نظم: کیا لکھوں ،کیسے لکھوں

ن

نامعلوم اول

مہمان
کیا لکھوں، کیسے لکھوں

کیا لکھوں، کیسے لکھوں
لفظ مٹھی میں مقیّد ہیں مگر
اک پری نام رکھیں جس کا خیال
ہاتھ آتی نہیں ہر چند مری فکرِ رسا
نت نئے معرکے سر کرنے کی عادی ہے بہت
آج کچھ بات ہے ایسی کہ مری سوچ کے پر
چُور ہیں لائقِ پرواز نہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
واہ، یہی حال عرصے سے ہمارا بھی ہے!! شاید چار سال سے ایک شعر بھی واد نہیں ہوا۔
محفل میں داخل ہوئے محض دو چار دن ہوئے ہیں۔ مگر طبیعت ایسی کھلی ہے کہ آج چار سال بعد صبح اٹھنے کے بعد بستر میں ہی ایک شعر وارد ہوا جس سے غالب کی زمین میں کہی ایک پرانی نا مکمل غزل بھی مکمل ہو گئی۔ گویا مزے ہی مزے۔ اس پر مستزاد کہ اپنی جنم بھومی "مستونگ" کو بھی آج یاد کر رہا تھا۔ کسی نے مستونگ کی کچھ تصویروں کا لنک دیا۔ان میں کی ایک تصویر ایسی نکلی کہ سر تا سر اس شعر کی تعبیر! اتفاق کہوں کہ القاءِ غیبی؟ آپ خود دیکھیے: (باقی غزل اس لنک پر)

ptCZBUz.jpg
 
Top