نظم: ایک منظر ایک فسانہ!

ایک منظر ایک فسانہ!
شام ہوتی ہے تو رخ کو جانبِ در موڑ کر
ہاتھ میں سگریٹ لے کر، سلسلوں کو جوڑ کر
فکر کو آزاد کر کے یوں تخیل پر کمند
ڈال دیتا ہوں کہ میرے نین ہوجاتے ہیں بند
فکر سے دنیا کی جب آزاد ہو جاتی ہے روح
ڈوبتا، تھمتا نظر آتا ہے گو طوفانِ نوح
پھر ہوا چلتی ہے کم کم، اور اٹھتا ہے دھواں
اور دھویں کے ساتھ عاشق کی صدائے الاماں
پھر بہت ہی دور اک تصویر بنتی ہے وہاں
جس کو چھو سکتا ہے بس اک ٹھیٹ شاعر کا گماں
گٹھنیوں بڑھتا ہوں اس سو جب گماں کے راستے
کھلنے لگتے ہیں خموشاں وادیوں میں مے کدے
کتنے ہی آجاتے ہیں پھر رند اور ساقی وہاں
ہر طرف اک غول ہوتا ہے وہاں دیکھو جہاں
کچھ قریب آتا ہوں جیسے ہی تو رہ جاتا ہوں دنگ
اڑنے لگتے ہیں مرے اوہام کی دنیا سے رنگ
دیکھتا کیا ہوں کہ اس تصویر میں ہو جیسے تو!
نقش بھی ویسا ہی تیکھا، اور وہی ہے رنگ مو
ہاتھ جیسے ہی گلے لگنے کو پھیلاتا ہوں میں
دیکھ کر اطراف کو پھر دنگ رہ جاتا ہوں میں
پھر وہی کرسی، وہی سگریٹ اور تیرا خیال
پھر وہی تیرے نہ ہاتھ آنے کا پس ماندہ ملال

مہدی نقوی حجازؔ
بہت عمدہ، بہت ہی عمدہ، اتنی عمدہ منظر کشی، آپ نے تو تصور میں اپنا ہم رکاب کر دیا گویا۔
 
بہت عمدہ، بہت ہی عمدہ، اتنی عمدہ منظر کشی، آپ نے تو تصور میں اپنا ہم رکاب کر دیا گویا۔

بہت شکریہ جناب۔ یہ نظم ہم نے جوشؔ کی منظر کشی سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ پھر بھی آپ کو پسند آئی۔ باعث مسرت بات ہے۔ مکرر شکریہ!
 
Top