نظم صدائے ہو

وہ جو دنیا سے ہوا بیگانہ لیٹا فٹ پاتھ پہ نشے میں ہے
اجڑی اجڑی سی اس کی زلفیں ہیں، ادھڑا ادھڑا سا اس کا چہرہ ہے، گندمی اس کا رنگ مائل ہے، نین اس کے بہت نشیلے ہیں، گندمی اس کا رنگ مائل ہے، رنگ اس میں ہزار ہیں لیکن، ایک ہی رنگ میں وہ بکھرا ہے

آنسووں کا وہ ایک ریلا ہے، غم کا وہ سائباں اکیلا ہے،
دنیاداری کے اس جھمیلے میں، سو رہا وہ بہت اکیلا ہے

تار دامن پھٹے ہوئے کپڑے، بجھتی سیگریٹ وہ ہاتھ میں لے کر، شب کے تاریک گھپ اندھیرے میں،
بھینی بھینی سی وہ ہواوں میں، رقص کرتی ہوئی فضاوں میں، ہو صداوں میں وہ لگاتا ہے،

اللہ اللہ کی صدا سن کر، رک گیا میں بڑی حیرانی سے،
ناک منہ کو لپیٹ کر شمسی سوچتا جا رہا ہے حیرت سے،
وہ نشے میں درود پڑھتا ہے، وہ نشے میں سلام کرتا ہے
ہاتھ میں ناک سے ہٹا کر بس محو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں،

وہ جو اللہ کی صدائیں تھیں، کان سے میرے جا کے ٹکرائیں
تہہ دل میں وہ ہو کی آوازیں، رقص کا سا سمان کرنے لگیں

وہ نشے میں بھی مبتلا ہو کر اپنے مالک کو ہی پکارتا ہے، اس کا میں کیا مقام جانوں گا، اس کا مالک مکان جانتا ہے

جس نے اس کو یہاں بٹھایا ہے، جس نے اس کو یہاں پہ رکھا ہے

وہی اس کا مقام جانتا ہے
وہ ہی اس کا مقام جانتا ہے
وہی اس کا مقام جانتا ہے
قیس زمان شمسی

28277387_1402483916522798_8567662440121576062_n.jpg
 
Top