نصاب تعلیم، نسل نو کے مستقبل کا مسئلہ

ایس ایم شاہ

محفلین
نصاب تعلیم، نسل نو کے مستقبل کا مسئلہ
تحریر: ایس ایم شاہ
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بچے کا دل زرخیز کھیت کی مانند ہے۔ جس میں جو بھی بیج بوئی جائے گی اسی کے مطابق فصل بھی ملے گی۔
گھر، معاشرہ اور تعلیمی ادارے وہ مقامات ہیں جہاں انسان کی شخصیت تشکیل پاتی ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور آئین پاکستان کی رو سے یہاں کوئی بھی غیر اسلامی قانون نہیں بن سکتا اور تمام مکاتب فکر کو اپنے مذہبی اقدار پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
ملک میں نصاب تعلیم کا مسئلہ کافی عرصے سے ایک گھمبیر مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے توانا آواز گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے قائد جی بی شہید سید ضیاء الدین رضوی نے اٹھائیں۔ انھوں نے ملک میں رائج نصاب تعلیم پر اعتراضات کرنے پر فقط اکتفا نہیں کیے بلکہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کی تمام رائج نصابی کتب کا بنفس نفیس عمیق مطالعے کرنے کے بعد ہر کتاب میں موجود متنازعہ نکات کی نشاندھی بھی کیں۔ اگر ان کو شہید راہ نصاب کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ موصوف نے وفاق کی سطح پر منظم کوششیں کیں، اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال سے باضابطہ کئی ملاقاتیں بھی کیں، جی بی میں کفن پوش مظاہرے بھی کئے۔ ان کی جد و جہد کا سلسلہ بڑی شد و مد کے ساتھ کئی سالوں تک جاری رہا۔ عوامی سطح پر کسی بھی مکتب فکر کی جانب سے ان کی کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی کیونکہ انھوں نے کسی خاص مسلک کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ نصاب کا معاملہ دو صورتوں سے خالی نہیں: یا تو حکومت ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لئے الگ الگ نصاب تعلیم مرتب کرے؛ کیونکہ قرآن مجید کی رو سے کسی بھی مکتب فکر پر کسی دوسرے مکتب کے اعتقادات کو جابرانہ مسلط کرنا درست نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو سرکاری سطح پر مرتب نصاب تعلیم میں فقط تمام مکاتب فکر کے مشترکہ اعتقادات، اخلاقیات اور احکام مذکور ہوں، خاص مسلک سے متعلق تعلیمات ہر مکتب کے علما اپنے اپنے مکتب کے پیروکاروں کو مدارس میں پڑھائیں۔ اختلافی مسائل کو مشترکہ نصاب تعلیم میں اصلا جگہ نہ دیا جائے۔ ان کا یہ دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی اس عظیم شخصیت کو شہید کیا گیا۔ اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے مابین 70% سے زیادہ اعتقادات، اخلاقیات اور فقہی مسائل مشترک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاتمیت اور اور جہاں کہیں آپ کا اسم مبارک آئے تو وہاں "صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم" کے ذریعے آپ اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام بھیجنا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی نبوت و رسالت پر عقیدہ رکھنا، اہل بیت اطہار علیہم السلام کی عظمت و جلالت اور ان سے عشق و محبت کا لازم ہونا، حضرت خدیجہ کا محسنہ اسلام اور دنیا کی چار باعظمت خواتین میں سے ایک ہونا، حضرت فاطمہ الزھراء علیھا السلام کا دنیا کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہونا، حضرت زینب علیھا السلام کا صاحب عظمت و جلالت اور دنیا کی تمام خواتین کے لئے رول ماڈل ہونا، حضرت علی علیہ السلام سے لے کر حضرت امام مہدی علیہ السلام تک 12اماموں کا مصادیق اہل بیت رسول میں سے ہونا، حضرت امام حسین علیہ السلام کا 61ہجری میں سرزمین کربلا پر 72شہداء کی قربانی کے ذریعے اسلام کی حفاظت کرنا اور یزید اور یزیدیوں کے ناپاک عزائم کو ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا کر اسلامی اقدار کو زندہ اور ان اقدار کی حفاظت کرنا۔۔۔ تمام مسلمانوں کے مابین مسلمہ امور ہیں۔ البتہ ان ہستیوں کے امام ظاہری و باطنی ہونے یا فقط امامت باطنی کے حامل ہونے کے حوالے سے مسلمانوں کے مختلف مسالک کے مابین اختلاف نظر پائے جاتے ہیں۔ لہذا امامت و خلافت کے مسئلے کو جدید نصاب میں نہ چھیڑا جائے۔ کیونکہ اہل تشیع حضرات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سلسلہ امامت کو مانتے ہیں جبکہ اہل تسنن حضرات خلافت خلفائے اربعہ کے قائل ہیں۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشینی کے مسئلے سے مسلمانوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ بنابریں جو شخصیات اور ہستیاں تمام مکاتب فکر کے مابین مسلمہ طور پر پاکیزہ اور مقدس ہستیاں ہیں، جدید نصاب میں ان ہستیوں کی شخصیت، اسلام کے لیے ان کی قربانیاں اور ان کے حالات زندگی کو شامل کیا جائے تاکہ ہماری نسل نو ان عظیم ہستیوں کی پاکیزہ زندگی کے پیرائے میں اپنی زندگی کو بھی ڈال سکیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ امامت و خلافت کے مسئلے کو ہی نہ چھیڑا جائے۔ لیکن اگر بحث خلافت کو چھیڑا جائے تو امامت سے بھی بحث کی جائے اور امامت و خلافت سے متعلق سنی شیعہ دونوں مکاتب فکر کے نظریات کو دلیلوں سمیت ذکر کیا جائے۔
نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد اور امر بہ معروف و نہی از منکر کی اہمیت کے تمام مکاتب فکر قائل ہیں البتہ ان کو انجام دینے کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا ہے، لہذا مشترکہ نصاب تعلیم میں ان جملہ امور کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر اکتفا کیا جائے اور ان کو انجام دینے کے طریقوں کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے؛ یعنی یہ کیفیت بیان نہ کی جائے کہ نماز کیسے پڑھنی ہے؟ ہاتھوں کو کھلا چھوڑنا ہے یا سینے پہ رکھنا ہے یا ناف کے برابر رکھنا ہے؟ ایسے فقہی مسائل پر ہر مسلک کے پیروکار اپنے مسلک کے مطابق عمل کرے گا۔ اسی طرح اسلام میں جہاد کی اہمیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے البتہ اس کی کیفیت اور شرائط میں اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقدس عنوان سے ماضی قریب میں ہی بہت زیادہ سوء استفادہ کیا گیا اور فقط مملکت خداداد پاکستان میں کلمہ گوئیوں نے ستر ہزار سے زائد کلمہ گو مسلمانوں کا گلا بھی جہاد کے نام پر نعرہ تکبیر کے ساتھ کاٹ دئیے۔ بنوامیہ کے ظالم و جابر حکمرانوں کے تمام جرائم کی پردہ پوشی کرکے ان کو ہیرو بناکر جدید نصاب میں پیش کرنے کی سعی لاحاصل سے گریز کیا جائے۔
مسئلہ فلسطین تمام مسلمانوں کا متفقہ علیہ مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی قرآن مجید نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے کہ یہود و نصاری کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ اور دوست نہیں بن سکتے، اس میں کوئی بھی مسلمان لچک کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ کافروں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور انہیں تعلیمات اسلامی کی طرف دعوت دینا ضروری امر ہے، مسجد الاقصی مسلمانوں کی ہے اور فلسطینی مظلوم مسلمانوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنا ہر مسلمان اپنا شرعی، اخلاقی اور دینی فریضہ سمجھتا ہے اور اس ارض مقدس پر غاصب اسرائیل کے وجود کو اسلام کے تمام مکاتب کے پیروکار ناجائز سمجھتے ہیں۔ لہذا ان امور کو جدید نصاب میں اجاگر کرنا چاہئے۔ جدید نصاب میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے جزوی اختلافی مسائل کو ہوا دینے سے مکمل گریز کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ اتحاد بین المسلمین پر زور دینا چاہئے؛ تاکہ تمام مکاتب فکر کے پیروکار امت مسلمہ کے سائے تلے جمع ہوسکیں۔ یاد رہے کہ مسلکی تعصبات سے ماوراء اور تمام مکاتب کے لئے قابل قبول جامع نصاب تعلیم ہی نسل نو کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔
 
Top