امجد اسلام امجد نصف صدی ہونے کو آئی ' امجد اسلام امجد'

سارا

محفلین
نصف صدی ہونے کو آئی
میرا گھر اور میری بستی
ظلم کی آگ میں جل جل راکھ میں ڈھلتے ہیں
میرے لوگ ' میرے بچے
خوابوں اور سرابوں کے ایک جال میں الجھے
کٹتے ' مرتے جاتے ہیں
چاروں جانب لہو کی دلدل ہے
گلی گلی تعزیر کے پہرے ' کوچہ کوچہ مقتل ہے
اور یہ دنیا
عالمگیر اخوت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا!
ہم کو جلتے ' کٹتے 'مرتے
دیکھتی ہے اور چپ رہتی ہے
زور آور کے ظلم کا سایہ پل پل لمبا ہوتا ہے
وادی کی ہر شام کا چہرہ خون میں لتھڑا ہوتا ہے
لیکن یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لوَیں سلامت
جب تک ان کی آگ فروزاں
درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے

''امجد اسلام امجد''
 
Top