عزیز حامد مدنی نظم : آخری رات - عزیز حامد مدنی

آخری رات
آج مرے دل کی ویرانی
دھیرے دھیرے بول اٹھی ہے
میرا کام نہیں سمجھانا
لیکن کس کو راس آیا ہے
ایسی رات میں باہر جانا
راہ سوالوں کا اک بن ہے
بے مشغل بے مونس چلنا
یہ سب اک دیوانہ پن ہے
گشت میں ہے کتوال نگر کا
اس کی آںکھوں میں نقشہ ہے
سب گلیوں کا سارے گھر کا
اور تم دیوانے ہو اب تک
پاؤں کا تم کو ہوش نہ سر کا

لیکن مجھ ایسے دیوانے
بیٹھ کے کیسے جی سکتے ہیں
ایسا عشق سبق دیتا ہے
مکتب کے دروازے ہی پر
کفش و کلہ رکھوا لیتا ہے

حرفِ صداقت لکھواتی ہے
تختی لکھنا کھیل نہیں ہے
دل کی طاقت لکھواتی ہے
دل رکھے تو ہمت رکھے
جرمِ عشق کیا ہو جس نے
وعدہ یار کی عزت رکھے
عشق پہ ہے تعزیر پرانی
میرے لب سے کیوں رُسوا ہو
اندھوں میں سچ کی عریانی
رات اندھیری ہے اے دلبر
لیکن جب بھی آنکھ کھلی ہے
کوئی کرن سا نازک خنجر
دل کے اندر گھوم رہا ہے
دستِ ستم سے پہلے آکر
میری چوکھٹ چوم گیا ہے
عزیز حامد مدنی
1960ء
 
Top