سیما علی
لائبریرین
نعت رسول مقبول ﷺ
شکستہ حال اپنے دل کو سمجھانے کہاں جاتے
نہ ملتا آستاں ان کا تو دیوانے کہاں جاتے
گدا ہیں ان کے در کے بس یہی پہچان ہے اپنی
نہ ہوتے ان سے وابستہ تو پہچانے کہاں جاتے
اُنہی سے عقدہء پیچیدہ سارے حل ہوئے ورنہ
جہاں میں فلسفے جتنے بھی ہوں مانے کہاں جاتے
جھکایا سر یہاں تو سربلندی ہوگئی حاصل
یہی اک در ہے ورنہ خود پہ اِترانے کہاں جاتے
حیاتِ نو یہاں ملتی ہے اپنی جاں سے جانے میں
تو پھر اس شمع سے جاتے تو پروانے کہاں جاتے
خدا کا شکر ہے قسمت مجھے اس در پہ لے آئی
اُٹھائے بوجھ عصیاں کا مرے شانے کہاں جاتے
اُنہی سے بزمِ ہستی کی نمود و نام و آرایش
نہ ہوتے وہ اگر ہم میں تو ہم جانے کہاں جاتے
ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ
بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
وحید القادری عارف
شکستہ حال اپنے دل کو سمجھانے کہاں جاتے
نہ ملتا آستاں ان کا تو دیوانے کہاں جاتے
گدا ہیں ان کے در کے بس یہی پہچان ہے اپنی
نہ ہوتے ان سے وابستہ تو پہچانے کہاں جاتے
اُنہی سے عقدہء پیچیدہ سارے حل ہوئے ورنہ
جہاں میں فلسفے جتنے بھی ہوں مانے کہاں جاتے
جھکایا سر یہاں تو سربلندی ہوگئی حاصل
یہی اک در ہے ورنہ خود پہ اِترانے کہاں جاتے
حیاتِ نو یہاں ملتی ہے اپنی جاں سے جانے میں
تو پھر اس شمع سے جاتے تو پروانے کہاں جاتے
خدا کا شکر ہے قسمت مجھے اس در پہ لے آئی
اُٹھائے بوجھ عصیاں کا مرے شانے کہاں جاتے
اُنہی سے بزمِ ہستی کی نمود و نام و آرایش
نہ ہوتے وہ اگر ہم میں تو ہم جانے کہاں جاتے
ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ
بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
وحید القادری عارف