نظم (سردیوں کی ایک دوپہر)

اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

سرد موسم کی سہانی دوپہر کی دھوپ میں
چار سُو پھیلا ہوا ہے اک سنہری سا غُبار

لہلہاتی ڈالیوں پر سرخ پیلے پھول ہیں
سج گئی ہے رنگ و بُو سے یہ فضائے مُشک بار

ناچتی گاتی گلوں کو چُومتی ہیں تتلیاں
جیسے گلشن کی فضا کا اُن پہ چھایا ہو خُمار

چہچہاتی بلبلیں ہیں گنگناتی کوئلیں
ان کی موسیقی سے جیسے گونجتا ہے مرغزار

خُوبصورت لگ رہی ہے جی کو للچاتی ہوئی
مالٹوں سے لد گئے پیڑوں کی لمبی سی قطار

روح میں ہے تازگی ایسے سرایت کر گئی
خُشک مٹی پر پڑی ہو جیسے بارش کی پھوہار
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سج گئی ہے رنگ و بُو سے یہ فضائے مُشک بار
یہ تو عجیب لگتا ہے، فضا کا رنگ و بو سے سج جانا!
روح میں ہے تازگی ایسے سرایت کر گئی
روانی کی کمی ہے۔
تازگی کچھ یوں سرایت کر گئی ہے روح میں
یا کچھ اور مصرع سے بدل دیا جائے
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 
سرد موسم کی سہانی دوپہر کی دھوپ میں
چار سُو پھیلا ہوا ہے اک سنہری سا غُبار
لہلہاتی ڈالیوں پر سرخ پیلے پھول ہیں
سج گئی ہے رنگ و بُو سے یہ فضائے مُشک بار
ناچتی گاتی گلوں کو چُومتی ہیں تتلیاں
جیسے گلشن کی فضا کا اُن پہ چھایا ہو خُمار
چہچہاتی بلبلیں ہیں گنگناتی کوئلیں
ان کی موسیقی سے جیسے گونجتا ہے مرغزار
خُوبصورت لگ رہی ہے جی کو للچاتی ہوئی
مالٹوں سے لد گئے پیڑوں کی لمبی سی قطار
مالٹوں سے سب لدےپیڑوں کی لمبی سی قطار/مالٹوں سے وہ لدے پیڑوں کی لمبی سی قطار
روح میں ہے تازگی ایسے سرایت کر گئی
خُشک مٹی پر پڑی ہو جیسے بارش کی پھوہار
اور اِس عالم میں دل کو ہے تو بس ہے ایک چاہ
وہ بھی آجائے تو بڑھ جائے یہ رونق یہ نکھار
 
آخری تدوین:
سج گئی ہے رنگ و بُو سے یہ فضائے مُشک بار
یہ تو عجیب لگتا ہے، فضا کا رنگ و بو سے سج جانا!
اور گلابوں سے ہے مہکی یہ فضائے مُشک بار
روح میں ہے تازگی ایسے سرایت کر گئی
روانی کی کمی ہے۔
تازگی کچھ یوں سرایت کر گئی ہے روح میں
یا کچھ اور مصرع سے بدل دیا جائے
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
سر الف عین صاحب! آپ کی تجویز ہی درست ہے
 
سرد موسم کی سہانی دوپہر کی دھوپ میں
چار سُو پھیلا ہوا ہے اک سنہری سا غُبار
لہلہاتی ڈالیوں پر سرخ پیلے پھول ہیں
سج گئی ہے رنگ و بُو سے یہ فضائے مُشک بار
ناچتی گاتی گلوں کو چُومتی ہیں تتلیاں
جیسے گلشن کی فضا کا اُن پہ چھایا ہو خُمار
چہچہاتی بلبلیں ہیں گنگناتی کوئلیں
ان کی موسیقی سے جیسے گونجتا ہے مرغزار
خُوبصورت لگ رہی ہے جی کو للچاتی ہوئی
مالٹوں سے لد گئے پیڑوں کی لمبی سی قطار
مالٹوں سے سب لدےپیڑوں کی لمبی سی قطار
روح میں ہے تازگی ایسے سرایت کر گئی
خُشک مٹی پر پڑی ہو جیسے بارش کی پھوہار
اور اِس عالم میں دل کو ہے تو بس ہے ایک چاہ
وہ بھی آجائے تو بڑھ جائے یہ رونق یہ نکھار
شکریہ جناب شکیل احمد خان23 صاحب آخری شعر عطا کرنے پر۔
 
Top