ناصر کاظمی نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں

شمشاد

لائبریرین
نصیبِ عشق دل بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے ترا انتطار بھی تو نہیں

تلافئ ستمِ روزگار کون کرے
تو ہم سخن بھی نہیں، رازدار بھی تو نہیں

زمانہ پُرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم غمِ لیل و نہار بھی تو نہیں

تری نگاہِ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں

تو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوں
تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں

وفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہے
تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں

اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں

بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے
اُداس بھی تونہیں، بے قرار بھی تو نہیں

تو ہی بتا ترے بےخانماں کدھر جائیں
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں

فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں

جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیں

وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر
یہ کاروبارکوئی کاروبار بھی تو نہیں
(ناصر کاظمی)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
سبحان الله ، سبحان الله
ناصر صاحب کی کیا غضب غزل لگادی
بہت ہی لاجواب انتخاب ، بہت ہی پسندیدہ غزلوں میں سے ایک
کس شعر کی بات ہو ،، تشکّر !
بہت خوش رہیں صاحب ۔:):)
 

محمداحمد

لائبریرین
زمانہ پُرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم غمِ لیل و نہار بھی تو نہیں

تو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوں
تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں

وفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہے
تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں

اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں

بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے
اُداس بھی تونہیں، بے قرار بھی تو نہیں

تو ہی بتا ترے بےخانماں کدھر جائیں
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں

فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں

جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیں

وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر
یہ کاروبارکوئی کاروبار بھی تو نہیں


واہ واہ واہ

کیا بات ہے۔ ایک غزل میں اتنے سارے کمال اشعار، ناصر کاظمی کا ہی خاصہ ہے۔

بہت شکریہ شمشاد بھائی ۔۔۔۔!
 
Top