احمد ندیم قاسمی نظم بھونچال

کرۂ ارض کی مانند ہے انساں کا وجود
سطح پر پھول ہیں، سبزہ ہے خنک چھاؤں ہے
برف ہے چاند ہے رات ہے خاموشی ہے
اور بادل جو فضاؤں میں رواں ہیں چپ چاپ
دور سے موتیے کے ڈھیر نظر آتے ہیں
اور باطن میں گرجتا ہے وہ لاوا جس سے
زلزلے آتے ہیں کہسار چٹخ جاتے ہیں
کس کو فرصت ہے کہ اک پل کو ٹھنک کر سوچے
لبِ دریا جو یہ معصوم سا اک گاؤں ہے
اس کے نیچے وہ جہنم ہے کہ جب جاگے گا
آدمی اپنے ہی پیکر سے نکل بھاگے گا
کرۂ ارض کی مانند ہے انساں کا وجود

کس کو معلوم کہ رعنائی تن کے اس پار
کون جانے کہ دمکتے ہوئے عارض سے ادھر
نکہتِ گیسو و شیرینئ لب کے پیچھے
حسنِ تہذیب و تمدن سے ذرا سا ہٹ کر
ذہن کے آتشیں سیال میں پڑتے ہیں بھنور
اس کے رستے میں کوئی فلسفہ حا ئل ہو اگر
قدریں تھراتی ہیں معیار الٹ جاتے ہیں
اور اس زلزلۂ فکر و نظر سے ہر بار
کتنے دیوانے روایت سے دغا کرتے ہیں
کتنے بت ٹوٹتے ہیں کتنے خدا مرتے ہیں
 
Top