نظم: سرمائی بارش میں بحرِ ابدیت کی جانب نصیر احمد ناصر

لاريب اخلاص

لائبریرین
سرمائی بارش کی آواز
زمانوں دُور لے جاتی ہے
آبائی راستوں سے گزرتے ہوئے
قدموں کی آواز سنائی نہیں دیتی
وقت زمین کو آگے کی طرف دھکیلتا رہتا ہے
لیکن مٹی اپنی جگہ نہیں چھوڑتی
ایک مکان سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے تک
ڈمپر اور مشینیں تھک جاتی ہیں
گزرے وقتوں کے خلا نہیں بھرتے
سفالینہ کا رنگ تہذیبوں کی طرح گہرا
اور صحنچی میں لگی اینٹوں سے زیادہ پختہ ہوتا ہے
درختوں اور فصلوں کی شاعری
صرف ہوا پڑھ سکتی ہے
جو دروازوں، دریچوں، درزوں
اور دلوں سے
دبے پاؤں گزرتی ہے
یا رنگین چونچوں اور پروں والے پرندے
جو رات کے گھنے جنگلوں میں
صبح دم چہچہانے کے لیے
دم سادھے پڑے رہتے ہیں
دن بھر دانہ چگتے، جفتی کرتے
اور گھونسلوں اور کھوڑوں میں انڈے سیتے ہیں
یا ارضیہ جیسی کوئی چیز
جو اندر ہی اندر سر سر کرتی
عمروں اور لفظوں کی خاموشی تک چاٹ جاتی ہے
اور بچے کمروں میں
اندھیرے کی لوری سن کر
جھوٹ موٹ آنکھیں بند کر لیتے ہیں
اور خدا اور باپ دونوں تنہا ہوتے ہیں
جو غیر مرئی اونگھ میں بھی جاگتے رہتے ہیں
دکھائی نہ دینے والے آنسوؤں کی چاپ
سنائی دیے بغیر آتی رہتی ہے
اور پانی بند کھڑکی کے شیشوں پر
بے آواز گرتا چلا جاتا ہے
اور بارش ہوتی رہتی ہے
دیر تک اور دور تک
اور ایک درد کا دریا
بحرِ ابدیت کی جانب بہتا رہتا ہے
اور زمانے گزرتے چلے جاتے ہیں
آتش دان کے پاس
جھولا کرسی (راکنگ چیئر) پر
کوئی جھولتے جھولتے سو جاتا ہے!
نصیر احمد ناصر
 
Top