عزیز حامد مدنی نظم : نیند - عزیز حامد مدنی

نیند
نیند کے حاشیے پہ افسانے
شپرک کی طرح ہیں آویزاں
چند بے برگ و بار ویرانے
بادلوں کی طرح ہیں چھائے ہوئے
چند اترے ہوئے خنک چہرے
ایک بارِ سکوت اٹھائے ہوئے
پتھروں کے مہیب گرزِ گراں
استخوانوں کے چند دھندلے ڈھیر
اور افق پر کراہتا سا دُھواں

داستاں رہ سپار صدیوں کی
سینۂ کوہ و دشت میں اب تک
راکھ ہے بے شمار صدیوں کی
کچھ صلیبوں سے خوں ٹپکتا ہوا
وقت ہے اک سوال کی صورت
جسم کے کرب میں لٹکتا ہوا
پتھروں کی فصیل کے اس پار
اُگ رہے ہیں زمیں کے سینے سے
زنگ خوردہ ڈراؤنے اوزار

چاند پچھلے پہر نکلتا ہوا
اک اُجالا اداس آسیبی
رات کے دامنوں پہ چلتا ہوا
خشکیوں کی حدیث کہتی ہوئی
وقت کی خفتہ پا ندی جیسے
بے جہت بے خرام بہتی ہوئی
عزیز حامد مدنی
1951ء
 
آخری تدوین:
Top