نسیمِ سحر - افسر میرٹھی

حسان خان

لائبریرین
ہنگامِ صبح ناز سے بادِ صبا چلی
ہر چار سمت باغ میں کلیاں کھِلا چلی
جس پھول کے قریب سے گزری ہنسا چلی
سبزہ جو خواب میں تھا اُسے بھی جگا چلی
کلیوں سے چھیڑ کرتی چلی گُدگُدا چلی
ہر گُل سے کھیلتی ہوئی بادِ صبا چلی
پودوں نے گود میں جو لیا تو پلٹ گئی
شرمائی اور لجائی کٹی اور سمٹ گئی
اک سانس لے کے پھر روشوں سے گزر چلی
بے خوف بے ہراس چلی بے خطر چلی
دامن ہزار طرح کی خوشبو سے بھر چلی
شبنم سے چھو کے بھیگ گئی تربتر چلی
غنچوں کو چھیڑ چھیڑ کے شرمندہ کر چلی
کس ڈھنگ سے چمن میں نسیمِ سحر چلی
اک کنج میں جو پہنچی تو چکرا کے رہ گئی
بل تو بہت سے کھائے پہ بل کھا کے رہ گئی
پھر کنج سے نکل کے بہت ناتواں چلی
اور خشک پتیوں کا لئے کارواں چلی
کچھ ٹھنڈی ٹھنڈی سانس بھرے نیم جاں چلی
بیرونِ باغ صورتِ عمرِ رواں چلی
خاک اس قدر اڑی کہ بہت ہی گراں چلی
یہ کون جانتا ہے چمن سے کہاں چلی
افسر صبا ہر ایک کو مسرور کر گئی
کیفیتوں سے روح کو معمور کر گئی

(افسر میرٹھی)
 
Top