نسبت ﷺ اور لذت ِ آشنائی

گوہر

محفلین
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
تیرے نقشِ پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
تحریر :محمدالطاف گوہر
زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو نسبت کی لو سے روشن ہوتا ہے۔
پھولوں کو خوشبو کی نسبت نے باقی کر دیا تو کانٹوں کو اذیت کی نسبت نے فانی بنا دیا ؛ جبکہ لمحوں کو زندگی سے نسبت ہوئی تو دو ممکنہ راہوں کے مسافر بنے۔ کچھ ناآشنائی کے راہوں پہ چل کر بے نشاں منزل کی راہ میں گم ہو گئے ؛ ناہموار ؛ سنسان؛ غیر شفاف ؛ بے ذائقہ ؛ بے رنگ اور اذیتوں سے بھرپور گھاٹیوں کا پانی پیا اور بحر زندگی میں پرکاہ کی مانند بہتے طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے کسی انجانے گرداب میں دھنستے اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہو کر فنا تک جا پہنچے۔ اور کچھ لمحے شناسائی کی لذت سے سرشار ہو کر محفوظ ہو ئے اور اطمینان کی سر سبز و شاداب وادیوں کے راہی بنے؛ جبکہ ہموار؛ خوش ذائقہ؛ خوش رنگ ؛ شفاف ؛ مسرتوں سے لبریز گھاٹیوں کا پانی پیا اور بحر زندگی سے عافیت و کامیابی کے ساحل تک پہنچ کر باقی ہو گئے۔
کبھی پانی کی نسبت ہواؤں سے ہوئی تو بادل بنے ؛ اور کبھی پانی کی نسبت دریا سے ہوئی تو موج نے جنم لیا؛ کبھی ہواؤں کی نسبت بادلوں سے ہوئی تو گھٹاؤں نے جنم لیا۔ اگر روشنی کی نسبت خورشید سے ہوئی تو کرنوں نے جنم لیا اور کبھی روشنی کی نسبت ماہتاب سے ہوئی تو چاندنی بن گئی۔ اگر ہواؤں نے صبح سویرے کی نسبت حاصل کی تو نسیم سحر بن گئیں۔ نسبت بھی کیا رنگ بکھیرتی ہے ؛ ایک ہی مقام کی مٹی کندن بن کر اگر خیر کی ہمسفر بنتی ہے تو باعث برکت بن جاتی ہے اور اگر شر کی ہمسفر بنتی ہے تو باعث زحمت بنتی ہے۔ اس نسبت کے کیا کہنے جسکے باعث ایک طرف پتھروں کو مقام رحمت بنا دیا تو دوسری طرف مقام ذلت؛ یہ سب کچھ نسبت کا ہی کمال ہے۔ زندگی کی کٹھن راہوں پر اور بھول بلیوں میں اگر نسبت کا عمل دخل نہ ہو تو منزل کسطرح معلوم ہو گی؟ یہ بات تو قرآن کریم میں بھی بندوں کی زبان سے بیان کی ہے کہ
” تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ انکا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔نہ انکا راستہ جن پر تیرا غضب ہوا؛ اور نہ ہی گمراہوں کا راستہ” (الفاتحہ5,6,7 )
یعنی اللہ کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ اگر ہمیں مل جائے تو منزل مل جاتی ہے ورنہ گمراہی اور یہ نسبت کا ہی کمال ہے کہ راہی منزل پاتا ہے۔ جبکہ بندہ کی اپنے رب سے نسبت کلمہ کے باعث ہے ؛ لا ؛ کہ ہر شے کی نفی اور ہر نسبت ناطہ توڑا یہ پہلا مقام ؛ اور پھر اللہ سے نسبت جوڑی کہ وہی معبود برحق ہے یہ دوسرا مقام ؛ اور اللہ سے نسبت جوڑنے کے بعد اگلا مقام۔ دیدہء دل وا کیجئے کہ مقام آگہی ہے اور کہیں بے خبری میں گزر نہ ہو جائے !!!
خیر یعنی اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی نسبت کا مقام بھی عجب ہے ؛
اگر کتے کی نسبت خیر سے ہو تو جنت کا باسی بنتا ہے !
پانی کی نسبت خیر سے ہو جائے تو آب زم زم بن جاتا ہے!
پہاڑوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو کبھی صفا و مروا اور کبھی کوہ طور بن جاتے ہیں!
راہوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو وہ طواف بن جاتی ہیں!
مگر ایک اور بھی نسبت ہے کہ قلم میں اس کو بیان کرنے کی سکت نہیں, ان الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پرونے سے قبل گھنٹوں رقت طاری رہی اور پھر جا کر ہمت پیدا ہوئی۔
اگر لفظوں کی نسبت کالی کملی ﷺ والے سے ہوئی تو قرآن بن گئے!
اگر خطہ ء زمیں کی نسبت آپ ﷺ سے ہوئی تو وہ مکہ اور مدینہ بن گئی!
وہ گنبد جو آپ ﷺ کی نسبت میں آ گیا وہ گنبد خضرا بن گیا!
اگر علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ ﷺ سے ہوئی تو علی حیدر کرار رضی اللہ عنہ بن گئے!
اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت کالی کملی ﷺ والے سے ہوئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بن گئے!
وہ مقام جو کالی کملی ﷺ والے کو پسند آجائے مقام مسجود، یعنی قبلہ بن جاتا ہے!
اور وہ بے ادب ؛ جسکی آواز آپ کو ناگوار گزرے تو اسکا ایمان بھی غارت و برباد ہو جاتا ہے کہ اسکو پتہ بھی نہیں چلتا! ( بحوالہ سورت الحجرات :2)

اس کائنات کی نسبت اک آواز سے ہے او ر یہ قیاس بعید نہیں کہ اس سے ہم آواز ہو کر اس کائنات کا ذرہ ذرہ ارتعاش (Vibration) میں ہو ، اور ایک محبت؛ نسبت کی طاقت ہے جو سب کو باندھے ہوئے ہے, آئیے اس آواز سے ہم آواز ہو کر اس نسبت لاثانی سے ہمکنار ہو جائیں اور اس کائنات کی آواز کو سمجھیں اور اس محبت میں غرق ہو کر لذت لا ثانی سے سرشار ہو جائیں؛
ان اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما(القرآن)
“بے شک اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں،
اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجو"
"اللھمہ صلی علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم"

بلغ العلٰے بکمالہ کشف الدجٰے بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلوا علیہ و آلہ​
نسبتِ سرکار میسرہو تو نہاں خانہ ءدل بھی منور ہو جاتا ہے، نسبت ہی دین ہے، نسبت نہیں تو دین بھی نہیں، نسبت کے بغیر تو نمازنماز نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آتا ہے کہ ” اقیموا الصلوٰۃ ” نماز پڑھو اپنی عربی دانی پر نازاں فصحاء ِ عرب متحیر کھڑے ہیں کہ حکمِ صلوہ کیسے بجا لائیں،نہ طریقِ صلوٰہ بتایا گیا اور نہ ہی تعدادِ رکعات بتائی گئیں،فصاحت و بلاغت دیارِ یار کی طرف دیکھ رہی ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں، نسبتِ محبوب کے بغیر فرض کی بجا آوری کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ سکوتِ محض میں بالآخر ایک نحیف آواز مرتعش ہوتی ہے، فصاحت و بلاغت سوالی بنکر مفہومِ لغت جاننا چاہتی ہے، سوال ہوتا ہے ” کیف نصلی یارسول اللہ” آقا ہم کیسے نماز پڑھیں؟کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس فریضہ کو کیسے ادا کریں۔۔پورا قرآن خاموش ہے، الحمد سے والناس تک کہیں بھی ادائیگی کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔جواب آتا ہے ، ” صلوا کما رایتمونی اصلی” مجھے دیکھو جس طرح میں پڑھتا ہوں ویسے ویسے تم بھی پڑھ لو۔

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب​
یعنی میری اداؤں کی ترتیب کو یاد کرلو جس طرح میں کرتا ہوں ویسے ویسے کرتے چلے جاو تمھاری نماز بن جائے، لہٰذا نسبتِ محبوب کے بغیر نماز نماز ہی نہیں ہے، نماز تو محبوب کی اداؤں کا نام ہے،جس محبوب کی ادائیں رب کی عبادت بن جائیں ، اس محبوب کے خیال سے رب کی عبادت میں خلل کیونکر پڑ سکتا ہے؟ کسی عاشق سے پوچھو کہ یہ ماجرا کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہی نسبت ہے۔

مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
تیرے نقشِ پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں​

نسبت کا مقام جاننا چاہتے ہوتو ذرا مناسک حج کی طرف بھی دیکھو، دورانِ حج کیاجانے والا ہر عمل کسی نہ کسی کی یاد کو زندہ رکھنے کی سعی ہے، ذرا صفا ومروہ کودیکھو جن کے بارے میں ارشاد ہوا : ان الصفاوالمروہ من شعائراللہ” کہ صفا و مروہ میری نشانیاں ہیں۔ میری نشانیاں؟ مگر کیسے؟ باری تعالیٰ کیا کبھی تو ان پر اترا، کیاکبھی ان پر چلا؟ چڑھنااترنا،یمین ویسارتو مخلوق کے لیے ہیں اور توتو وراء الورائ۔ پھر یہ صفا و مروہ تیری نشانیاں کیونکر اور کیسے؟ جواب آیا میرے بندے یہی تو سمجھاناچاہتاہوں کہ میں ان علائقِ بشریہ سے پاک ہوں، مگر جہاں میرے محبوبوں کے قدم لگ جائیں، اس جگہ کو میں اپنی نشانیاں بنادیتاہوں،۔ بلکہ یہاں تک فرمایا کہ : والبدن جعلناھالکم من شعائراللہ: کہ وہ قربانی کے جانور جو تم اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہو،اس نسبت کی وجہ سے وہ بھی اللہ کی نشانیاں بن جاتے ہیں،۔یہاں پر تو کرم کی یہ انتہا ہے کہ اگر جانور محبوب سے منسوب ہوجائیں تو اللہ کی نشانیاں بن جاتے ہیں تو پھر کیا خیال ہے ان بندوں کے بارے میں کہ جنھیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے؟
حج کی تیاری کی تو خاص لباس کا حکم آگیا کہ ان سلا لباس پہنوں؟ آخر کیوں؟ سلے ہوئے کپڑے میں زیادہ ہے حفاظت ہے، تو ان سلا کیوں؟ جواب آیا یہ میرے ابراہیم کی سنت اس کی نسبت کو نبھاو، آپ نے احرام باندھ لیا پھر کہا کہ خبر دار “اصطباغ” بھی کرنا، یعنی دایاں کندھا ننگا رکھنا، باری تعالیٰ میں تو بڑا امیر ہوں، مکمل جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا خرید سکتا ہوں، پھر کندھاکیوں ننگا کروں؟ جواب آتاہے طواف کرتے ہوئے میرے ابراہیم کا کندھا بھی ننگا تھا، بس نسبتِ خلیل کو زندہ کرو۔جناب طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکر اکڑ کر،شانے ہلا ہلاکر تیزی کے ساتھ چلا جاتا ہے اسے “رمل” کہتے ہیں۔جناب اکڑ کر چل رہے اور وہ بھی خدا کے گھر میں؟ آخر کیوں؟ اسی خدا کاتو حکم ہے کہ : لا تمش علی الارض مرحا” کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ یہ کیا ہے کہ خداکو منانے کے لیے آنے والے آج اسی کے گھر میں، میزاب رحمت کے نیچے،حطیم کے ارد گرد اکڑ کر چل رہے ہے، آخر وجہ کیا ہے؟ جواب آتا ہے ذرا میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فاتحانہ شان کےساتھ مکہ میں داخلہ تو دیکھو ، جب کل کفارو مشرکین ارد گرد کھڑے ہوکر جانثار صحابہ کو دیکھ رہے تھے تو آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکر اکڑ کر چلو تاکہ کفار کے دلوں پر تمھارا رعب و دبدبہ طاری ہو جائے، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان و ادا رب تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اب اکڑ کر چلنا حج کا حصہ بن گیا، آج بھی وہ نسبتِ یار زندہ ہو رہی ہے۔ ذرا آگے چلیے، طواف سے فارغ ہوئے تو حکم آگیا کہ :وَاتَّخِذوا مِن مَّقَامِ اِبرَاھِیمَ مصَلیٰ “اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو” مگر کیوں؟ جواب آیا مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو ابراہیم علیہ السلام نے مجھ سے میرے حبیب کو مانگاتھا،اس پتھر کی نسبت دعائے میلادِمحبوب کے ساتھ ہے، بس اس نسبت کو زندہ کرو،۔ ذرا آگے چلے پھر حکم آگیا کہ حجر اسود کو بوسہ دو،۔حجرِ اسود کو بوسہ؟مگر کیوں؟ میں ایسا کیوں کروں،جواب آیا، یہ نسبت والا پتھر ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی کہا تھا کہ اے حجر اسود “انی اعلم انک حجر لن تضرنی ولا تنفع” میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے نہ مجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، ” ماقبلتک” میں تمھیں ہرگز نہ چومتا، مگر پھربھی چوم رہاہوں تو صرف اس لیے کہ ” ولولاانی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقبلک ثم قبلہ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمھیں چومتے ہوئے دیکھا تھا، پھر آپ نے بوسہ لیا۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
(یہ تحریر کتاب " لذتِ آشنائی " کا ایک باب (
 
Top