنا چاہئے اور اپنی قانونی پوزیشن کا دفاع کرنا چاہئے۔

نونی کہہ سکتے ہیں کہ حسین نواز تو سیاست میں نہیں، وہ کیوں واپس آکر گرفتار ہو جائے اور یوں شریف خاندان مزید مشکلات کا شکار ہو جائے۔ حسین نواز جنرل مشرف کی بغاوت کے وقت بھی گرفتار ہوئے تھے، پاناما اسکینڈل کے دوران حسین نواز نے پاکستان آکر اپنے خاندانی اثاثوں کی وضاحت پیش کی تھی، وہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی میں بھی پیش ہوئے تھے۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ حسین نواز پہلے بھی مختلف مواقع پر اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اب بھی انہیں پاکستان کے حالات سے منہ نہیں موڑنا چاہئے۔ آتش فشاں پھٹا ہو تو اس سے دور بھاگنا چاہئے مگر کسی کو بچانا ہو، اپنی پوزیشن صاف کرنا ہو تو آپ کو آتش فشاں کی طرف بھی آنا پڑتا ہے۔ حسین نواز کے لئے پاکستان آنے میں خطرات میں لمبی جیل اور پیچیدہ مقدمات کو برداشت کرنا ہوگا مگر وہ اس خطرے سے بچ کر محفوظ زندگی گزار بھی لیں تو ان کی ساکھ اور حیثیت پر سوال بہرحال اٹھتے رہیں گے۔

شریف خاندان کے ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ مرحومہ کلثوم نواز کا فیصلہ تھا کہ جنرل مشرف کے دور کے پہلے سال 2000ء میں ہی انہوں نے میاں شریف سے یہ فیصلہ کروایا کہ میاں نواز شریف کے بیٹے آئندہ پاکستان میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک بزنس کریں گے۔ انہیں غصہ تھا کہ جنرل مشرف کے دور میں ان کے کارخانوں اور بزنس کو بند کیا گیا تھا۔ بیگم کلثوم نواز ہی نے بیٹوں حسین اور حسن کو سیاست سے دور رہنے اور مریم نواز کو سیاست میں اِن کرنے کا فیصلہ کیا۔ شریف خاندان میں کلثوم نواز کی عقلمندی اور دور اندیشی پر اتفاق رائے تھا، اسی لئے حسین اور حسن سیاست میں پس منظر میں چلے گئے جبکہ مریم نواز اپنی والدہ کی اشیرباد سے سیاست میں آگے بڑھیں۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اس صورتحال میں حسین نواز تبدیلی لائیں، لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کریں اور کہیں کہ الزام حسین نواز پر ہیں، حسین نواز پاکستان آ رہا ہے اسے گرفتار کرو، نواز شریف اور مریم نواز کو رہا کرو‘‘۔

سیاست کے تقاضے کو چھوڑیں، غیرت کا بھی تقاضا ہے کہ والد اور بہن جیل میں ہوں تو حسین نواز جیسا جوان جہان اور باغیرت بھائی کیسے یہ برداشت کر رہا ہے؟ جیل کی سختیاں اور قانون کی پابندیاں اپنی جگہ، مگر انسان کو اپنی عزت اور غیرت پر نمایاں طور پر ناز ہوتا ہے۔ حسین نواز کو بھی ہوگا۔ اب وقت ہے کہ وہ اس غیرت، حمیت اور عزت کا برسر عام اظہار بھی کریں۔ اس صورتحال پر انصافی خوش ہو سکتے ہیں کہ ان کے پاس ایک نیا شکار آنے والا ہے، وہ حسین نواز کی گرفتاری پر بھنگڑے ڈالیں گے مگر حسین نواز کے واپس آنے کا واقعہ، جج ارشد ملک کی وڈیو ریلیز کرنے جیسا ہوگا۔ حسین نواز جیل جائے گا مگر نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف مقدمات کمزور پڑ جائیں گے۔

حسین نواز کے دونوں بیٹے جوان ہیں، ایک یونیورسٹی میں ہے اور دوسرا کالج میں، جدہ اور لندن میں ان کے کاروبار ہیں، ظاہر ہے کہ اس وقت شریف خاندان کا واحد کمائو پوت حسین نواز ہے، ایسے میں اس کی گرفتاری شریف خاندان کے لئے مالی پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہے مگر جب اسٹیکس ہائی ہوں، لڑائی بڑی ہو، عزت اور ساکھ کا مسئلہ ہو تو ایسے میں یہ معاملات غیر اہم ہو جاتے ہیں اور عزت، غیرت اور سیاست اہم ترین ہو جاتی ہے۔

فرض کریں کہ حسین نواز واپس نہ آئے، تو کیا ہوگا، کچھ بھی نہیں ہوگا معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے، والد اور بہن جیل میں پڑے رہیں گے اور حسین نواز غیر متعلق ہوتے جائیں گے۔ اور اگر وہ آ جاتے ہیں، جیل چلے جاتے ہیں تو اپنی جماعت میں ان کی عزت اور سیاسی حیثیت بحال ہوگی۔ آج تک نواز شریف اپنے بیٹوں کو پاکستان آنے سے منع کرتے رہے ہیں، پاکستان آئے تھے تو رات کو ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی تھی، اب بھی شاید اپنی محبت کی وجہ سے حسین نواز کو آنے سے منع کر دیں مگر میری رائے اب بھی یہی ہے حسین نواز واپس آئو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر نواز شریف نے واقعتا اپنے جرائم کا کفارہ ادا کردیا ہے تو ان کی حمایت کرنا کوئی غلط بات نہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف نے تاحال اپنی کرپشن، منی لانڈرنگ اور دروغ گوئی پر قوم سے کوئی معافی نہیں مانگی ہے۔ اور نہ ہی اس کا کفارہ لوٹا ہوا مال واپس کرکے ادا کیا ہے۔
اس کے باوجود محمد وارث فرقان احمد کا خیال ہے کہ قوم ایک بار پھر ان کے وارثین کو ووٹ دے گی۔
یعنی ابھی پچھلے قومی جرائم کا کھاتہ بند نہیں ہوا اور قوم نیا کھاتہ کھولنے کی اجازت دے گی؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ کو عدلیہ، اسٹیبشلمنٹ سے کچھ بار تو ڈھیل یا ڈیل مل سکتی ہے۔ ہر بار نہیں مل سکتی۔
میں نے بھی یہ نہیں کہا کہ قوم ان کے وارثین کو ووٹ دی گی (ان کا ووٹ بنک بہرحال موجود ہے) بلکہ یہ کہ یہی اسٹیبلشمنٹ ان سے "ڈیل" کرے گی اور یہی لیڈر اسٹیبلشمنٹ سے "ڈیل" کریں گے اور واپس اپنی اپنی کرسی پر براجمان ہوں گے، یہاں کا یہی دستور ہے۔
 
Top