نظریہِ ریاست اور پاکستان ( حصہ دوم )

ظفری

لائبریرین
میں نے اس مضمون کے پہلے حصے میں ایک نظریہ کو ایک ریاست کے قیام کے لیئے ناگزیر قرار دیا ۔اور یہ کہ جب ایک معاشرہ ایک ریاست کو تخلیق کرتا ہے تو اس ریاست کی بنیاد کسی نظریے پر کھڑی ہوتی ہے ۔ اور پھر اسی طرح بتدریج نظریہ کی افادیت اور پھر اس نظریہ کو کسی ریاست پر لاگو کرکے کسی معاشرے کی معاشی ، مذہبی اور معاشرتی حالت میں جو تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں ان کے حوالے سے بات کی ہے ۔

چونکہ موضوع کا اصل ماخذ پاکستان ہے ۔ اس لیئے اس مضمون کے دوسرے حصے میں چاہوں گا کہ ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں ۔ اور نظریہ کی اساس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں ۔اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پاکستان حاصل کیا گیا ۔ اور جس نظریے نے قیامِ پاکستان سے قبل اس خطے کے لوگوں کو مجتمع رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ نظریہ پاکستان کے بننے کے بعد لوگوں کی تقسیم در تقسیم کو کیوں باعث بنا ۔؟

قوم وطن سے بنتی ہے یا نظریے سے ۔ ؟

70 ، 80 سال قبل جب مسلمانانِ ہند کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی اکثریت نے نظریے کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اور اس کے بعد پاکستان ایک نظریاتی مملکت بن کر وجود میں آیا ۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ گذشتہ 60 سالوں کی تاریخ کوئی اور ہی داستان سناتی ہے ۔ 60 سال پہلے اس خطے کے لوگوں کو ایک نظریہ مجتمع کرنے کا باعث بنا۔ مگر بعد میں نظریے کی ہی بنیاد پر یہاں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگیا ۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث ، اسلام اور کمیونزم کی بحث اور اب اعتدال پسندی یا روشن خیال اور انتہا پسندی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نظریے کے چکر میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قوم کے اندر polarization کا عمل بڑھتا چلا جارہا ہے ۔

نظریہ قوموں کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے ۔ اور قوم میں وحدت پیدا کرنے کلے لیئے اس کا کیا کردار ہونا چاہیئے ۔ اور ہمارے ہاں گذشتہ 60 سالوں میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ ہمیں کیا سبق دیتے ہیں ۔ ہم نے ٹھیک طرح سے نظریے کو سمجھا نہیں ہے یا اس کو بات کو ہمیں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کہ قوموں کو مجتمع رکھنے کے لیئے اساس اور بنیاد کیا ہونی چاہیئے ۔ ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو شاید ہم میں سے کئی کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں ۔ انہی سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پاکستان کے سیاسی اور تاریخی پس منظر پر سرسری طور سے نظر ڈالتے ہیں ۔

قومی ریاست کا ایک تصور ہوتا ہے اور اسی تصور کے تحت ہم پاکستان کو بھی ایک Nation States کہتے ہیں ۔ اور جب Nation States بنتی ہے تو اس کی بنیاد ہمیشہ Nationalism پر ہوتی ہے ۔ یعنی اس خطے میں جو بھی لوگ بستے ہیں وہ اس ریاست کے شہری ہیں اور ان کےحقوق مساوی ہیں ۔ لیکن جب Nation States کو مذہب کی بنیاد پر بنائیں گے تو وہاں یہ مسئلہ آجاتا ہے کہ جو بھی ایک مذہب کو ماننے والے ہیں وہ تو ایک قوم ہوگئے ۔ مگر دوسرے جو کسی اور مذہب کے پیروکار ہیں وہ اس Nation States کے دائرے سے باہر ہوگئے ۔ اور اس طرح سے ان کی حیثیت اس ریاست میں ایک ثانوی شہری کی ہوگئی ۔ اور وہ ان حقوق سے محروم ہوگئے جو ایک مذہب کے ماننے والوں کو میسر ہیں ۔ لہذا اس دورِ جدید کی اصطلاح میں یعنی جمہوری دور میں اس عمل سے مشکلات سامنے آجاتیں ہیں کئی طرح کے مسائل جنم لے لیتے ہیں ۔

پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب ہم نے اسے مذہبی نیشلزم کے تحت مذہبی ریاست کیا اور اس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی تو مسلمانوں کے علاوہ یہاں جو دوسرے مذہب کے ماننے والے تھے ۔ ان کو ایک طرح سے ہم نے قومیت سے باہر نکال دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مضبوطی اور اتحاد کا سرچشمہ ہونے کے برعکس کمزوری اور انتشار کا شکار ہوگئے ۔ ایک قوم کی علاقائی بنیاد پر جو تشکیل ہونی تھی وہ نہیں ہو سکی اور اس نے آگے چل کر بہت سے اور مسائل پیدا کیئے ۔

اس حوالے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے اس نظریے کی جو افادیت اور اہمیت تھی کہ یہ نظریہ اُس وقت دو قومی نظریہ کے طور پر ایک بڑا تقاضا تھا ۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو ہمیں اس نظریئے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے تھی ۔ اور قومیت کو مذہب سے منسلک کرنے کے بجائے اگر ہم اس کو علاقے سے وابستہ کر لیتے تو شاید یہ ماسئل پیدا نہیں ہوتے جن سے ابھی ہم گذر رہے ہیں ۔

نظریہ ہر زمانے کی ضرورت ہے ۔ نظریہ مثبت اور منفی دونوں رخوں پر پنپ سکتا ہے ۔ حالات اور واقعات نظریے کی تخلیق کرتے ہیں اور جیسے ہی حالات اور واقعات اپنی شکل بدلتے ہیں تو نظریہ بھی کروٹ لے لیتا ہے ۔ یعنی نظریہ ایک عمر بھی رکھتا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب مسلم یہاں آئے تو انہوں نے کوئی ایسا فیصلہ یا کوئی ایسا راستہ منتخب نہیں کیا کہ ملک کو کس نظریے کے تحت چلایا جائے گا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہندؤں کے ساتھ ہمارے جو بھی مراسم تھے وہ تقربیاً ختم ہوگئے ۔ اور ہم اپنے ملک اور اپنے معاشرے میں آگئے ۔ چناچہ وہ دو قومی نظریہ جو دو قوموں کی بنیاد پر تخلیق ہوا تھا ۔ اس کی افادیت نہ رہی ۔ اور ہمارے سامنے دوسرے معاشرتی ، معاشی ایشوز اپنی مختلف ساخت میں ہمارے سامنے آگئے ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
1947 سے اب تک ان ساٹھ سالوں میں نظریے کو حکمرانوں نے اپنے مفادات اور ضرورت کے لیئے استعمال کرکے ملک میں تقسیم کا عمل شروع کیا ۔ اب 1970 کے انتخابات دیکھیئے ۔ ملک میں انتخابات ہورہے ہیں ۔ اور ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور غالب اکثریت ہے ۔ 113 علماء کرام کا فتویٰ آرہا ہے کہ فلاں فلاں جماعتیں درست نہیں ہیں لہذا ان کی مخالفت کرنا واجب ہے ۔ اور ان کو ووٹ دینا ناجائز ہے ۔ اور جو جماعتیں ان کے خلاف ہیں ان کی حمایت کرنا ” جہاد ” ہے ۔ چناچہ نظریہ حمکران گروہوں کے مفادات کےلیئے ایک ذریعہ بن گیا ۔

ایک اور نظر 1971 پر ڈالیں جب بنگال میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا تھا ۔ اس وقت مولانا ظفر احمد عثمانی نے فتویٰ دیا کہ بنگالی ، مسلمانوں کی شرعی حکومت کے خلاف خروج کر رہے ہیں تو ان کا خون حلال ہوگیا ہے ۔ اور جو بنگالی اس لڑائی میں مر رہے ہیں ان کی موت حرام ہے اور اس کے برعکس جو لوگ ان کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جا رہے ہیں وہ ” شہید ” ہیں ۔ چناچہ اس طرح کی صورتحال میں نظریے نے ظلم کو تحفظ دیا ۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ نظریے کے پروموٹرز کون ہیں ۔ یہ سارا معاشرہ مسلمانوں کا ہے اور ایک گروہ کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کے محافظ ہیں ۔ اور جو جو لوگ ہمارے خلاف ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ ایک ہی ملک میں لوگوں کو تقسیم کیا گیا اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر نظریہِ پاکستان کو مہر کی طرح استعمال کیا گیا ۔

نوابزادہ شیر علی خان ( یٰحیی کے دور کے ایک وزیر ) نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ پاکستان کی افواج کی سب سے اہم ذمہ داری جغرافیائی حدود کی حفاظت نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کا تحفظ ہے ( ؟ ) ۔ اور اس پر نہ صرف کام ہونا چاہیئے بلکہ اس کو آگے بھی بڑھانا چاہیئے ۔ اور بعد میں اس کام کے لیئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ۔ ( مگر وہ ایک لمبی بحث ہے ) ۔
کچھ سالوں بعد یہ نظریہ ضیاءالحق کے ہاتھ آگیا اور پھر ضیاء الحق نے اس نظریے کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کیا ۔ جن میں ” جہاد ” قابلِ ذکر ہے ۔ ضیاءالحق کے دور میں اس نظریے کی دوبارہ تشہیر کی گئی اور ” مطالعہِ پاکستان ” کو نصابی کورسوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ غور طلب بات ہے کہ جب ملکی اور عوامی مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں تواس نظریہ پاکستان کو ان مسائل کے مدمقابل کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ جب بھی حکمران طبقہ اپنی مقبولیت کھونے لگا اس نے نظریہ پاکستان کو استعمال کیا ۔

جب ہم پاکستان اور نظریے کے مخصوص پس منظر میں بحث کرتے ہیں تو تحریک ِ پاکستان کی دو جہتیں نمایاں ہوتیں ہیں ۔ جو ایک حساب سے مختلف بھی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ قائدِ اعظم کا یہ نقطہ تھا جوکہ قراردادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا کہ ہندو اور مسلمان دو کمیونیٹیز نہیں دو مختلف قومیں ہیں ۔ اور ان کی سیاسی ترجیحات اور مشکلات کو حل کرنا بین الاقوامی ایشو ہے ۔ دوسری جہت یہ تھی کہ جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں کم از کم وہاں بسنے والے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی زندگی میں ایک مثبت تبدیلیاں لانا اور ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود تھا ۔ ایسی کئی مثالیں قائدِ اعظم کے ارشادات میں مل جاتیں ہیں کہ مثال کے طور پر ایک دفعہ قائدِ اعظم نے چند کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا جو انتہائی کمسپری کی حالت میں تھے ۔ قائدِ اعظم نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اگر پاکستان میں اسی طرح کی غربت ہوگی تو میں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں ۔

ہماری سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر جو ایشو چل رہا تھا وہ 1947 میں حل ہوگیا کہ پاکستان بن گیا ۔ لیکن دوسری جو جہت تھی وہ میری نظر میں مکمل نہیں ہوئی ۔ اور اس کی وجہ سے خرابیاں در خرابیاں پیدا ہوتیں چلیں گئیں ۔ہمارا وہ اتحاد جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہو اتھا وہ تو کام میں آگیا مگر وہ اتحاد اور وعدہ جس میں ہمیں ایک عام آدمی کو خوشحال زندگی گذارنے کے اسباب فراہم کرنے تھے اس پر ہمارا اتحاد قائم نہیں رہ سکا ، ہم اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرسکے ۔ نظریہ سازی کا عمل قوم کے سانس لینے کے عمل کے ساتھ چلتا ہے ۔ اگر امریکہ کو دیکھیں تو وہ 60 اور 70 کی دھائیوں میں سرد جنگ کی پالیسیاں چلا رہا تھا ۔ سرد جنگ ختم ہوگئی تو وہ نیو ورلڈ آرڈر میں آگئے ۔ پھر نیو ورلد آرڈر کے بعد نیو ورلڈ قدامت پسند آگئے اور اب War At Terrorism شروع ہوگئی ہے ۔ ہر عشرے میں قوم کو اپنی ترجیحات پر غور کرنا پڑتا ہے ۔ اور اس کے لیئے ایک لائحہِ عمل بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ ہر قوم کے لیئے ضروری ہوتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ”

جہانِ تازہ سے افکارِ تازہ کی نمود

پاکستان ہم کو مل گیا تھا اور ہم کو جو افکارِ تازہ چاہئیے تھے اور پھر ان افکار ِ تازہ کو حاصل کرنے جو آزادی چاہیئے تھی وہ غالباً راستے میں کہیں کھو گئی ۔

(جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو بھی حکمران پاکستان پر حکومت کرکے گئے ۔ انہوں نے ملک کے ایک عام آدمی کی حالت سدھارنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ جس کے نتیجے میں نظریے نے اپنی افادیت کھو دی ۔ ایک تاثر نظریے کے خلاف یہ سامنے ابھر کر آیا کہ نظریہ غلط ہے ۔ ( واضع رہے کہ نظریے کی دو جہتیں زیرِ بحث ہیں ۔ ایک تو یہ کہ دو قومی بنیاد پر ایک مملکت کا قیام جس میں ہم کامیاب رہے اور دوسرا یہ کہ اس مملکت میں اسلامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مملکت کے ہر ایک شخص کو تحفظ کے ساتھ معیارِ زندگی کے اسباب پیدا کرنا ۔ جس میں ہم ناکام رہے ۔ اور اسی پر بحث کرنا اس مضمون کا ماخذ ہے ۔ ) ۔ لہذا حکمرانوں کے اس طرزِ عمل سے نظریہ کو قصور وار ٹہرایا جانے لگا ۔ مگر یہ ایک غلط سوچ ہے کہ نظریہ پاکستان میں پنپ نہیں سکا ۔ دیکھیں ! مثال کے طور پر جو لوگ اس نظریے کے خلاف ہیں اور وہ اس ملک کو سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں اور اگر وہ بھی اپنے اس نظریے کو لیکر اس ملک کے لوگوں کو خوشحالی ، عدل وانصاف نہیں دے سکے تو ان کا بھی پھر نظریہ غلط ثابت ہوجائے گا ۔ ؟ ۔ بات نظریئے کی نہیں ہے ۔ اگر آج بھی کوئی شخص آجائے اور خواہ اس کا نظریہ کچھ بھی ہو مگر وہ اس ملک کے مسائل کو دیانت کی بنیاد پر حل کرتا ہو تو ریاست میں رہنے والوں کو اس سے سروکار ہرگز نہیں ہوگا کہ ان پر حکمران کون ہے ۔ وہ تو صرف یہ دیکھیں گے کہ وہ پُرسکون ، پُر امن ہیں ۔ اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں ان کی دسترس میں ہیں ۔ اسلام ہی ہمارے پاس ایک چھتری کی مانند تھا جس کے سائے تلے ہمیں ہماری آئیڈیالوجی مل رہی تھی ۔ مگر یہ تاثر بلکل غلط ہے کہ حکمران ریاست کے لوگوں کی امنگوں پر پورے نہیں اُترے تو نظریہ غلط ثابت ہوگیا ۔ اس صورتحال میں یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ نظریے یا اس کی اساس میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ بلکہ جنہوں نے اس نظریئے کو استعمال کیا ان سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوسکا ۔

ہمارے حمکرانوں اور مذہبی سیاسی لیڈروں نے اس نظریئے کا رخ ہی کہیں اور موڑ دیا ۔ جس طرح حماس نے کیا تھا کہ آئیڈیا لوجی کی پہلی Manifestations لاء ہے اور پہلی Functionality ریاست ہے ۔ چناچہ ان لیڈروں نے جب اسلامی ریاست کی آئیڈیالوجی کو اس طرح Coin کیا تو یہ کہا گیا کہ یہ اسلام ہے ۔ایک اسلام معاشرے میں پہلے سے ہی موجود تھا ۔ لوگ نماز بھی پڑھ رہے تھے ، حج بھی کر رہے تھے ، زکوۃ بھی دے رہے تھے ۔مگر انہوں نے کہا کہ تم کو یہ آئیڈیالوجی قبول ہے تو ٹھیک ہے ورنہ تم سیکولر ہو ۔ اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اسلامی آئیڈلوجی ہی نے حمکران طبقے کو سپورٹ کیا ہے ۔ اب ضیاءالحق کا ہی جہاد لے لیں ۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اسلام جس کی ہم 14 سو سالوں سے پریکٹس کرتے چلے آرہے ہیں اس میں ریاست کے علاوہ بھی جہاد کر سکتے ہیں ۔ ؟ ۔ اس صورتحال میں جو بھی اسٹیج پر آیا اس نے کہا کہ وہ ” امیر المومنین ” ہے ۔ اس دور میں ضیاءالحق امیر المومنین تھے اور امیرِ مجاہدین تو بے تحاشہ پیدا ہوگئے ۔ کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ اسلام میں کہیں کسی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ایک عام آدمی کھڑا ہوکر قتال شروع کردے ۔ اسلام یا دنیا کے کسی بھی نظام میں یہ بات قطعی ہے کہ حدودِ تعزیرات اور جہاد ریاست کی ذمہ داری ہیں ۔ ایک اسلام تھا جو تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ مگر یہ جو Interpretation والا اسلام ہے اس نے ہر دور میں اپنا چوغہ بدلا ہے اور دشمن بھی بدلے ہیں ۔
زیادہ دور نہ جائیں دیکھیں ۔ 1970 جو میں کفر اور اسلام کی جنگ تھی ۔ وہ 1977 میں کیوں نہیں رہی ۔ ؟ 70 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کفر کا منبع تھی ۔ 77 میں وہی پارٹی پی این اے کا حصہ بن گئی ۔ وہی لوگ تھے مگر کفر کے دائرے سے اب باہر ہوگئے ۔ مولانا مفتی محمود جن کے ساتھ 1970 میں 113 علماء کے فتوؤں کے مطابق تعاون کرنا ناجائز تھا ۔ 1977 میں وہی مفتی محمود پی این اے کے صدر تھے ۔ اسلامی آئیڈیالوجی کی اصل شکل کو جس طرح مسخ کیا گیا اس نے نہ صرف معاشرے میں مسائل پیدا کیئے بلکہ لوگوں کے عقیدے میں بھی بہت سی گرہیں ڈال دیں ۔
(جاری ہے )
 
ظفری، عموماَ جواب یہاں صرف تنقیدی دئے جاتے ہیں۔ تائیدی جوابات کی بہت کمی ہے۔ آپ کے خیالات کی سمت بہت درست ہے۔ تائیدی خیالات سے آپ کا شکریہ مقصود ہے۔
ایک تاثر نظریے کے خلاف یہ سامنے ابھر کر آیا کہ نظریہ غلط ہے ۔ ( واضع رہے کہ نظریے کی دو جہتیں زیرِ بحث ہیں ۔ ایک تو یہ کہ دو قومی بنیاد پر ایک مملکت کا قیام جس میں ہم کامیاب رہے
درست فرمایا۔ میں اس کامیابی کی وجہ کیا ہم دو قومی نظریہ کی فراہم کردہ تفصیل کو قرار دے سکتے ہیں؟

اور دوسرا یہ کہ اس مملکت میں اسلامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مملکت کے ہر ایک شخص کو تحفظ کے ساتھ معیارِ زندگی کے اسباب پیدا کرنا ۔ جس میں ہم ناکام رہے
یہ بھی درست۔ کیا اس کی وجہ ہم مکمل تفصیل کی کمی کو قرار دے سکتے ہیں؟ کہ اس مقصد کے حصول کے لئے کوئی واضح دستاویز نہیں لکھی گئی جوسب کے لئے قابل قبول ہوتی۔ 1956 اور 1973 کے آئین تقلیدی تھے اور بار بار ان کا معطل ہونا کیا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایک قابل قبول دستاویز جو ممکنہ لائحہ عمل کی تفصیل فراہم کرتی ہو ہماری ضرورت ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
اس وقت نظریئے کی دو جہتیں پیش کی جاچکیں ہیں ۔ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان سے ہندوؤں کا مسئلہ حل ہوگیا اور دو قومی نظریئے کے تحت پاکستان معرضِ وجود میں آگیا ۔ مگر پاکستان میں رہ کر ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں کیا طریقہِ کار اختیار کرنا ہے ۔ ؟ لوگوں کے درمیان معاملات کیسے طے ہونگے ۔ ؟ عدالتیں کس طرح انصاف کریں گی ۔ یہ وہ معاملات تھے جن کا تعلق آئین سازی سے تھا ۔ یہ سارے معاملات باآسانی طے ہوجاتے اگر آئین سازی بروقت ہوجاتی ۔

میرے خیال میں پاکستان کی آئین سازی کی ناکامی کی چند وجوہات ہیں ۔ جن میں سے میں یہ دو قابلِ ذکر سمجھتا ہوں ۔

ایک فکری تہی دامنی ۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیئے ہمیں جو political equivalent چاہیئے تھی ۔ وہ بڑی واضع ہے ۔

فکری تہی دامنی کے ساتھ دوسری بڑی چیز بدنیتی تھی کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ کے تسلسل میں بدنیتی صاف نظر آتی ہے ۔ آزادی کا جو تحفہ پاکستان کے خطے میں بسنے والوں لوگوں پہنچنا تھا وہ راستے میں کہیں گم ہوگیا ۔ پاکستان کے قیام کے لیئے جو جدوجہد کی گئی ۔ وہ جدوجہد پاکستان کے قیام کے بعد عوام کی خوشحالی اور بہتر مستقبل کے لیئے بھی ہونی تھی مگر وہ منقود ہوگئی ۔ اور پھر ہم نے مسلسل اس جہدوجہد سے فرار کیا ۔ ہماری عدالتوں نے فرار کیا ۔ ہماری بیوروکریسی نے فرار کیا ، ہمارے سیاستدانوں نے فرار کیا اور ہماری فوج نے بھی ایک حد تک فرار کیا ۔ فوجی جرنیلوں کی حمایت میں تقریر کرنے والے کوئی ان پڑھ کسان تو نہ تھے بلکہ باہر کی یونیورسٹیوں کے اعلی تعلیم یافتہ تھے ۔ جو لوگوں کو سمجھا رہے ہوتے تھے کہ اس ملک میں جہمورہت چل نہیں سکتی ۔ لیکن اب یہ سوچ دوبارہ پیدا ہورہی ہے کہ اب ہمیں بطور قوم اپنی منزل یا سمت کا تعین کرنا ہے ، کوئی لائحہ عمل اخیتار کرنا ہے ۔ 1973 کے آئین کو سنگِ میل کیوں کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ قرآن اور حدیث کے بعد کسی ڈاکومنٹس پر اگراکثریت کا اتفاق ہے تو وہ 73 کا آئین ہے ۔ کیونکہ وہ ہمیں ایک دم سے متحد کر دیتا ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک منتخب اسمبلی کی طرف سے آیا ہے ۔ ( اس وزیرِ اعظم سے اختلاف زیرِ بحث نہیں ہے ) اور یہ عمل جمہوری طریقے سے رونما ہوا ۔ اگر یہی آئین سازی 47 یا 49 میں ہوگئی ہوتی تو آج ہم جس انتشار اور تفریق کو رو رہے ہیں اس کی نوبت نہیں آتی اور آج صورتحال کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ۔

پاکستان کی آئیڈیالوجی کو بعد میں جس طرح بڑھایا گیا اس سے ملک کے سیاسی ، معاشی نظام متاثر ہوئے ۔ آئیڈیا لوجی اسٹیٹ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص فریم ورک میں کام کرتی ہے ۔ آئیڈیالوجی اسٹیٹ ایک طرح سے brutal ہوجاتی ہے ۔ وہ کسی اور سچائی کو قبول نہیں کرتی ۔ وہ فرد سے فردیت چھین لیتی ہے ۔ اس کی مثال ہمارے سامنے اسرائیل کی ہے ۔ جو خود کو chosen people کہتے ہیں ۔ ایسی صورت میں فرد کا ارتقاء نہیں ہو پاتا ۔ دیکھیں ۔۔ ہمارے ہاں کس قسم کے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں ۔ پاکستان بنا ۔ پہلی تجویز یہ آئی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی ساڑھے تین سو سیٹیں ہونی چاہئیں ۔ پہلا الیکشن 1954 میں ہوا ۔ چالیس ، چالیس کے تناسب سے اس میں 80 سیٹیں رکھیں گئیں ۔ ( ؟ ) فوقیت پہلے ہی دن سے شروع ہوگئیں ۔ سینٹ میں ایسٹ پاکستان کی اکثریت نہیں ہونی تھی کہ پانچ صوبے تھے ۔ اگر سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہوتا تو مشرقی پاکستان کہاں ہوتا ۔ ؟ مشترکہ اجلاس میں ان کی اکثریت اقلیت میں بدل جاتی اور جب انہوں نے اس پر اتجاج کیا تو ان کے خلاف نظریئے کو استعمال کیا گیا ۔ ہمارے ہاں عوامی حقوق کو دبانے کے اس نظریئے کو بارہا استعمال کیا گیا ۔ سیٹوں کی تقسیم میں بد دیانتی ہو رہی تھی اور جو نظریہ سازی کا عمل ہورہا تھا وہ بھی بددیانتی پر مبنی تھا ۔ اور جو ہاتھ اس بدنیتی اور بددیانتی کے مرتکب ہو رہے تھے ۔ ہمیں ان ہاتھوں کو پہچانا چاہیئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری آزادی پر جو ڈاکہ پڑا ہے اگر آپ اس کی نشان دہی تلاش کریں گے تو وہ اُنہی نظریہ سازوں کے گھروں پر جاتا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ کے ایمبیسڈروں کا 1950 میں جو رول رہا ہے اور جو آج تک چل آرہا ہے اور جس آئین سازی اور عوامی حاکمیت کو ہم روتے ہیں اس میں گھر کے علاوہ بیرونی لیٹرے بھی تھے ۔ ہم نظریئے سے بدظن نہیں ہوسکتے تو ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا نظریہ ایک قوم کی وحدت بن سکتا ہے ؟ ۔

(جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
اقوامِ عالم میں پاکستان کا یہ امتیاز تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ ایک نظریاتی مملکت ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو ریاستیں آزاد ہوئیں وہ بالخصوص نسل یا جغرافیائی بنیادوں پر وجود میں آئیں ۔ لیکن پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ اقوامِ عالم میں کسی اور ریاست کی اگر مثال دی جاسکتی ہے تو وہ اسرائیل ہے ۔ جو ایک مذہب کے ماننے والوں کے طور پر وجود میں آیا ۔ اس نظریے نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو ایک امید دی اور ان کے اچھے مستقبل کے لیئے ایک کرن روشن کی ۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرنا شروع ہوا کہ جو نظریہ ہم سب کے لیئے ایک عبادت کی علامت تھا ۔ وہ کس حد تک ان کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوا ۔ اور ایک نظریاتی جہدوجہد کے نتیجے میں وہ کس حد تک ان مسائل اور مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے جو اس وقت آج ہمارے سامنے غربت ، افلاس اور مایوسی کی شکل میں موجود ہیں ۔

نظریے کے حوالے سے ایک جہد اور بھی ہے ۔ اور وہ جہد یہ ہے کہ اس نظریے میں جب ہم نے دو قومی نظریئے اور اسلام کو لاتے ہیں تو وہیں پر اس نظریئے کی بنیاد میں ہندو مخالفت بھی نظر آتی ہے ۔ اور اس ہندو مخالف رویے نے ساٹھ سالوں میں ہمارے ذہن کو کس طرح بدلا اور اس وجہ سے ہماری پالیسیاں کس طرح تبدیل ہوئیں اور ہم نے کتنا نقصان اٹھایا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ پہلو بھی مدِنظر رکھنا چاہیئے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہم ہندوستان سے الگ ہوئے مگر ایسا نہیں ہوا کہ ہماری تاریخ اور کلچر بھی الگ ہوگیا ۔ آج بھی دونوں طرف منقسِم خاندان موجود ہیں ۔ ایک نظریے کی بنیاد پر جب ہم نے ایک ریاست بنائی تو اس کے کچھ مضمرات بھی تھے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارا ہدف Imperialism ہوتا ۔ جیسے برطانیہ Imperialism کہ انہوں نے ہم کو ایک عرصے تک غلامی میں رکھا ۔ مگر وہ ہدف ایسا تبدیل ہوا کہ ہندوستان ہماری دشمنی اور نفرت کا مرکز بن گیا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایسی ترجیحات مرتب ہوئیں کہ بطور ایک قوم ہمیں آگے بڑھنے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔

انہی خطوط پر چلتے ہوئے ہم نے امریکن لابی میں شمولیت اخیتار کی ۔ اور پھر ا سکے بعد ہم نے کیا کیا ۔ ؟ ہماری ترجیحات کی نوعیت کی کیا شکل بنی ۔ ؟ یہی کہ ہم امریکہ کے فرنٹ لائن کا ملک بن گئے ۔ ذرا سوچا جائے کہ یہ فرنٹ لائن کا ملک ہوتا کیا ہے ۔ اگر آپ نے شطرنج کھیلی یا دیکھی ہے تو یہ ضرورمعلوم ہوگا کہ پیادہ ہی سب سے آگے ہوتا ہے ۔ اور کوئی بھی شاطر بآسانی سے بادشاہ کے لیئے پیادے کو مروا دیتا ہے ۔ تو ایسے ایسے شوق ہم نے پال رکھے ہیں ۔ ( ! ) ۔۔۔ چناچہ اب انہوں نے ہمیں جو تائید مہیا کی اور جس بنیاد پر کھیل کھیل کر انہوں نے حکومتیں کیں ۔ ان میں یہ دو باتیں بہت نمایاں تھیں ۔ ایک دو قومی نظریہ اور ہندوستان دشمنی ۔ اور ساتھ ساتھ گاہے بگاہے کشمیر ایشو کو ہائی لائیٹ بھی کرتے رہنا تھا ۔

انہی باتوں کے تناظر میں جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو منظر واضع ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایک نظریے اور ریاست کے تعلق کی طرف جب ہم لوٹتے ہیں تو ایک واضع فرق ہم کو نظر آتا ہے کہ ہندوستان میں انہوں نے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا ۔ مگر ہمارے پاس نہیں ہوسکا ۔ اور اس کا ایک سبب یہ سامنے آتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جو کمیشن بنایا گیا تھا اس میں دولتانہ نے کہا تھا کہ ہم زرعی اصطلاحات لائیں گے ۔ اس وقت کے علماء نے اس کی مخالفت کر کے جاگیردارانہ نظام کو ملکیتِ زمین کے شرعی اصول بتا کر تحفظ فراہم کیا ۔ تو گویا وہ نظریہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں ایک دیوار کی طرح حائل ہوتا چلا گیا ۔ جس کا رونا اب روتے ہیں ۔

میں ایک اور بات واضع کردوں ۔ ایک ہے دو قومی نظریہ اور دوسرا ہے نظریہِ پاکستان ۔ میرا خیال ہے ان دونوں میں لوگ تفریق نہیں کر پاتے اور اس کو ایک ہی نظریہ سمجھتے ہیں ۔ دو قومی نظریہ ایک تاریخی حقیقت بن کر سامنے آیا اور مسلمانوں نے اس کو بنیاد بنا کر تسلیم کیا اور پھر جہدجہد کر کے 1947 میں پاکستان حاصل کرلیا ۔

جبکہ ” نظریہ ِپاکستان ” بعد کی پیداوار ہے ۔ نظریہ پاکستان ، جسے اسلام کے مطابق کہا جاتا ہے ۔ بلکل غلط ہے ۔ بلکہ یہ اسلام کی ایک خاص Interpretation سے جُڑا ہوا ہے ۔ اور وہ ہے نظریہ اسلامی ریاست ۔ مسلمانوں کے ہاں ریاست مدینے میں وجود میں آگئی تھی ۔ اور اس ریاست میں سب کے حقوق مساوی تھے ۔ اور حقوق کی ان مساوات کی نوعیت یہود قبائل میں بھی یکساں تھی ۔ اور وہ ریاست بطور نظریہ نہیں تھی ۔ تیرہ سو سالوں میں مسلمانوں نے ہمیشہ ریاست بطور فلاحی ریاست پر زور دیا ۔ اور ہمارے جتنے بھی مفکرین گذرے ہیں وہ ایسی ہی ریاست پر زور دیتے رہے ہیں ۔ جس میں انسانیت کی فلاح مقصود ہو ۔ یہ تو بیسویں صدی میں ایسے نظریات کی بھرمار ہوگئی ہے کہ ایسی ریاست پر زور دیا جارہا ہے جو انسانیت کے بجائے نظریے کے حوالوں پر زور دیتیں ہیں ۔ اور یہ نظریات اسلام کی ایک Interpretation کے تحت وجود میں آئیں ۔ جس میں نظریاتی گروہ نے انسان اور نظریہ کا مقابلہ پیدا رکھا ہے ۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا کہ ایک انجمنِ تحفظِ حقوقِ زمینداران بمطابق شرعیہ نامی ایک تنظیم بنی تھی ۔ جس کے صدر جناب نوابزادہ نصراللہ تھے ۔ اور اس وقت جاگیرداروں کے حقوق کے لیئے علماء سے کتابیں لکھوائیں گئیں تھیں ۔ اب مولوی نے وہاں مداخلت نہیں کی جہاں اقدار مجروع ہورہے تھے ۔ اگر ا سمیں جاگیرداری کے خلاف کوئی عمل ہورہا تھا تو اس میں کہاں سے دینی اقدار مجروع ہورہے تھے ۔

" ریاست بطور نظریہ " اسلام میں کبھی معترف نہیں ہوئی ۔ ریاست بطور نظریہ اس بیسویں صدی کا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے شاہ ولی اللہ (رح ) ، امام غزالی ( رح ) ، ابنِ خلدون جیسے مفکرین اور عالموں کے ہاں ریاست بطور نظریہ کا تصور نہیں ملتا ۔ شاید میری اس بات سے کئی ذہنوں میں یہ سوالات اٹھتے ہوں کہ قرآن کے بہت سے احکامات ہیں جو اجتماعیت سے ہیں ۔ ریاست سے ہیں ۔ اگر ریاست کا کوئی وجود لانا مطلوب نہیں ہے تو ان احکامات کا اطلاق کہاں ہوگا ۔ ؟

دیکھیئے ۔۔۔ ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو اس وقت دنیا میں دو ابرہیمی مذہب پہلے ہی سے موجود تھے ۔ ایک یہود اور دوسرا نصاریٰ مذہب ۔ یہودی کی Perception یہ تھی کہ ریاست ایک مذہب ہے ۔ اور جبکہ نصاریٰ کی Perception یہ تھی کہ مذہب ایک گرجا ہے ۔ تو رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلم معاشرہ تشکیل دیا ۔۔ جو ریاست مسلمانوں نے قائم کی اس میں انسانی حوالوں کو ہمیشہ سامنے رکھا گیا ۔ ریاست کو کلمہ پڑھانے کی پہلے کبھی بات نہیں کی گئی اور ایک خاص بات کہ جب ہم آئیڈیالوجی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ہمیشہ مغرب ہی ہوتا ہے ۔ اور مغرب ہمشہ تنہائی کامعاشرہ رہا ہے ۔ مغرب نے اب جاکر جنگِ دوم کے بعد اپنا عیسائی اور یہودی مسئلہ حل کیا ہے ۔ وہ کسی دوسرے کو قبول نہیں کرتے اور زبان پر لڑجاتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے اسی بنیاد پر بےتحاشہ جنگیں آپس میں لڑیں ہیں ۔ جب ہم نظریاتی بنیاد پر کسی معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں تو وہ فرد کے ارتقاء میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کا معاشرہ ہمیشہ قابلِ تسخیر رہا ہے ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
آج کے پاکستان میں اگر ہم دیکھیں تو ہمیں نظریہ اور ریاست دونوں عوام کی دسترس سے دور نظر آتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں کہ بطور شہری ریاست چلانے کا اختیار ہمیں حاصل کرنا ہے ۔ باقی ترجیحات بعد کی بات ہے ۔

اب یہی دیکھ لیں حدود آرڈیننس فوجی حکمران لایا ۔ جنہوں نےاس آرڈیننس کو سپورٹ کیا وہ بھی اسی فوجی حکمران کے ساتھ آئے ۔ سول سوسائٹی نے اس کی مخالفت کی ۔ اس میں عوام کہاں ہے ۔ ؟ سیدھی سی بات ہے کہ جب تک ان کو سادہ لوح ریڈی میڈ عوام مل رہے ہیں ۔ عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کا جو تسلسل ساٹھ سالوں‌سے چلا آرہا ہے وہ اسی طرح چلتا رہے گا ۔ کیونکہ جب تک ہم اپنا سر کٹنے کے لیئے پیش کرتے رہیں گے ۔ سر کاٹنے والے ہاتھ موجود رہیں گے ۔ ہمارے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم جدھر چاہیں ریاست کے گھوڑے کی باگ موڑ دیں ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے عوام اس باگ کو سنبھالیں تو سہی ۔ اور اس کے لیئے وہی دانشمندی ، دیانتداری ، سنجیدگی ، بہترین لائحہ عمل اور تُند دہی درکار ہے جو ہم نے پاکستان کو حاصل کرنے کے لیئے استعمال کی تھی ۔ یہ اصل میں‌عوام ہیں جن کو یہ حق ملنا چاہیئے کہ وہ اپنے لیئے کس طرح کا نظام اور ماحول چاہتے ہیں ۔

بات بہت واضع ہے کہ اگر پاکستان میں خوشحالی اور ترقی لانی ہے تو عوام کو فیصلے کا اختیار ملنا چاہیئے ۔ اور اسلام یا کسی نظریئے کے بارے میں کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلام دین ہے کوئی نظریہ نہیں ہے ۔ نظریہ بہت چھوٹی چیز ہے ۔ اسلام بہت ہی اعلیٰ و ارفع اور ایک بہت ہی بڑی حقیقت ہے ۔اسلام تو ایک نیا انسان پیدا کرتا ہے ۔ اور ایک نیا انسان ایک نئی دنیا تشکیل دیتا ہے ۔ اور عوام کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ حقوق دیئے نہیں جاتے بلکہ لیئے جاتے ہیں ۔ (مگر اب کچھ ایسے آثار پیدا ہورہے ہیں ، جن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو رہا ہے کہ نظریہ کا جو تصور ان کے سروں پر تھوپا گیا ہے ا سکی حقیقت کیا ہے ۔ ؟ ) ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیا سکہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ وہی سکہ چلاتے رہے جو پہلے سے چل رہا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی وہی کیا ۔ مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں‌ مسلمان غالب ہوئے تو پھر اس وقت سکہ بدلا گیا کہ اب تفیہمِ نو کی‌ ضرورت تھی ۔ اور آگے کی ضروریات اور ترجیحات کا بھی یہی تقاضا تھا ۔ چناچہ وقت اور حالات کے ساتھ انسان اپنی ضروریات اور ترجیحات کا بھی جائزہ لیتا ہے اور پھر اس کے تناظر میں کوئی نئی حکمت عملی کے ساتھ کوئی نیا لائحہ عمل سامنے لاتا ہے ۔ پاکستان کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے ۔ اور یہ ناممکن ہے کہ اسلام اور نظریئے کو اس ملک کے مسلمانوں سے کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ لہذاٰ ترجیح نظریئے کے دفاع پر زور دینے کے بجائےان لوگوں کے مفادات اور دفاعات پر ہونی چاہیئے ۔ جنہیں ہم عوام کہتے ہیں ۔

میں اب اس موضوع پر گفتگو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہ عرض کروں‌گا کہ اس سارے مضمون کو آپ اس پہلو سے دیکھیں کہ ایک نظریئے نے ہماری اجتماعی وجود کی بقا اور سلامتی اور پھر اس کے ارتقاء میں کیا کردار ادا کیا ہے ۔ گفتگو کا حاصل یہ رہا ہے کہ یہ نظریہ پاکستان سے نظریہ ضرورت تک کا سفر تھا ۔ اگر آج ہمیں آگے بڑھنا ہے تو عوام کو یہ حق اور اختیار دینا چاہیئے کہ وہ اپنے لیئے کوئی نظام مرتب کریں ۔ اور ساتھ ساتھ ان پر یہ اعتماد بھی کرنا چاہیئے کہ وہ نہ صرف اپنے نظریئے سے بغاوت کریں گے بلکہ نہ ہی کوئی ایسا راستہ اختیار کریں گے جو ہمارے قومی وجود کے لیئے نقصان دہ ثابت ہو ۔

( ختم شد )
 
ظفری کیا اسی دھاگے میں پاکستان میں موجود نظام اور اس کے اثرات پر بات ہوگی یا کوئی نیا دھاگہ کھلے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری کیا اسی دھاگے میں پاکستان میں موجود نظام اور اس کے اثرات پر بات ہوگی یا کوئی نیا دھاگہ کھلے گا۔

نہیں ۔۔۔۔۔ اس کے لیئے اب دوسرا دھاگہ کھولنا پڑے گا ۔ اور یہ کام تمہارے یا فاروق بھائی کے ہاتھوں سرانجام ہو تو بہتر ہے کہ میری تو کھوپڑی چٹک گئی ایسے تھیسیس لکھتے ہوئے ۔ :grin:

ہاں میں وہاں بھرپور ساتھ ضرور دوں گا ۔ :)
 
ظفری یہ ایک بہت اچھا کوریج ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اگر محب لکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

ہمیں ایک نئے نظریے کی ضرورت ہے کہ قوم اس کو حاصل کرنے کے لئے ویسے ہی جت جائے جیسا کہ 23 مارچ 1940 سے شروع ہو کر 14 اگست 1947 تک ہوا تھا۔
 
Top