محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
نوابزادہ نصراللہ خان صاحب مرحوم گو کہ عموما اپنی سیاست کے لیے جانے جاتے ہیں، تاہم وہ ایک کہنہ مشق شاعر بھی تھے۔ درجِ ذیل نظم انہوں نے کشمیری مجاہدین کے جذبات کی ترجمانی کے جذبے سے کہی تھی۔ یہ انتہائی مرصع نظم ان کے کمالِ فن کی بھرپور گواہی دیتی ہے۔ اگر وہ شاعری کی جانب زیادہ توجہ دیتے تو شاید اپنے عہد کے بڑے بڑے شعرا کے ہم مقام ہوتے۔ آپ سب بھی لطف اٹھائیے۔
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں!
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو! کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!
ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں!
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو! کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!
ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!