نظم: ایک مکالمہ

عزیزان گرامی اور معزز اساتذۂ کرام، آداب!

ایک پرانی (آزاد) نظم بعنوان ’’ایک مکالمہ‘‘ آپ سب کی بصارتوں کی نذر کررہا ہوں۔ امید ہے احباب توجہ فرمائیں گے اور اپنی قیمتی آراء سے نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مکالمہ

ہوا ایسا اچانک ایک دن
اس نے کہا مجھ سے
مجھے تم سے محبت ہے!
ذرا چونکا میں،
اور اس سے کہا
تم کو خبر ہے کچھ، کہ تم کیا کہہ رہی ہو یہ؟
کبھی تم نے بھلا دیکھی ہے راتوں کی سیہ بختی؟
کبھی پندرہ کے افسردہ سے گھٹتے چاند کے دکھ کو بھی سمجھا ہے؟
یا پھر
کیا رتجگوں میں کرب ہوتا ہے، کبھی تم نے یہ جانا ہے؟

یہ سن کر ایک پل خاموش رہ کر یہ کہا اس نے
کہ ہاں یہ ٹھیک ہے میں نے کبھی شب کی سیہ بختی نہیں دیکھی
مگر،
دن کے اجالوں میں یہ جانا ہے
محبت نکھری نکھری ہے!
کبھی پندرہ کے گھٹتے چاند کے دکھ کو نہیں سمجھا
مگر چودہ کے اجلے چاند سے
آنکھوں کو جب بھی خیرہ کرتی ہوں
تمہارا عکس دکھتا ہے
کبھی بھی رتجگوں کے کرب کو جانا نہیں میں نے
مگر جاناں
مری نیندوں میں، خوابوں کی حسیں سب وادیوں میں
بس تمہارا، بس تمہارا لمس ہوتا ہے
مرے ہمدم!
حصارِ خودپرستی سے نکل کر تم اگر سوچو
تو یہ بھی ایک انداز محبت ہے!
 
آخری تدوین:
خوبصورت نظم محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی داد قبول فرمائیے۔

بس درج ذیل مصرع کو تبدیل فرمالیجیے کہ دکھتا کوئی لفظ نہیں۔ یہاں شاید "نظر آتا " کا محل ہے۔



تمہارا عکس ہی دیکھوں
محترم خلیل صاحب، آداب!
داد و پذیرائی کے لئے احسان مند ہوں۔ آپ نے نہایت مفید مشورہ عنایت کیا، اس کے لئے خصوصی شکریہ، جزاک اللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 
بہت شکریہ وجیہہ صاحب، پذیرائی کے لئے شکرگزار ہوں۔

آخری دومصرعوں کی بابت آپ نے دریافت فرمایا ہے۔ نظم کے تسلسل کے تناظر میں دیکھیں تو جس سے مکالمہ کیا گیا ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ لازم نہیں کہ محبت ہمیشہ احساس غم، دکھوں اور کرب سے ہی عبارت ہو، کسی کے لئے یہ خوشی و سرشاری کا پیغام بھی لاسکتی ہے، اور مخطوب کی محبت کچھ ایسی ہی ہے۔ شاعر کو اپنا کو اپنی ذات سے باہر جھانک کر اپنا "وژن" وسیع کرنے کی ضرورت ہے :)

دعاگو،
راحل۔
 
Top