نجم سیٹھی کے ادارئیے

پیش قدمی


نواز شریف نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بہت کھلے اور واضح الفاظ میں اسٹبلشمنٹ پر قومی اتفاق رائے کو بگاڑنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا۔اس سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا لہجہ اختیار کرنے کی کس نے شہ دی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اُن کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اُن کی اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نے مسلم لیگ نون کو تقویت پہنچائی ہے یا زک؟ کیا ن لیگ اسٹبلشمنٹ مخالف اور اسٹبلشمنٹ نواز دھڑوں میں بٹ جائے گی، جس کی پیش گوئی سیاسی نجومی، شیخ رشید کرتے رہے ہیں؟

بہت دیر سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی خاموش جلاوطنی کے پیچھے شہباز شریف اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی ”مفاہمت“ کا عمل دخل ہے۔ اس کے مطابق اسٹبلشمنٹ کی اہم ضروریات کا خیال رکھنے کے عوض مسلم لیگ ن کی قیادت کو نسبتاً محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شفاف سیاسی بندوبست کا اہتمام بھی ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلا تکان حملے کررہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت این آر او لینے کی کوشش میں ہے جسے سبوتاژ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش رہی ہے کہ ایسے تعلقات کو شروع ہونے سے پہلے ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تازہ نیب کیسز مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے تعاقب میں ہیں۔ اُن کے خلاف بھی جو شہباز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ان واقعات نے ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کے غبارے سے ہوا نکال کر نوا زشریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف کو تقویت دی ہے۔

اس سفر کا آغاز گزشتہ نومبر کو ہواتھا جب ”سلیکٹرز“ کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو شہباز شریف کے بیانیے نے نقصان پہنچایا تھا۔اب یہ سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جارہا ہے۔ اب اسے نواز شریف کے بیانیے کی حمایت حاصل ہے۔ اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے اس کاوش کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے الائنس کا برقرار رہنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوجائے گی۔وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔

عمران خان نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگانے کا سوچا تھا لیکن جب انٹیلی جنس رپورٹس ملیں کہ تقریر عمران مخالف کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف ہوگی تو اُنھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ تحریکِ انصاف کی دلیل یہ تھی کہ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری ردعمل دکھائے گی اور مسلم لیگ ن کی سرکوبی کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ الائنس کو مزید تقویت دے گی۔ لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تقریر کو اتنی پذیرائی ملے گی اور یہ تقریر ن لیگ کے حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑادے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے ہاتھ ملانے سے کل جماعتی کانفرنس پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کا باعث بن جائے گی۔

نواز شریف کی سیاسی فعالیت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی توقعات کی مدہم پڑتی ہوئی آنچ کو تیز کردیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کی شروعات سے اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کی براہِ راست زد میں آجائے گی۔ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والی کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کے محافظ کے طور پر اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کے مخالف چلنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ان معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے پیہم اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹا کر اپنے دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے۔ اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔ اور یہ وہ وقت ہے جب معاشرہ بمشکل کوویڈ 19 سے سنبھل کر بحالی کی سانسیں لینے کے قابل ہوا تھا۔

مختصر یہ کہ گھیر ے میں آئی ہوئی نیم جان اپوزیشن کی بحال ہوتی ہوئی سانسیں اسٹبلشمنٹ کے جارحانہ رویے کے نتائج کے برعکس ہیں۔ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ کچھ دروازے رفتہ رفتہ کھلنے شروع ہوجائیں گے، ہر چند بہت محتاط طریقے سے۔ اسی نسبت سے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے جگہ سکڑتی جائے گی کیونکہ اسٹبلشمنٹ اسے حز ب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی ذمہ دار سمجھے گی جس کی وجہ سے حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ کو براہ راست سیاسی محاذ آرائی کا ہدف بنایا ہے۔

شیخ رشید غصے سے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ اُن کامسکراہٹ سے لبریز اعتماد ہوا ہوچکا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے نرم مزاج رہنماؤں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روابط کی خبریں فاش ہونے سے تصدیق ہوتی ہے کہ عین وقت پر طاقت کا استعمال کیوں موقوف کیا گیا۔ ایسا کرنا فریقین کے لیے کسی طور بہتر نہ تھا۔ کسی کو بھی ایسے روابط پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ در حقیقت نواز لیگ کے حامیوں کو یقین ہے کہ ایسی ملاقاتوں سے ناانصافی کا ازالہ ہونے میں ناکامی سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔

اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صلاحیت کا بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ مل کر کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔ اس الائنس میں سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے گرنے، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اوربعد میں عدم اعتماد کے ووٹ میں قدم پیچھے کھنچ لینے سے اس کی موقع پرستی کی ایک طویل فہرست ترتیب پاتی ہے۔ اس کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو صرف اپنے راہ نماؤں کی قید و بند کی پریشانی ہے، لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے سندھ حکومت نکل سکتی ہے اگرپی ڈی ایم کی محاذ آرائی کا نتیجہ اس کے حق میں نہ نکلا۔

نواز شریف اور فضل الرحمن اُس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے پاس زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھوں جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آگے قدم بڑھاتے ہوئے آصف زرداری اور شہباز شریف اگر نوشتہ ئ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے تو وہ سب کے پاؤں پر کلہاڑی بھی مارسکتے ہیں

پیش قدمی
 
میدان سج چکا


نواز شریف نے کشتیاں جلاتے ہوئے وہ بات بلند ترین لہجے میں کہہ ڈالی جو کبھی زیر لب بھی احتیاط سے کی جاتی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ”ریاست سے بلند ریاست“ بن چکی ہے، چیئرمین نیب اپوزیشن کی سرکوبی کررہے ہیں، الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی، ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کے جج دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں؛ ایف آئی اے، ایس ای سی پی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کررہی ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خودکش اقدام ہے؛ کچھ دیگر اسے تخت یا تختہ والی صورت حال قرار دیتے ہیں کیوں کہ نواز شریف کو غیر منصفانہ طور پر اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیاتھا۔ اب اُ ن کے سامنے لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔بہت سوں کو یقین ہے کہ وہ اپنے یا اپنی جماعت کے لیے کچھ سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، یہ پاکستان میں سیاسی ارتقاع کا تاریخ ساز لمحہ ہے۔ کمرے میں موجود ہاتھی کی آخرکارشناخت ہوچکی۔ پتہ چل چکا کہ وہ مسلے کی وجہ، نہ کہ اس کا حل ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل حزب اختلا ف کی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کے لیے احتجاج کا اعلان کردیا۔ حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔اب وہ مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔

لیکن نواز شریف لندن میں محفوظ مقام سے میڈیا کے ذریعے جارحانہ لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن بھی ملین مارچ کے لیے کمر کس رہے ہیں۔ چنانچہ سیاسی میدان پر عدم استحکام اور غیر یقینی پن کی گرد گہر ی ہوتی جارہی ہے۔ معیشت کم و بیش ٹھکانے لگ چکی؛ آئی ایم ایف اپنے بیگ تیار کررہا ہے؛ مشرقی سرحد پرنریندر مودی آگ برسا رہا ہے تو مغربی سرحد پر تحریک طالبان پاکستان فاٹا میں اپنی سرگرمیاں تیز کر رہی ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔

خیر یہ تمام پیش رفت پاکستانیوں کے لیے نئی بات نہیں۔ منتخب شدہ جمہوری حکومتوں کو غیر منصفانہ طریقے سے قبل از وقت چلتا کردیا جاتا ہے۔ اکثر انتخابات دھاندلی زدہ ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی بحالی کے چلنے والی تحریکیں اور لانگ مارچ ہمارے سیاسی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ جو چیز اس مرتبہ نئی ہوئی، وہ اسٹبلشمنٹ کے دامن کا داغدار ہونا ہے۔اس وقت سب سے زیادہ کیچڑ اُسی پر اچھالا گیا ہے۔ چونکہ گزشتہ سات دھائیوں سے مقدس گائے ملکی سیاست میں طاقت ور ترین عامل ہے، اس لیے موجودہ پیش رفت نے اسے ناقابل یقین حد تک زک پہنچائی ہے۔

بدقسمتی سے یہ پریشان کن شک اپنی جگہ پر موجود ہے کہ سول ملٹری دھڑے نے محض مفاد پرستی کے لیے ایک اہم قومی ادارے کو بدنام کردیا ہے۔ اس سے معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ سابق اسٹبلشمنٹ نے پرتشویش بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی احتساب اور جانچ کے عمل سے ماورا سمجھنے جانے والے یاستی ادارے اور اس کے غیر منتخب شدہ باس بے نقاب ہوتے ہیں تو اس کا شکار ہونے والے منتخب شدہ ”بدعنوان“ سیاست دان اپنا قانونی اور جمہوری جواز تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اسٹبلشمنٹ کے لیڈران کو خود کو ہی مورد الزام ٹھہرانا چاہیے کہ اُنھوں نے ہمہ گیر مقدس گائے کو بدنام کراڈالا۔ اس کا سلسلہ چند سال پہلے چند سال شروع ہوا تھا جب سلگتے ہوئے ٹویٹ پیغامات کے ذریعے، اور ”ڈان لیکس“ پر ن لیگ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ اب یہ اتنی گرچکی ہے کہ شیخ رشید اس کے حزب اختلاف کے سیاست دانوں سے ملاقات کے راز فاش کررہا ہے۔ اس دوران وہ بھول گیا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سرکاری ترجمانوں کے میدان میں کودنے سے معاملات مزید خراب ہو گئے۔ اس سے گھیرے میں آئے ہوئے سیاست دانوں کو کھل کر بات کرنا پڑی۔ تنہائی میں ہونے والی باتیں، وعدے اور تعصبات بھی سامنے آگئے۔ پتہ چلا کہ اس حمام میں ہر کسی کا ایک سا حال ہے۔ ہر کوئی اپنے گندے کپڑے سربازار دھورہا ہے۔ اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی۔

اپنی پارسائی کے زعم میں ڈوبے تحریک انصاف کے ترجمان نوازشریف پر توپوں کے دہانے واکیے ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے پاکستان واپس آنے کے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسٹبلشمنٹ نواز شریف کے لیے دھمکی اور ترغیب، دونوں آپشنز رکھتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے میڈیا میں موجود حامی نوا زشریف کو طعنے دیتے ہوئے وطن واپس آکر مردوں کی طرح سول بالا دستی جنگ لڑنے کے لیے اکسار ہے ہیں۔ نوا زشریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ججوں اور حکومت نے خود اُنہیں باہر بھیجا تھا۔ اسٹبلشمنٹ اُن سے کیے گئے وعدوں سے پھر چکی ہے۔ اب نوا زشریف کے پاس اپنے کروڑوں حامیوں کی وفاداری پر بھروسہ کرنے کے سواکوئی آپشن باقی نہیں۔ ان کے حامیوں کویقین ہے کہ اُن کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ کیوں نہ جلاوطنی کی حفاظت استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے رہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے رہنما ایسا کرچکے ہیں۔

بلاشبہ پی ڈی ایم کے لیے بھرپور تحریک چلا کر عمران خان کو چلتا کرنا مشکل ہوگا کیونکہ ریاست کے تمام عناصر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم میں بہت کمزور ذاتی، سیاسی اور تنظیمی سطح پر تعلقات ہیں۔ اس کی قیادت عدم اعتماد اور مفادات کا ٹکراؤ رکھتی ہے۔ لیکن نواز شریف کا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ الائنس نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بلا شبہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف بولنے میں مولانا تو نواز شریف سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ درحقیقت جے یو آئی تن تنہا بھی ملک کے اہم شہروں اور قصبوں کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے ڈرایا بھی نہیں جاسکتا۔ ہونے والے مظاہروں کے اثر اور مزاحمت سے دیگر دھڑوں کو بھی شہ ملے گی اور مزاحمت کا دائرہ بڑھتا جائے گا۔ اس صورت میں ٹکراؤ ہونا لازمی ہے جس کے ناقابل تصور نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ طاقت کی دھمکی کارگر ہواور احتجاج کا سلسلہ رک جائے۔

آنے والے مہینوں میں اسٹبلشمنٹ یا تو سیاسی مفاہمت کو بڑھائے گی یا اس کا دروازہ مزید سختی سے بند کردے گی۔ ماضی میں جب وہ براہ راست مداخلت کی راہ اختیار کرتی تھی تو اسے امریکی معاشی اور فوجی امداد اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ اب چین وہ کردار ادا کرے گا۔ چنانچہ بات فیصلہ کن موڑ پرپہنچ چکی ہے۔
میدان سج چکا
 

جاسم محمد

محفلین
وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔
نجم سیٹھی جیسے سینئر تجزیہ کار کا دماغ چل گیا ہے؟ آئین میں ترمیم کیلئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت چاہئے۔ وہ اکثریت تحریک انصاف کے پاس کہاں سے آئے گی؟ ان کے پاس تو پارلیمان میں سادہ اکثریت تک نہیں ہے۔دیگر جماعتوں کے اتحادیوں اور انڈیپنڈنٹس کی مدد سے حکومت بنانی پڑی۔

اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔
چل جھوٹا۔ معیشت کیا اپوزیشن چلا رہی ہے جو ان کے رہنماؤں کی گرفتاری سے ملک کی معیشت کو کوئی نقصان پہنچے گا؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خودکش اقدام ہے؛ کچھ دیگر اسے تخت یا تختہ والی صورت حال قرار دیتے ہیں کیوں کہ نواز شریف کو غیر منصفانہ طور پر اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیاتھا۔
نواز شریف کو سپریم کورٹ کے 5 ججز نے متفقہ طور پر جھوٹا اور بددیانت قرار دیتے ہوئے تاحیات نااہل کیا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقتور ہے کہ سپریم کورٹ کے اتنے سارے ججز خرید لئے تو جائیں جا کر ملک کی عدالتوں کو تالے لگا دیں۔ پھر انہی عدالتوں میں اپنے کرپشن کیسز کے خلاف رحم کی اپیلیں کیوں دائر کر رکھی ہیں؟

اب نوا زشریف کے پاس اپنے کروڑوں حامیوں کی وفاداری پر بھروسہ کرنے کے سواکوئی آپشن باقی نہیں۔ ان کے حامیوں کویقین ہے کہ اُن کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ کیوں نہ جلاوطنی کی حفاظت استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے رہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے رہنما ایسا کرچکے ہیں۔
کونسی جلا وطنی ؟ اتنی جلدی بھول گئے کہ ایک سال قبل سزا یافتہ مجرم نواز شریف جیل میں مرنے کے قریب تھا۔ ملک کی عدالتوں اور حکومت سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رحم کی بھیک مانگ کر چند ہفتوں کیلئے علاج کی غرض سے ملک سے باہر گیا۔ اور اب پوری ڈھٹائی سے انہی عدالتوں کے احکامات کی پیروی نہ کرتے ہوئے واپس نہیں آرہا۔ الٹا اپنے تازہ عدالتی اسٹیٹس مفرور اشتہاری پر خوش ہے اور اسی کے ذریعہ ملک میں فوج کے خلاف جمہوری انقلاب لانا چاہتا ہے۔ یہ اپنے حامیوں کو تو بیوقوف بنا سکتا ہے۔ پوری قوم کو نہیں۔
 
جم سیٹھی جیسے سینئر تجزیہ کار کا دماغ چل گیا ہے؟ آئین میں ترمیم کیلئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت چاہئے۔ وہ اکثریت تحریک انصاف کے پاس کہاں سے آئے گی؟ ان کے پاس تو پارلیمان میں سادہ اکثریت تک نہیں ہے۔دیگر جماعتوں کے اتحادیوں اور انڈیپنڈنٹس کی مدد سے حکومت بنانی پڑی۔
پاکستانی آمروں نے ہمیشہ ریفرنڈم کا آپشن استعمال کیا ہے۔
 
کیا اس بات میں اب کسی کو کچھ شبہہ رہ گیا ہے؟

نواز شریف نے کشتیاں جلاتے ہوئے وہ بات بلند ترین لہجے میں کہہ ڈالی جو کبھی زیر لب بھی احتیاط سے کی جاتی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ”ریاست سے بلند ریاست“ بن چکی ہے، چیئرمین نیب اپوزیشن کی سرکوبی کررہے ہیں، الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی، ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کے جج دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں؛ ایف آئی اے، ایس ای سی پی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کررہی ہیں۔
 

بابا-جی

محفلین
مُعاملہ نہایت مختصر ہے۔ اگر "وُہ" احتساب کریں گے تو "یِہ" بھی پریشر ڈال کر احتساب کروانا چاہیں گے اور یُوں این آر او "ہو" جاتا ہے ہر مرتبہ۔ مُجھے لگتا ہے کہ کپتان کی بھینٹ لازم ہے مگر جب بھی بھینٹ چڑھانے کا وقت آتا ہے تو خانِ اعظم بے چین ہو جاتا ہے۔ جب وہ چینلز کا رُخ کرنے لگ جائے اور اِقتدار چھوڑنے کی بات کرے تو سمجھ جائیں کہ 'بات چیت' جاری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا اس بات میں اب کسی کو کچھ شبہہ رہ گیا ہے؟
۲۰۰۸ سے ۲۰۱۸ جسے جمہوری دور کہا جاتا ہے میں نیب نے کتنے بڑے کرپشن کیسز پکڑے؟ اس جمہوری دور میں آپ کے صدر زرداری کہا کرتے تھے کہ چیئر مین نیب کی کیا جرات ہے، اس کی کیا مجال ہے جو مجھے پکڑے۔ کیا جمہوریت پسند ایسے ہوتے ہیں؟
۲۰۰۸ کا الیکشن ڈکٹیٹر مشرف کے نیچے ہوا۔ ۲۰۱۳ کا الیکشن اعلی عدلیہ کے نیچے ہوا۔ دونوں الیکشنز میں ہارنے والی جماعتوں نے دھاندلی اور بے ضابطگیوں کا شور مچایا۔ کیا وہ الیکشنز جیتنے والی جمہوری جماعتوں نے ان اعتراضات کو دور کرنے کی کوشش کی؟ کیا جمہوریت پسند ایسے ہوتے ہیں؟
اس دس سالہ جمہوری دور میں افواج پاکستان کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل آیا، ڈان لیکس سکینڈل آیا، مگر خلائی مخلوق اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ان سکینڈلز کے اصل کرداروں کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکی۔ میمو گیٹ سکینڈل کا غدار حسین حقانی امریکہ فرار ہو گیا، جبکہ ڈان لیکس کا غدار نواز شریف لندن مفرور ہے۔ کیا جمہوریت پسند اپنے ہی ملک کی فوج کو پوری دنیا میں گندا کرتے ہیں؟ کیا جمہوریت پسند ایسے ہوتے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
مُعاملہ نہایت مختصر ہے۔ اگر "وُہ" احتساب کریں گے تو "یِہ" بھی پریشر ڈال کر احتساب کروانا چاہیں گے اور یُوں این آر او "ہو" جاتا ہے ہر مرتبہ۔ مُجھے لگتا ہے کہ کپتان کی بھینٹ لازم ہے مگر جب بھی بھینٹ چڑھانے کا وقت آتا ہے تو خانِ اعظم بے چین ہو جاتا ہے۔ جب وہ چینلز کا رُخ کرنے لگ جائے اور اِقتدار چھوڑنے کی بات کرے تو سمجھ جائیں کہ 'بات چیت' جاری ہے۔
اس بار کوئی این آر او نہیں ہوگا۔ این آر او ہونا ہوتا تو ترجمان فوج کو باقاعدہ نام لیکر عوام کو بتانا نہ پڑتا کہ ان کے پاس کون کونسا جمہوری انقلابی این آر او لینے آیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب وہ چینلز کا رُخ کرنے لگ جائے اور اِقتدار چھوڑنے کی بات کرے تو سمجھ جائیں کہ 'بات چیت' جاری ہے۔
کپتان کو اقتدار سے الگ ہونا قبول ہے۔ خاندانی جماعتوں کو ایک اور این آر او دینا قبول نہیں ہے۔ باقی جنرل عاصم باجوہ کے خلاف ایف آئی اے، نیب، عدالتیں کاروائی کر سکتی ہیں۔ کونسا جمہوری انقلابی اپوزیشن لیڈر ایسا ہے جو ان کے خلاف عدالت جائے؟ حکومت تو ابھی تک ان کا الیکشن ٹریبونل اور الیکشن اصلاحاتی کمیٹی میں انتظار کر رہی ہے جہاں انہوں نے ان الزامات کو ثابت کرنا تھا کہ ان کے ساتھ ۲۰۱۸ کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔
 

بابا-جی

محفلین
کونسا جمہوری انقلابی اپوزیشن لیڈر
حکُومت کُرپشن کے انسداد کے لیے جو لے کر آئی ہے، اُسے غلطی سے ووٹ کہتے ہیں۔ ہمیں اپوزیشن سے کیا لینا دینا۔ خُود کرو جو کرنا ہے، یہ عُذرِ لنگ تراشنا جگ ہنسائی کے مُترادف ہے۔
 
کپتان کو اقتدار سے الگ ہونا قبول ہے

ہاہاہا۔ نیازی کو اقتدار چھوڑنا ہی تو قبول نہیں۔ اس کے لیے کٹھ پتلی بننا ہی مقدر ہے۔ پچھلے کمرے میں چھپ کر بیٹھ کر اپوزیشن اور جنرل صاحب کو قومی سلامتی کے امور پر فیصلہ سازی کرتے دیکھ کر۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکُومت کُرپشن کے انسداد کے لیے جو لے کر آئی ہے، اُسے غلطی سے ووٹ کہتے ہیں۔ ہمیں اپوزیشن سے کیا لینا دینا۔ خُود کرو جو کرنا ہے، یہ عُذرِ لنگ تراشنا جگ ہنسائی کے مُترادف ہے۔
وزیر اعظم نے تو حالیہ انٹرویو میں فرما دیا ہے کہ ان کے وکلا جنرل عاصم باجوہ کے تحریری جواب سے مطمئن ہیں۔ جنرل عاصم باجوہ نے بھی تحریری جواب میں کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی ان کے اس جواب سے مطمئن نہیں تو اسے عدالتوں میں چیلنج کر سکتا ہے۔ وہ تمام تر منی ٹریل دستاویزات کے ساتھ وہاں دے دیں گے۔
چونکہ اپوزیشن نے تا حال جنرل عاصم باجوہ کے جواب کو عدالتوں می چیلنج نہیں کیا اس کا مطلب وہ بھی اس سے مطمئن ہیں اور اب صرف سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جب انہوں نے ۲۰۱۸ الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر الزامات لگائے تھے۔ اور جب حکومت نے ان کو الیکشن ٹریبونل اور الیکشن ریفارمز کمیٹی میں ان الزامات کو ثابت کرنے کیلیے مدعو کیا تو وہ سب بھاگ گئے۔
 

بابا-جی

محفلین
وزیر اعظم نے تو حالیہ انٹرویو میں فرما دیا ہے کہ ان کے وکلا جنرل عاصم باجوہ کے تحریری جواب سے مطمئن ہیں۔ جنرل عاصم باجوہ نے بھی تحریری جواب میں کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی ان کے اس جواب سے مطمئن نہیں تو اسے عدالتوں میں چیلنج کر سکتا ہے۔ وہ تمام تر منی ٹریل دستاویزات کے ساتھ وہاں دے دیں گے۔
چونکہ اپوزیشن نے تا حال جنرل عاصم باجوہ کے جواب کو عدالتوں می چیلنج نہیں کیا اس کا مطلب وہ بھی اس سے مطمئن ہیں اور اب صرف سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جب انہوں نے ۲۰۱۸ الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر الزامات لگائے تھے۔ اور جب حکومت نے ان کو الیکشن ٹریبونل اور الیکشن ریفارمز کمیٹی میں ان الزامات کو ثابت کرنے کیلیے مدعو کیا تو وہ سب بھاگ گئے۔
کہاوت میں ایک اندھا ہوتا ہے جو ریوڑیوں بانٹتا ہے اور اپنوں کو ہی دیتا ہے۔ میں کیوں خانِ اعظم کو اندھا کہوں؟ خُود کہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاہاہا۔ نیازی کو اقتدار چھوڑنا ہی تو قبول نہیں۔ اس کے لیے کٹھ پتلی بننا ہی مقدر ہے۔ پچھلے کمرے میں چھپ کر بیٹھ کر اپوزیشن اور جنرل صاحب کو قومی سلامتی کے امور پر فیصلہ سازی کرتے دیکھ کر۔
وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ جنرل باجوہ نے ان سے پوچھ کر ہی اپوزیشن جماعتوں کو گلگت بلتستان کی سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی تھی۔ اگر وزیر اعظم نے جھوٹ بولا تو ترجمان فوج اس کو رد کر دے۔ جیسا کہ ۲۰۱۴ دھرنے کے دوران نواز شریف نے آرمی چیف کو ثالثی بنایا تھا۔ لیکن پارلیمان میں جا کر مکر گئے۔ جس پر ترجمان فوج نے ٹویٹ کیا کہ آپ کا وزیر اعظم سفید جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ ٹویٹ آج بھی موجود ہے۔ یعنی نواز شریف نے اس جھوٹ کو تسلیم کر لیا تھا۔
It was Sharif who sought army’s ‘facilitative role’ | Pakistan Today
 
وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ جنرل باجوہ نے ان سے پوچھ کر ہی اپوزیشن جماعتوں کو گلگت بلتستان کی سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی تھی۔ اگر وزیر اعظم نے جھوٹ بولا تو ترجمان فوج اس کو رد کر دے
اس مرتبہ یہ جھوٹ ہی ان کے ڈاکٹرائن کے لیے بہتر ہے۔ بے چارے سیلیکٹڈ کے اس جھوٹ سے ان کا کیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کہاوت میں ایک اندھا ہوتا ہے جو ریوڑیوں بانٹتا ہے اور اپنوں کو ہی دیتا ہے۔ میں کیوں خانِ اعظم کو اندھا کہوں؟ خُود کہو۔
نواز شریف دور میں وہ جب کسی سرکاری عہدے پر اپنے رشتہ داروں یا قریبیوں کو بٹھاتے تو عمران خان ان کے خلاف عدالت چلے جاتے۔ ایک بار تو یوتھ لون سکیم سے مریم نواز کی چھٹی کروا دی تھی۔
LHC asks govt to remove Maryam from loan scheme - Pakistan - DAWN.COM

آجکل کی جمہوری انقلابی اپوزیشن اسی طرح عدالت میں پٹیشن ڈال کر جنرل عاصم باجوہ کو تمام سرکاری عہدوں سے ہٹا سکتی ہے۔ لیکن وہاں عدالت میں سیاسی بیان بازی نہیں ثبوت درکار ہوتا ہے۔ جو ان کے پاس ہے نہیں۔
 

بابا-جی

محفلین
نواز شریف دور میں وہ جب کسی سرکاری عہدے پر اپنے رشتہ داروں یا قریبیوں کو بٹھاتے تو عمران خان ان کے خلاف عدالت چلے جاتے۔ ایک بار تو یوتھ لون سکیم سے مریم نواز کی چھٹی کروا دی تھی۔
LHC asks govt to remove Maryam from loan scheme - Pakistan - DAWN.COM

آجکل کی جمہوری انقلابی اپوزیشن اسی طرح عدالت میں پٹیشن ڈال کر جنرل عاصم باجوہ کو تمام سرکاری عہدوں سے ہٹا سکتی ہے۔ لیکن وہاں عدالت میں سیاسی بیان بازی نہیں ثبوت درکار ہوتا ہے۔ جو ان کے پاس ہے نہیں۔
وُہ کیوں جائیں گے۔ اُنہیں این آر او چاہیے۔ کُرپشن ختم کرنے کا دعوے دار ہیرا تو ہمارے پاس تھا۔ ویسے بھی ہماری قوم کو کوئی ماڈل پسند نہیں آتا ہے، اِس لیے اپوزیشن مومینٹم پیدا کر گئی تو فوجی این آر او دیں گے، رسِیدیں کُرپٹ عناصر کی طرح وہ بھی نہیں دینا چاہتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن مومینٹم پیدا کر گئی
اصل اپوزیشن لیڈران تو خود ملک سے مفرور ہیں۔ مومنٹم کس نے پیدا کرنا ہے؟
فوجی این آر او دیں گے، رسِیدیں کُرپٹ عناصر کی طرح وہ بھی نہیں دینا چاہتے۔
فوج نے این آر او دینا ہوتا تو خود ہی اپوزیشن سیاست دانوں سے خفیہ ملاقاتوں کا احوال افشاں نہ کرتی۔
 

بابا-جی

محفلین
اصل اپوزیشن لیڈران تو خود ملک سے مفرور ہیں۔ مومنٹم کس نے پیدا کرنا ہے؟

فوج نے این آر او دینا ہوتا تو خود ہی اپوزیشن سیاست دانوں سے خفیہ ملاقاتوں کا احوال افشاں نہ کرتی۔
یِہ اُنہوں نے کرنا ہے جِن کے اِشارے پر سیاست دان چلتے ہیں۔ مُتنازع باجوہ ڈاکٹرائن میں اگلا مُمکنہ فیز بغاوت کے مُقدمات اور صدارتی نظام کا ہے، یہ کام عاصم باجوہ کے اثاثے سامنے آنے کے بعد نامُمکن سمجھے جائیں اِس لیے باجوہ مُخالف بیانیہ زور پکڑ چُکا ہے۔ کوئی ایک بڑی حکُومتی غلطی یا بڑا واقعہ ہوا تو مومینٹم بن جائے گا۔
 
آخری تدوین:
Top