نقش بر آب ۔دلی کے سہیل انجم کے شخصی خاکے

راشد اشرف

محفلین
نقش بر آب ۔دلی کے سہیل انجم کے شخصی خاکے
راشد اشرف، کراچی


خاکہ نگاری کی صنف ادب میں ایک اہم اضافہ کرتی ، فن خاکہ نگاری کے بنیادی تقاضوں پر پورا اترتی، اس اہم صنف ادب کے مختلف پہلوؤں پر کما حقہ نظر رکھنے والے حضرات کی فن خاکہ نگاری سے متعلق کلیدی بیانات سے میل کھاتی کتاب ’’نقش بر آب ‘‘ اس وقت میرے پیش نظر ہے۔اس کے مصنف سہیل انجم ہیں جو دہلی میں قیام پذیر ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ مگر وہ ان برساتی صحافیوں جیسے نہیں ہیں جنہوں نے پاک و بھارت میں ایک دھما چوکڑی مچا رکھی ہے۔ جو کڑی محنت کے قائل ہی نہیں ہیں۔ نتیجتاً جو کچھ ان سے سرزد ہوتا ہے وہ ہم تقریبا روز ہی دیکھتے ہیں۔سہیل انجم بھٹی میں تپ کر کندن بنے ہیں۔ ایسے بھی موقع آئے جب فاقوں کی نوبت آگئی ......مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔وقت گزرتا گیا اور ہمارے ممدوح کی جستجو میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
’’نقش بر آب ‘‘ میں سہیل انجم نے ہر خاکے کے کلیدی کردار کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے لیکن قریب سے ان شخصیات کا قد، انہیں اور بھی نکلتا ہوا نظر آیا ہے۔ شاید یہی بات ان کرداروں کو مرکزِ توجہ بنانے کا جواز ہے۔

کتاب میں شامل تمام شخصیات کا انتخاب مصنف کے ذاتی تعلقات اور اس کی پسند کے مطابق ضرور ہے لیکن ان سے متعلق جو لکھا گیا ہے، کھل کر لکھا گیا ہے۔
اس موقع پر راقم کو ڈاکٹر شمیم ترمذی یاد آرہے ہیں جنہوں نے ایک کتاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا تھا کہ:

’’ لگتا ہے کہ یادیں جس ترتیب سے ذہن میں آتی چلی گئیں، مصنف بلا کم و کاست لکھتا چلا گیا۔اِن رواں دواں تحریروں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ مصنف نے نظرِ ثانی کا تکلّف بھی نہیں کیا مبادا تحریر کا فطری بہاؤ متاثر ہو۔‘‘

’’نقش بر آب ‘‘ مذکورہ بالا تعریف پر یقیناًپورا اترتی ہے۔

یہاں ڈاکٹر ترمذی کا وہ بیان بھی نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:

’’آخر یاد ہے کیا؟ پہلا خیال تھا کہ یاد محض انسانی ذہن کے پردے پر متحرک تصویروں کی کمنٹری ہے جو ذہن اور زبان کے درمیانی فاصلے کو کم کردیتی ہے اور کمنٹری سننے والا شخص، دوسرے کا ذہن پڑھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ لیکن کمنٹری تو ہمیشہ ایک سیدھی لکیر پر چلنے والی شے ہے اور یہ بات یاد کو بے لچک اور بے رس بنانے والی ہے جب کہ یادیں ایسی نہیں ہوتیں۔پھر سوچاکہ یاد شاید
fantasy
ہوتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کیونکہ یاد کا تعلق تصوّر و تخیّل سے نہیں، حقیقت سے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی یادوں کو تصوّراتی البم بنا کر پیش کرتے ہیں ، وہ یادوں کے حقیقی بیان سے گریز کرتے ہوئے یادوں کی تخلیق میں لگ جاتے ہیں جو کسی طور بھی درست نہیں۔ اب میں نے سوچا کہ یادوں کو کمنٹری کی تہمت سے بچانے اور انہیں تخیّلی مرصع کاری سے دور رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یاد کو ایسی کیفیت کہا جائے جس میں انسان ماضی کو
romanticize
کرتا ہے اور یادوں کو ادبی لمس دینے والا فن کار، دلچسپ اور دل پذیر اسلوب میں، دَوری ترتیب سے بے نیاز ہوکر، ماضی کے اُن منتخب واقعات اور کرداروں کو ضبطِ تحریر میں لاتا ہے جو آج کے انسان کو جینے کا حوصلہ دیں، جو ایجابی اقدار کی قندیل سے حال کی تاریک راہوں کو روشن کردیں۔‘


سہیل انجم کی اس کتاب میں شامل پہلا خاکہ ’’شان کج کلاہی‘‘ ہے، یہ مصنف نے اپنے والد محترم ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم پر لکھا ہے۔یہ ایک دل گداز تحریر ہے۔ راقم کی نظر سے مختلف لکھاریوں کے اپنے والدین پر لکھے کئی خاکے گزرے ہیں۔ مگر زیر تذکرہ خاکہ کچھ الگ ہی ڈھنگ سے لکھا گیا ہے۔ ایک بیٹے نے اپنے خوددار باپ کی زندگی کی جیسی عکاسی پیش کی ہے، اسے پڑھ کر دل سے ڈاکٹر انجم کے لیے بے اختیار دعائے مغفرت نکلتی ہے۔ یہی ایک کامیاب تحریر کا وصف ہے۔ جو دل کو چھو جائے، جو آنکھ کو نم کردے۔

سہیل انجم کے والد آخری عمر میں ضعف یادداشت کا شکار ہوگئے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع کی دل گداز منظر کشی ملاحظہ کیجیے:

ابا ڈراینگ روم میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں ہماری بھانجی شمامہ جو اس وقت یہاں آئی ہوئی تھی روم میں آئی۔ اسے دیکھتے ہی پوچھ بیٹھے: ’’یہ لڑکی کون ہے‘‘۔
بچوں نے کہا کہ آپ اس کو نہیں جانتے۔ اور ہنس کر دو تین بار پوچھ لیا۔ پھر کیا تھا مزاج بگڑ گیا۔ مگر خاموش رہے۔ اتنی دیر میں مولانا تجمل حسین ندوی جو کہ ہمارے چچا لگتے ہیں اور دہلی میں قطر ایمبیسی میں ملازمت کرتے ہیں، ملنے آگئے۔ وہ سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ابا کا پارہ چڑھا ہوا تھا مگر ہم لوگوں کو ذرا بھی شبہ نہیں ہوا۔ میں نے یوں ہی پوچھ لیا: ’’ابا ان کو پہچان رہے ہیں نا‘‘۔

بس کیا تھا جیسے دھماکہ ہو گیا۔ انتہائی غصے کے عالم میں اور تیز آواز میں بولے:
’’کون نہیں جانتا ان کو، ہیں؟ کون نہیں جانتا‘‘۔

ہم لوگ لرز کر رہ گئے۔ پھر جانے کیا کیا بولتے رہے۔ ہم لوگ سمجھ نہیں پائے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ اتنے میں مفتی جمیل احمد صاحب بھی آگئے۔ ان سے محبت سے ملے۔ مگر بہکی بہکی باتیں کرتے رہے۔ مفتی صاحب بھی پریشان کہ کیا ہو گیا ہے مولانا کو۔ مغرب کے ایکادھ گھنٹے کے بعد وہ دونوں چلے گئے۔ ابا کا موڈ اب بھی خراب۔ بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے کسی بات سے ان کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ان کو کس بات سے تکلیف پہنچی ہوگی کہ انھوں نے چہرے پر کرب کے آثار ظاہر کرتے ہوئے دھیرے سے کہا:

’’آج تک مجھے کسی بات سے ایسی تکلیف نہیں پہنچی تھی جیسی آج پہنچی ہے‘‘۔

’’ابا کس بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے‘‘۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا:

’’کیا بچوں نے کچھ کہا ہے‘‘۔ کچھ نہیں بولے، خاموش رہے۔ آنکھیں نمناک تھیں۔
’’اگر بچوں نے کچھ کہا ہے تو وہ ابھی آپ سے معافی مانگیں گے‘‘۔ اتنا کہہ کر میں نے تمام بچوں کو آواز دی۔ وہ آئے تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں سے کسی نے دادا کو کچھ کہا ہے۔ ’’نہیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا ہے‘‘۔

’’نہیں آپ لوگوں نے ضرور کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے آپ کے دادا کو تکلیف پہنچی ہے۔ آپ لوگ فوراً معافی مانگیے۔‘‘

میرے اتنا کہتے ہی سب لائن لگا کے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ ’’دادا! اگر ہم لوگوں سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کیجیے۔‘‘

بہر حال دو تین بار معافی مانگ کر بچے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ابا خاموش تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایسا لگا جیسے ان کی کیفیت یکسر تبدیل ہو گئی ہو۔ آبدیدہ ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجھ سے کہنے لگے:

’’بابو مجھے معاف کرنا میں نے تم لوگوں کو بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ دیکھو کیسے سارے بچے آکر معافی مانگ رہے ہیں۔ بیچارے بچے۔‘‘

’’نہیں ابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو ڈانٹنے اور مارنے کا آپ کا حق ہے۔ آپ کی ڈانٹ او رمار ہم لوگوں کے لیے دعا سے کم نہیں۔‘‘

کافی دیر تک رنجیدہ رہے اور بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نے آپ لوگوں کو بہت تکلیف پہنچائی مجھ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، بچے کیسے معافی مانگ رہے تھے۔ پھر بہت دیر تک ہم تمام لوگوں کو رقت آمیزی کے ساتھ دعائیں دیتے رہے۔


********

’’نقش بر آب‘‘ میں شامل زیادہ تر خاکے ایسی شخصیات پر لکھے گئے ہیں جو عام انسان ہیں، ہمارے آپ کے جیسے۔ دوران مطالعہ یہ لوگ ہمیں اپنے چاروں طرف چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ کہنے کو ایک عام آدمی ...... مگر وہ جن سے زندگی جلاِ پاتی ہے۔ جینے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔

خاکہ جتنا سادہ ہو، اتنا اچھا۔ زیب داستان سے جتنا گریز برتا جائے، اتنا بھلا۔ راقم الحروف نے ’’نقش بر آب ‘‘ مطالعے کے دوران یہی محسوس کیا۔

’’تھوڑی شرافت زیادہ شرارت ‘‘اور ’’صبر و شکر کی مورت ‘‘بھی عام لوگوں کے خاکے ہیں۔ ان کی سطر سطر دل میں اترتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں صلے کی پرواہ رہی، نہ ستائش کی تمنا ۔ یہ کہنے کو تو مصنف کے اقربا ہیں مگر کیا یہ میری اور آپ کی کہانی نہیں ہے ؟ ایک عام آدمی کی کہانی۔ خدا نہ کرے کہ ہم اور آپ خود کو ’’خاص ‘‘ لوگوں میں شمار کریں۔ ایسا کرنے سے ، ایساہو نے سے انسان اپنا آپ کھو بیٹھتا ہے۔

کتاب میں شامل ایک خاکہ ’’عقیدت کی شبنم‘‘ بھی ہے۔یہ محفوظ الرحمن کا خاکہ ہے۔ اسے راقم نے نہایت دلچسپی سے پڑھا اور محظوظ ہوا۔ مذکورہ خاکے میں نہ صرف سہیل انجم کی صحافتی زندگی کی جدوجہد کی ایک واضح شکل ابھر کر سامنے آتی ہے بلکہ دوران ملازمت ان کے ساتھیوں کی شخصیتوں سے، ان کے رویوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔ مذکورہ خاکے میں سہیل انجم ان سبھوں کو تیز روشنی میں لاتے ہیں۔

میں بوجوہ دیگر خاکوں پر بات نہیں کرنا چاہوں گا۔ ان میں شامل ہیں مولانا محمود الحسن فیضی، پروفیسر شعیب اعظمی ،محمد یوسف خاں درانی،عادل اسیر دہلوی،موہن چراغی، محمد عمر پردھان اور ظفر عدیم کے خاکے ۔ وجہ سیدھی سی ہے۔ قاری اور کتاب کے درمیان زیادہ دیر حائل ہونا کیا کوئی مناسب بات ہے ؟ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے۔

’’نقش بر آب ‘‘کی اشاعتی تفصیلات:
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
قیمت: صرف ایک سو نو روپے
کتاب ملنے کے پتے:

[۱]۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس
فون: 23216162 / 23214465

[۲]۔سہیل انجم، 370/6Aذاکر نگر، نئی دہلی 110025
فون: M. 9818195929, 9582078862
برقی پتہ سہیل انجم :sanjumdelhi@gmail.com
 
Top