نظم: پیغامِ آخر

پیغامِ آخر!

مجھے ایک بار جو وہ کہہ گیا کہ "ملوں گا تم سے میں بعد میں۔"
تو نجانے کتنے گزر گئے
شب و روز و ماہ و سال یوں
کہ ہوں اب تلک میں اسی طرح
تب و تابِ انتظار میں!

نہ وہ مڑ کہ آیا مری سمت پھر
نہ ہی میں نے اس کا گلا کیا
کہ وہ کہہ گیا تھا کہ وہ آئے گا اور ملے گا مجھ سے وہ بعد میں
کہ مجھے تھا اسکی بات پر
کل اعتبار!

تو میں یہ سمجھتا ہوں ہر گھڑی
کہ وہ آ ہی جائے گا اس گھڑی
لیکن اس کا کوئی نشاں نہیں

لیکن اسکا کوئی نشاں نہیں!
 

الف عین

لائبریرین
اجازت تو درست ہے لیکن مثلاً اس کو کس طرض تقطیع کرو گے
شب و روز و ماہ و سال یوں
شب و روز و ما متفاعلن
ہ و سال یوں
؟؟؟
 
Top