فراز نظم - تخلیق ( احمد فراز)

درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں

زخم دل جاگ سکے ، نشتر غم رقص کرے

جو بھی سانسوں میں گھلا ھے اسے عریاں نہ کرو

چپ بھی شعلہ ھے مگر کوئی نہ الزام دھرے
ا
یسے الزام کہ خود اپنے تراشے ھوئے بت

جذبہ کاوش خالق کو نگوں سار کرے

مو قلم حلقہ ابرو کو بنا دے خنجر

لفظ نوحوں میں رقم مدح رخ یار کریں

رقص مینا سے اٹھے نغمہ رقص بسمل

ساز خود اپنے مغنی کو گنہگار کریں

مرہم اشک نہیں زخم طلب کا چارہ

خوں بھی روئے گا تو کس خاک کی سج دھج ھو گی

کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ھوئی بنیادوں پر

جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ھو گی

کوئی پتھر ھو کہ نغمہ کوئی پیکر ھو کہ رنگ

جو بھی تصویر بناؤ گے اپاہج ھو گی
 
Top