نماز کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

السلام علیکم،
محدث العصر ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے نماز کے موضوع پر "اصل صفۃ صلاۃ النبی" کے نام سے تین جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس تھریڈ میں بیان کیے گئے نماز کے مسائل اسی کتاب سے لیے گئے ہیں۔ میرا روئے سخن عام قاری کی جانب ہے جو طویل مباحث اور دلائل میں دلچسپی نہیں رکھتا اس لیےغیر ضروری طوالت یا دلائل کی تفصیل میں جانے سے دانستہ اجتناب کیا ہے۔
جو احباب کسی مسئلے کی تفصیل کے متلاشی ہوں وہ "اصل صفۃ صلاۃ النبی"سے مراجعت فرمائیں۔
ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے:
أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم من التكبير إلى التسليم كأنك تراها - المكتبة الوقفية للكتب المصورة PDF
فقہی مسائل میں فقہائے کرام کے موقف اور دلائل سے واقفیت کے لیے الموسوعۃ الفقہییہ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
الموسوعة الفقهية (ط. أوقاف الكويت) - المكتبة الوقفية للكتب المصورة PDF
امید ہے یہ دونوں کتابیں تفصیلی دلائل چاہنے والوں کے لیے کافی ہوں گی ان شاء اللہ۔ برادر عبد الرحمن بھٹی کے اشکالات کا جواب بھی ان میں مل جائے گا باذن اللہ۔
اس تھریڈ پر سرسری نظر ڈالنے والا شخص بھی اتفاق کرے گا کہ میرے مراسلات میں کسی فقہی مذہب کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے نہ کسی عالم اور فقیہہ کی تحقیر کی گئی ہے، فقہ کوئی بھی ہو جس عالم نے بھی حق بات کو پانے کی کوشش کی وہ بہر صورت ایک اجر کا مستحق ہو گا(ان شاء اللہ) چاہے وہ صحیح بات کو نہ پا سکے، اور اگر صحیح بات کو پا لیا تو دو اجر ملیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے چنانچہ حنفی شافعی حنبلی مالکی سلفی سب علماء اور فقہاء ہمارے اپنے ہیں کسی سے بغض رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ان میں سے بات اسی کی قبول کی جائے گی جس کی دلیل مضبوط ہو۔ اسی منہج کی پیروی ان مراسلات میں کی گئی ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو بات درست معلوم ہوئی وہ لکھ دی ہے اور وہ بھی اپنے علم کی بنیاد پر نہیں لکھی بلکہ معتبر علماء کے اعتماد پر لکھی ہے، میری حیثیت صرف ناقل کی ہے پس گزارش ہے کہ اس تھریڈ کی سنجیدگی برقرار رہنے دیجیے۔ آپ کسی مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں تو اوپر دی گئی کتابوں میں متعلقہ مقامات کا مطالعہ کر لیجیے، ان میں جو کچھ آپ پائیں گے اس سے تسلی نہ ہو تو میں آپ کی مزید مدد کرنے سے قاصر ہوں۔
والسلام علیکم
 
آخری تدوین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔
اگر اجازت کے بعد منسوخ کیا تھا تو مندرجہ ذیل بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے

لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
دوسرے یہ کہ پڑھنے والے ’’سراً‘‘ یعنی بغیر آواز نکالے پڑھ رہے تھے جیسا کہ ’’لعلکم‘‘ سے ظاہر ہے وگرنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالجزم فرماتے۔
 
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
وہ احادیث جن میں ’’لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ‘‘ یا ’’لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بام القرآن‘‘ جیسے الفاظ آئے ہیں تمام ضعیف ہیں۔
 
ضمنًا اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے ۔
چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں جو حدیث عام طور پرمشہور ہے کہ "بچوں کو مسجدسے دور رکھو" وہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ اسے ضعیف قرار دینے والوں میں امام ابن جوزی، امام منذری، امام ہیثمی، حافظ ابن حجر عسقلانی ، اور بوصیری شامل ہیں اور عبدالحق اشبیلی نے اسے بے اصل قرار دیا ہے۔
، لیکن افضل یہی ہے کہ انہیں مسجد میں نہ لایا جائے کیونکہ نہ تو انہیں حوائج ضروریہ پر قابو ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں مسجد ، نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے آداب کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنی فطری حرکات کی بنا پر بسا أٔوقات مسجد میں ناپاکی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی ۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ: مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور انہیں نماز کے لئے مارو جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور ان کے بستر الگ کردو۔

مصنف ابن أبي شيبة: ناب متى يؤمر الصبي بالصلاة:
بے شک عمر رضی اللہ عنہ ایک عورت کے پاس سے گذرے اور وہ اپنے بچے کو نماز کے لئے اٹھا رہی تھی اور بچہ سستی دکھا رہا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے کہا کہ اس کو چھوڑ دے اس پر نماز نہیں جب تک سجھدار نہ ہو جائے۔

السنن الكبرى للبيهقي: جز 2: صفحہ 229:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز سکھلاؤ جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز کے لئے مارو جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور ان کے بستر الگ کردو۔
 
تشھد میں شہادت کی انگلی کو مسلسل حرکت دیتے رہنا
تشھد میں بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی بائیں ہتھیلی مبارک کو اپنے بائیں گھٹنے پر پھیلا کر رکھتے تھے۔ دائیں ہتھیلی کی شہادت کی انگلی کے سوا باقی ساری انگلیاں سمیٹ لیتے، اپنے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھے رہتے[1] اور کبھی کبھار درمیانی انگلی اور انگوٹھے کو یوں ملا لیتے کہ ایک حلقہ (دائرہ) بن جاتا۔[2]
تشھد کے شروع سے لے کر سلام پھیرنے تک شہادت کی انگلی سے قبلہ کی طرف باربار اشارہ فرماتے اور اپنی نگاہ اس انگلی پر جمائے رکھتے۔
انگلی مبارک سے اشارہ کرنے کی کیفیت یہ ہوتی کہ اسے بار بار حرکت دیتے اور حرکت دے دے کر دعا فرماتے اور ارشاد فرماتے:
لَهِيَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ
"یہ (شہادت کی انگلی) شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے"۔[3]
(مسند احمد حدیث نمبر 6000)
ایک شخص کو دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کر کے دعا کرتے دیکھا تو فرمایا:
أَحَّدْ أَحَّدْ
"صرف ایک سے، صرف ایک سے"
( أخرجه النسائي (1/187) ، والترمذي (2/373 - طبع بولاق) ، والحاكم (1/536))
تشھد دو رکعتوں کے بعد والا درمیانی تشھد ہو یا نماز کا دوسرا اور آخری تشھد، دونوں صورتوں میں انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا سنت ہے۔ [4]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تشھد میں انگلی سے اشارہ نہ کرنے پر ملامت اور نکیر فرمایا کرتے تھے۔ [5]

[1] ۔ صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضیع الصلاۃ باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ حدیث نمبر 579
[2]۔ سنن ابی داؤد ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث نمبر 726۔ صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضیع الصلاۃ باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ حدیث نمبر 580
[3] ۔ انظر تصحيح الشيخ الالبانی رحمه الله له في " الإرواء " (2/68 - 69) ، و " صحيح أبي داود "
(717) ، و " تمام المنة " (ص 218 - 222) ، و " السلسلة الصحيحة " (7/551 - 554)
[4] ۔ النسائي (1/173) ، والبيهقي (2/132)
[5] ۔ [رواه] ابن أبي شيبة (2/123/1) = [2/231/8429] و [6/88/29679] بسندٍ حسن}
 
پہلے تشھد کا وجوب اور اس میں دعا کی مشروعیت

ہر دو رکعت کے بعد تشھد میں بیٹھناi اور آہستہ آواز میںii “التحیات” پڑھنا واجب ہے۔ سنت یہ ہے کہ تشھد میں بیٹھ کر “التحیات للہ” سے آغاز کیا جائےiii۔ اگر بھٗولے سے تشھد چھوٹ جائے تو سجدہ سہو کرنا چاہیےiv۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تشھد اس طرح سکھاتے جس طرح قرآن کریم کی سورت سکھائی جاتی تھیv، نمازیوں کو اس کے پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَلْيَدْعُ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
(مسند احمد، حدیث 4160)
“جب تم دو رکعت کے بعد بیٹھو تو “التحیات للہ الخ ۔ ۔ ۔” پڑھا کرو اور جو دعا تمہیں سب سے زیادہ پسند ہو تو اس سے اللہ عزو جل کو پکارو”
حوالہ جات:​
صحیح مسلم حدیث 498۔
2۔ ابوداؤد حدیث 986
3۔ {رواه البيهقي من رواية عائشة بإسناد جيد - كما قال ابن الملقن (28/2) -}
4۔ بخاری و مسلم، ارواء الغلیل 338
5۔ بخاری و مسلم
 
آخری تدوین:

شاہد میمن

محفلین
عبد اللہ حیدر صاحب، سلام



یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سنت رسول اکرم کے قول و فعل سے ثابت ہو۔
فاروق سرور خان ٠ اسلام و علیکم

اسلام میں سلام پورا کرنا چاہئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ثابت ہے ۔ جو آپ نے نہیں کیا اور جب آپ خود عمل نہیں کرتے تو دوسروں پر اعتراض کیسا؟
 
تشھد کا بیان

دو سجدوں اور نماز کی آخری رکعت میں بیٹھنے کے بعد "التحیات اللہ ۔ ۔ ۔۔' پڑھا جائے گا۔ اس کو تشھد کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انواع و اقسام کے تشھد سکھائے ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تشھد کے یہ تمام کلمات درست ہیں، نمازی کو اختیار ہے ان میں سے کوئی سا بھی تشھد پڑھ لے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی تشھد:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے میرے ہتھیلی اپنی دونوں ہتھیلیوں کی درمیان رکھ کر مجھے تشھد کے الفاظ اس طرح سکھائے جس طرح قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ اس تشھد کے الفاظ یہ ہیں:
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
(صحیح البخاری حدیث 831)
یہ تشھد زیادہ معروف و مشھور ہے اور اس کے صحیح ترین ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
دوسرے صحابہ کرام سے مروی تشھدات ذیل میں دیے جاتے ہیں۔
بروایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ
ایک روایت میں "رَسُولُ اللهِ" کی جگہ "عبدہ و رسولہ" کے الفاظ ہیں۔
(أخرجه مسلم (2/14) ، {وأبو عوانة [2/227 و 228] } ، وأبو داود (1/154) ، والنسائي (1/175) ، والترمذي (2/83) ، وابن ماجه (1/291 - 292) ، والطحاوي (1/155) ، والدارقطني (133) ، والبيهقي (2/140) ، وأحمد (1/292))
بروایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ و الصَّلَوَاتُ و الطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
(سنن ابی داؤد باب تفریع ابواب الرکوع و السجود، باب التشھد ۔ حدیث 971 أخرجه أبو داود (1/153) ، والطحاوي (1/154) ، والدارقطني (134) ، والبيهقي (2/139)

بروایت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ
التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
(أخرجه مسلم، {وأبو عوانة [2/227] } ، وأبو داود، والنسائي، والدارمي، والطحاوي، والدارقطني، والبيهقي، وأحمد من طرق عن قتادة عن يونُس بن جُبَير عن حِطّان بن عبد الله الرَّقَاشي عنه)

بروایت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، الزَّاكِيَاتُ لِلَّهِ، الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
( أخرجه الإمام مالك (1/113) ، وعنه الإمام محمد (107) . والطحاوي (1/154) ، والبيهقي (2/144) عن مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبدٍ القاري)

بروایت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا
التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ الزَّاكِيَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
{أخرجه ابن أبي شيبة (1/293) ، والسَّراج، [ص 885]-، والبيهقي (2/144) والسياق له}
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر صلاۃ (درود) پڑھنے کا بیان

تشھد پڑھ لینے کے بعد نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر درود پڑھنا چاہیے۔ اس کے مسنون کلمات ایک سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ ان میں سے کسی بھی طریقے سے درود پڑھا جا سکتا ہے۔تشھد میں درود پڑھنے کے بارے میں جتنی احادیث آئی ہیں وہ عام ہیں ان میں پہلے یا دوسرے تشھد کی تخصیص نہیں کی گئی، اس لیے دونوں تشھدات میں درود پڑھنا چاہیے۔
پہلا درود:
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(أخرجه الإمام أحمد (5/374)، وقد أخرجه الطحاوي في " المشكل " (3/74)، {وأخرجه الشيخان دون: " أهل بيته "})
اس درود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خود پڑھا کرتے تھے۔

دوسرا درود


اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

(أخرجه البخاري (8/432 و 11/127) ، ومسلم (2/16))

تیسرا درود:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(أخرجه أحمد (1/162)، وأخرجه الطحاوي (3/71))
چوتھا درود:

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ،اَلنَّبِيِّ الاُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، اَلنَّبِيِّ الاُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
أخرجه مالك (1/179) ، وعنه مسلم (2/16) ، وأبو داود (1/155)
پانچواں درود:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
(أخرجه البخاري (8/432 - 433 و 11/138 ) ، والنسائي (1/190 - 191)

چھٹا درود:

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(أخرجه مالك (1/179) ، وعنه البخاري (6/317 و 11/143) ، ومسلم (2/16 -17) ، وأبو داود (1/155)

ساتواں درود:

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ وَبَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(أخرجه الطحاوي (3/75)
 
Top