نظم ۔ انسان کائنات میں

Wajih Bukhari

محفلین
28 جنوری 2022
۔۔ ۰۰۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۰۰۔

دو پل گونجا خاموش عدم میں ساز مرا
کچھ گھڑیوں میں انجام ہوا آغاز مرا
پانی پہ کھچا اک خط ہے ہر اعجاز مرا
مٹ جائے گا گو دلکش ہے انداز مرا

آئے ہیں ابھی اور ابھی چلے بھی جانا ہے
کچھ پل ہیں اور پھر جامِ اجل پی جانا ہے


افتادِ فنا کا زخم بہت ہی کاری ہے
لیکن پھر بھی سوچوں کا تسلسل جاری ہے
حل کرنے کو موجود یہ دنیا ساری ہے
کس طور کروں یہ کام تو کافی بھاری ہے

اس مہلت میں آنکھوں سے حجاب اٹھتے کب ہیں
آسانی سے اسرارِ جہاں کھلتے کب ہیں


کیا کس کو خبر دنیا میں کتنی وسعت ہے
ادراک نہیں تاروں کی کیسی عظمت ہے
کیسے کوئی ذرّہ منفی ہے کوئی مثبت ہے
کتنی موجود زمان و مکان میں نسبت ہے

یہ دہر نگاہِ آدم تک محدود نہیں
انسان جہاں کا مرکز اور مقصود نہیں


یوں بستی ہے انساں کی چاند ستاروں میں
جیسے تنکا بہتا ہو بحر کے دھاروں میں
ہے ایک چمن یہ ارض کئی گلزاروں میں
کچھ خاص نہیں ہے یہ دھرتی سیاروں میں

شاید ہم جیسے بھی بستے ہوں اور کہیں
اپنی ہستی پر جو کرتے ہوں غور کہیں
 
بہت خوب ۔۔۔
بہت طویل عرصہ بعد جلوہ افروز ہوئے ۔۔۔ امید ہے کہ سب خیریت رہی ہوگی۔
اس مہلت میں آنکھوں سے حجاب اٹھتے کب ہیں
آسانی سے اسرارِ جہاں کھلتے کب ہیں
اس شعر بھی میں قوافی کی رعایت رکھی جاتی روانی مزید بہتر ہو جاتی۔
 
Top