نظم: یادِ وطن

احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
حال ہی میں ظہیراحمدظہیر بھائی کی نظم ’ترکِ وطن‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور مجھے اپنی ایک پرانی نظم یاد آ گئی . یہ نظم کوئی بیس سال پرانی ہے ، یعنی تب کی جب مجھے امریکہ آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا . میری ناچیز کاوش کا مزاج اور معیار ظہیر بھائی کی اعلیٰ تخلیق جیسا تو نہیں ہے ، لیکن دیکھیے شاید کسی قابل ہو .

یادِ وطن

اے وطن، ایک غریب الوطن انساں کا سلام

آج پِھر سینے میں چپکے سے تری یاد آئی
اُڑ چلی گرد ، جمی تھی جو گئے سالوں پر
دل میں طوفان خیالوں کا اُٹھا پھر اک بار
بہہ چلے اشک پِھر اک بار مرے گالوں پر

ذہن پِھر عمرِ گذشتہ کی طرف جا نکلا
رنگ پہچانے ہوئے یاد میں لہرانے لگے
نقش ہیں جو مرے احساس کی دیواروں پر
وہ مناظر مجھے پِھر آج نظر آنے لگے

وہ پہاڑ اور ہرے پیڑ، وہ جھیلیں تیری
جس میں پروان چڑھا میں وہ دِل آویز فضا
پہلی برسات میں بھیگی ہوئی مٹی کی مہک
جو مرے خوں میں گھلی ہے وہ تری آب و ہوا

میلا لگتا تھا جو ہر سال وہاں جاڑوں میں
کبھی اتوار کا بازار ، کبھی بدھ کی ہاٹ
تازہ جامن وہ مزےدار ، وہ امرود ، وہ آم
مونگ پھلیاں ، وہ جلیبی ، وہ سموسے ، وہ چاٹ

کھیت کے کام میں مشغول کسان اور مزدور
اور امید سے روشن وہ نگاہیں ان کی
عاجزی سے وہ چمکتے ہوئے چہرے ان كے
وہ پسینے سے دمکتی ہوئی باہیں ان کی

وہ کسی دوست کی شادی ، کسی دولہے کی برات
بینڈ باجوں کی وہ آواز ، وہ دھن ، وہ گانے
اور وہ اپنے محلّے كے کسی گھر کی غمی
ساتھ میّت کو لیے اپنوں كے ، وہ بیگانے

عید كے کپڑے نئے ، وہ دئے دیوالی كے
وہ سویّاں ، وہ مٹھائی ، وہ مرغّن كھانا
بھول کر شکوے گلے ہاتھ ملانا سب کا
آمد و رفت وہ یاروں کی ، وہ گھر گھر جانا

کسی مندر میں کھنکتی ہوئی گھنٹی کی صدا
اور وہ دور سے آتی ہوئی آوازِ اذاں
مل كے دونوں کا ہوا کرتا تھا کیا خوب اثر
کیسا دلکش تھا ، قسم سے ، تری شاموں کا سماں

اے وطن ، دور تو ہوں تجھ سے مگر دور نہیں
پاس میرے تری یادوں کا دیا جلتا ہے
کام دنیا كے جو آنے نہ دیں تجھ تک تو کیا
تیری یادیں ہیں بہت، کام مرا چلتا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی نظم ہے ، عرفان بھائی !
شروع کے دو بند خصوصاً پسند آئے ۔ اس نظم سے مجھے کچھ ایسا تاثر ملتا ہے کہ آپ کی عمر کا اولیں دور شاید کسی گاؤں میں گزرا ۔ منظر نگاری خوب ہے۔
 
بہت خوب! اچھی نظم ہے ، عرفان بھائی !
شروع کے دو بند خصوصاً پسند آئے ۔ اس نظم سے مجھے کچھ ایسا تاثر ملتا ہے کہ آپ کی عمر کا اولیں دور شاید کسی گاؤں میں گزرا ۔ منظر نگاری خوب ہے۔
ظہیر بھائی ، حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ ! آپ کا قیاس درست ہے . میرا بچپن ایک چھوٹے سے قصبے اور گاؤں میں گزرا . اب تو وہاں کی شکل و صورت بَدَل گئی ہے ، لیکن میری یاد داشت میں وہ اپنی اصل صورت میں قائم ہیں .
 
آخری تدوین:
بہت خوب عرفان بھائی ۔۔۔ بہت اچھی اور رواں منظر نگاری ہے۔
نظم پڑھ کر مجھے اپنے مرحوم تایا کی یاد آگئی کہ وہ بھی اکثر اپنے آبائی شہر شاہجہاں پور کو ایسے ہی یاد کیا کرتے تھے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
حال ہی میں ظہیراحمدظہیر بھائی کی نظم ’ترکِ وطن‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور مجھے اپنی ایک پرانی نظم یاد آ گئی . یہ نظم کوئی بیس سال پرانی ہے ، یعنی تب کی جب مجھے امریکہ آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا . میری ناچیز کاوش کا مزاج اور معیار ظہیر بھائی کی اعلیٰ تخلیق جیسا تو نہیں ہے ، لیکن دیکھیے شاید کسی قابل ہو .

یادِ وطن

اے وطن، ایک غریب الوطن انساں کا سلام

آج پِھر سینے میں چپکے سے تری یاد آئی
اُڑ چلی گرد ، جمی تھی جو گئے سالوں پر
دل میں طوفان خیالوں کا اُٹھا پھر اک بار
بہہ چلے اشک پِھر اک بار مرے گالوں پر

ذہن پِھر عمرِ گذشتہ کی طرف جا نکلا
رنگ پہچانے ہوئے یاد میں لہرانے لگے
نقش ہیں جو مرے احساس کی دیواروں پر
وہ مناظر مجھے پِھر آج نظر آنے لگے

وہ پہاڑ اور ہرے پیڑ، وہ جھیلیں تیری
جس میں پروان چڑھا میں وہ دِل آویز فضا
پہلی برسات میں بھیگی ہوئی مٹی کی مہک
جو مرے خوں میں گھلی ہے وہ تری آب و ہوا

میلا لگتا تھا جو ہر سال وہاں جاڑوں میں
کبھی اتوار کا بازار ، کبھی بدھ کی ہاٹ
تازہ جامن وہ مزےدار ، وہ امرود ، وہ آم
مونگ پھلیاں ، وہ جلیبی ، وہ سموسے ، وہ چاٹ

کھیت کے کام میں مشغول کسان اور مزدور
اور امید سے روشن وہ نگاہیں ان کی
عاجزی سے وہ چمکتے ہوئے چہرے ان كے
وہ پسینے سے دمکتی ہوئی باہیں ان کی

وہ کسی دوست کی شادی ، کسی دولہے کی برات
بینڈ باجوں کی وہ آواز ، وہ دھن ، وہ گانے
اور وہ اپنے محلّے كے کسی گھر کی غمی
ساتھ میّت کو لیے اپنوں كے ، وہ بیگانے

عید كے کپڑے نئے ، وہ دئے دیوالی كے
وہ سویّاں ، وہ مٹھائی ، وہ مرغّن كھانا
بھول کر شکوے گلے ہاتھ ملانا سب کا
آمد و رفت وہ یاروں کی ، وہ گھر گھر جانا

کسی مندر میں کھنکتی ہوئی گھنٹی کی صدا
اور وہ دور سے آتی ہوئی آوازِ اذاں
مل كے دونوں کا ہوا کرتا تھا کیا خوب اثر
کیسا دلکش تھا ، قسم سے ، تری شاموں کا سماں

اے وطن ، دور تو ہوں تجھ سے مگر دور نہیں
پاس میرے تری یادوں کا دیا جلتا ہے
کام دنیا كے جو آنے نہ دیں تجھ تک تو کیا
تیری یادیں ہیں بہت، کام مرا چلتا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ

ماشاء اللہ بہت خوب علوی صاحب۔نظم پڑھ کر آنکھیں نم ہو گئیں ۔پڑھتے ہوئے یوں لگا میں بھی امریکہ میں ہوں اور وطن کو یاد کر رہا ہوں ،پھر اچانک نظم ختم ہو گئی اور اب یوں ہے کہ میں وطن میں ہوں اور امریکہ کو یاد کر رہا ہوں۔
بہت عمدہ جذبات کا اظہار کیا علوی صاحب! بہت خوب منظر کشی ہے۔نظم سے آپ کی وطن سے محبت صاف جھلک رہی ہے۔دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو واپس وطن لوٹنے کی خیر و عافیت سے توفیق عطا فرمائے کہ جس کی محبت آپ کے دل میں سمائی ہوئی ہے۔آمین

نظم چونکہ بیس سال پرانی ہے اور شاید آپ بھی اس کے قائل ہیں کہ اس میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تاکہ شاعر کے شعری ارتقا کو اس کی تخلیقی کاوشوں میں دیکھا جا سکے ۔بہرحال نظم کے تین مصارع پڑھنے میں کچھ زیادہ ہی کھٹک رہے ہیں سوچا نشاندہی کر دوں ۔

ایک تو ابتدائے نظم کا دوسرا مصرع دیکھیں:

"آج پِھر سینے میں چپکے سے تری یاد آئی"
"سینے میں" اور "چپکےسے" دونوں تراکیب بھرتی کی محسوس ہوتی ہیں کہ یاد تو سینے میں ہی آئے گی ۔ اور پھر چپکے سے یاد تو ان کاموں کی آئے گی جو چپکے سے کیے جائیں۔وطن کی یاد کا چپکے سے آنا نہ صرف جچ نہیں رہا بلکہ اگلے مصرع میں کھپ بھی نہیں رہا۔
یہ مصرع صاف محسوس ہوتا ہے فیض کے شعر سے متاثر ہے :

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

جبکہ فیض نے اگر "دل میں" یاد آئی کہا بھی ہے تو یہاں "دل میں " بھرتی نہیں کہ اگلے مصرع میں اس کی رعایت سے "ویرانے میں " لا کر اس اضافی ترکیب کا اچھا مصرف کیا گیا ہے اور پہلے مصرع میں "کھوئی ہوئی " کی رعایت سے دوسرے مصرع میں "چپکے سے " لا کر ایک کھوئی ہوئی چیز کا چپکے سے آجانے کا حسین تاثر دیا گیا ہے جبکہ آپ کے مصرع کے اردگرد ایسا کچھ انتظام نہیں سو یہ الفاظ زائد از ضرورت محسوس ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ وسط نظم کا ایک بیت دیکھیں:

تازہ جامن وہ مزےدار ، وہ امرود ، وہ آم
مونگ پھلیاں ، وہ جلیبی ، وہ سموسے ، وہ چاٹ

یہاں بھی "وہ مزیدار " کے علاوہ آگے ہر لفظ سے پہلے "وہ" کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔

یہ وہ باتیں ہیں جو میں بادل نخواستہ کر ہی دیتا ہوں اگر چہ باقی ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ اس سیکشن میں آتے ہوئے کٹہرے میں حلف لے کر آتے ہیں کہ جو کہوں گا واہ واہ ہی کہوں گا ،واہ واہ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔ لہذا یہ گندی باتیں کرنے کو ایک ناشائستہ و ناہنجار میں ہی رہ گیا ہوں۔معذرت خواہ ہوں ۔
 
بہت خوب عرفان بھائی ۔۔۔ بہت اچھی اور رواں منظر نگاری ہے۔
نظم پڑھ کر مجھے اپنے مرحوم تایا کی یاد آگئی کہ وہ بھی اکثر اپنے آبائی شہر شاہجہاں پور کو ایسے ہی یاد کیا کرتے تھے۔
بہت نوازش ، راحل صاحب ! علیگڑھ میں میرے ایک عزیز دوست کا تعلق شاہجہاں پور سے تھا . ان سے وہاں کا ذکر اکثر سنا ہے ، اور میں آپ كے تایا صاحب كے تاثرات سمجھ سکتا ہوں .
 
ماشاء اللہ بہت خوب علوی صاحب۔نظم پڑھ کر آنکھیں نم ہو گئیں ۔پڑھتے ہوئے یوں لگا میں بھی امریکہ میں ہوں اور وطن کو یاد کر رہا ہوں ،پھر اچانک نظم ختم ہو گئی اور اب یوں ہے کہ میں وطن میں ہوں اور امریکہ کو یاد کر رہا ہوں۔
بہت عمدہ جذبات کا اظہار کیا علوی صاحب! بہت خوب منظر کشی ہے۔نظم سے آپ کی وطن سے محبت صاف جھلک رہی ہے۔دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو واپس وطن لوٹنے کی خیر و عافیت سے توفیق عطا فرمائے کہ جس کی محبت آپ کے دل میں سمائی ہوئی ہے۔آمین
یاسر بھائی ، پذیرائی كے لیے بے حد ممنون ہوں . بہت شکریہ !
نظم چونکہ بیس سال پرانی ہے اور شاید آپ بھی اس کے قائل ہیں کہ اس میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تاکہ شاعر کے شعری ارتقا کو اس کی تخلیقی کاوشوں میں دیکھا جا سکے ۔بہرحال نظم کے تین مصارع پڑھنے میں کچھ زیادہ ہی کھٹک رہے ہیں سوچا نشاندہی کر دوں ۔
ایک تو ابتدائے نظم کا دوسرا مصرع دیکھیں:
"آج پِھر سینے میں چپکے سے تری یاد آئی"
"سینے میں" اور "چپکےسے" دونوں تراکیب بھرتی کی محسوس ہوتی ہیں کہ یاد تو سینے میں ہی آئے گی ۔ اور پھر چپکے سے یاد تو ان کاموں کی آئے گی جو چپکے سے کیے جائیں۔وطن کی یاد کا چپکے سے آنا نہ صرف جچ نہیں رہا بلکہ اگلے مصرع میں کھپ بھی نہیں رہا۔
یہ مصرع صاف محسوس ہوتا ہے فیض کے شعر سے متاثر ہے :
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جبکہ فیض نے اگر "دل میں" یاد آئی کہا بھی ہے تو یہاں "دل میں " بھرتی نہیں کہ اگلے مصرع میں اس کی رعایت سے "ویرانے میں " لا کر اس اضافی ترکیب کا اچھا مصرف کیا گیا ہے اور پہلے مصرع میں "کھوئی ہوئی " کی رعایت سے دوسرے مصرع میں "چپکے سے " لا کر ایک کھوئی ہوئی چیز کا چپکے سے آجانے کا حسین تاثر دیا گیا ہے جبکہ آپ کے مصرع کے اردگرد ایسا کچھ انتظام نہیں سو یہ الفاظ زائد از ضرورت محسوس ہو رہے ہیں۔
یہ مصرعہ کہتے وقت فیض کا شعر ذہن میں نہیں تھا . ممکن ہے غیر اِرادی طور پر میری فکر متاثر ہوئی ہو . آپ کا نکتہ قابل غور ہے . میری ناچیز رائے میں کسی کو قصداََ بھی یاد کیا جا سکتا ہے اور کسی کی یاد خود بخود بھی آ سکتی ہے . میرے یہاں دوسری صورت کا گزر تھا اور اسی لیے میں نے ’چپکے‘ کا استعمال کیا ہے .
اس کے علاوہ وسط نظم کا ایک بیت دیکھیں:
تازہ جامن وہ مزےدار ، وہ امرود ، وہ آم
مونگ پھلیاں ، وہ جلیبی ، وہ سموسے ، وہ چاٹ
یہاں بھی "وہ مزیدار " کے علاوہ آگے ہر لفظ سے پہلے "وہ" کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔
آپ کی رائے سَر آنكھوں پر !
یہ وہ باتیں ہیں جو میں بادل نخواستہ کر ہی دیتا ہوں اگر چہ باقی ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ اس سیکشن میں آتے ہوئے کٹہرے میں حلف لے کر آتے ہیں کہ جو کہوں گا واہ واہ ہی کہوں گا ،واہ واہ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔ لہذا یہ گندی باتیں کرنے کو ایک ناشائستہ و ناہنجار میں ہی رہ گیا ہوں۔معذرت خواہ ہوں ۔
یاسر بھائی ، معلوم نہیں آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ دیگر احباب تنقید سے پرہیز کرتے ہیں . میری نگاہ سے تو ان كے تنقیدی خطوط گزرتے رہتے ہیں . اور اگر چند مخصوص احباب كے ایسے تبصرے نظر نہیں آتے تو اس كے دو سبب ہو سکتے ہیں . اول تو یہ کہ ان کا نظریہ مختلف ہو سکتا ہے ، اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ ہر قاری شعر کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے . دوم یہ کہ اُنہیں وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے ( میں خود اِس مسئلے سے دو چار رہتا ہوں . ) خیر ، آپ اوروں کو چھوڑیں اور یہ کار خیر جاری رکھیں . :) مجھے آپ کے تبصروں میں فکر كے نئے پہلو نظر آتے ہیں ، اور اِس لیے میں آپ كے تبصروں کا خیر مقدم کرتا ہوں .
 
آخری تدوین:
Top