نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت

سیفی

محفلین
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مح

وہ گھڑ سواروں کا پورا دستہ تھا۔ گھوڑے دوڑنے کے بجائے دلکی چال چل رہے تھے۔ آپس میں افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ آج ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اچانک ان کے ایک ساتھی نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور ساتھیوں کو رکنے کا اشارہ کیا۔

"کیوں بھئی! رک کیوں گئے؟" ساتھیوں نے پوچھا۔

"وہ دیکھو شکار!"

سب نے ادھر دیکھا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا۔ ایک چھوٹی سی بستی میں ایک خیمے کے باہر آٹھ نو برس کا ایک بچہ کھڑا تھا۔ ایک کہنے لگا: "بھائیو، یہ بھی خوب رہی، ڈاکا تو ڈال نہ سکے، اب اس بچے پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟"

وہ غراتے ہوئے بولا: "تمھارے سر کی قسم، بڑا اچھا شکار ہے۔۔۔۔ بڑی اچھی قیمت دے گا۔"

تمھاری ماں خوشی منائے۔۔۔۔ یہ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ شکار کام کا ہے، کسی کے آنے سے پہلے ہی اس پھول کو توڑ لیتے ہیں!" کہنے والے نے کہا اور ساتھیوں کو جھاڑیوں کی اوٹ میں ہونے کی ہدایت کی۔ خود وہ اکیلا ہی خیمے کی طرف گھوڑا بڑھانے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط سے گھوڑا خیمے کے پاس کھڑا کیا۔ نیچے اترا اور پھر کسی چیل کی طرح جھپٹا اور ایک ہی ہاتھ سے بچے کو اٹھا لایا۔ اسے گھوڑے کی زین پر پٹخ کر ایک ہاتھ اس کے اوپر رکھا تا کہ وہ گرے نہ اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر خود بھی بڑی مہارت سے اس پر سوار ہوگیا۔ ساتھ ہی اس کا گھوڑا بگٹٹ بھاگنے لگا۔ اس کے ساتھی خوشی سے نعرے لگاتے اس کے پیچھے ہو لیے۔

معصوم بچے کی چیخ و پکار، گھوڑے کے ٹاپوں اور غارت گروں کی ہاہاکار میں دب گئی۔

خیمے کے اندر بچے کی ماں اور اس کی نانی باتوں میں مصروف تھیں۔ ماں کو پتا ہی نہ چلا کہ بچہ کب کھیلنے کے لیے باہر نکلا۔ وہ تو گھوڑوں کے بھاگنے کی آوازیں ہی سن کر سہم گئی تھی مگر جب اسے بچے کا خیال آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ روتی پیٹتی باہر نکلی تو دیکھنے والے چند ایک لوگوں نے بتایا کہ گھوڑے والے تو ڈاکو تھے اور وہ بچے کو اٹھا کر چلتے بنے ہیں۔

ماں پر تو غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اغوا ہونے والا بچہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اپنے باپ کا تو بہت ہی پیارا تھا۔ باپ کو بچے کے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا، وہ تو بڑی ضد کرکے یمن سے اپنی والدہ سے ملنے آئی تھی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ یہاں یہ الم ناک حادثہ ہو جائے گا۔ بے چاری سوچنے لگی کہ معلوم نہیں بیٹے کا باپ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟

باپ کو خبر ہوئی تو سر میں خاک ڈالنے لگا۔ اس کے غم کا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا۔ مرد ہو کر وہ بھی بیٹے کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

حارثہ کو اچھی طرح علم تھا کہ یہ ڈاکو اس کے لخت جگر کو کہیں دور کے علاقے میں بیچ دیں گے اور یوں لاڈ پیار سے پلنے والا ساری زندگی نہ جانے کس حال میں رہے گا۔

باپ نے چاروں طرف گھڑ سوار دوڑا دیے۔ قریب کے تمام علاقوں میں پیغام بھجوا دیے، مناد ی کرائی۔ ماں نے منتیں مانیں کہ بیٹا مل جائے۔ پورا خاندان اس کام میں جت گیا تھا۔

ڈاکو بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ انھوں نے کسی اونچے خاندان کا چشم و چراغ اڑایا ہے، اس لیے انھوں نے بچے کو باہر ہی نہ نکالا۔ اس کی حفاظت اس طرح کرتے رہے جس طرح قصائی اپنے بکرے کی کرتا ہے۔ اس تلاش میں کئی برس گزر گئے مگر حارثہ نے ہار نہ مانی۔ اس کا دل کہتا تھا کہ بیٹا ضرور مل جائے گا۔

حارثہ ایک دن اپنے گھر میں بیٹے کی یاد میں غمگین بیٹھا تھا کہ اس کے عزیزوں میں کچھ لوگ اس سے ملنے آئے۔ یہ لوگ اس سال حج کرکے آئے تھے۔ انھوں نے کہا: "حارثہ خوش ہو جاؤ۔ ہم تمھارے بیٹے سے مل کر آئے ہیں!"

"کہاں ہے میرے دل کا ٹکڑا؟ مجھے پوری بات سناؤ!" حارثہ ابن شرجیل اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ رشتہ داروں نے بتایا: "اے ہمارے چچا کے بیٹے، ہم اس سال حج کرنے گئے تھے۔ وہاں ہم نے تیرہ چودہ برس کے ایک لڑکے کو دیکھا۔ ہمیں تو وہ تمھارا کھویا ہوا لعل ہی لگا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ اے شریف باپ کے بیٹے، تم کس قبیلے سے ہو؟ اس نے بتایا کہ بنی کلب سے۔ ہم نے پوچھا کہ تم یہاں اکیلے کیوں ہو؟ اس نے بتایا کہ کچھ برس قبل مجھے ڈاکوؤں نے اٹھا لیا تھا۔ پھر مجھے مکہ میں لگنے والے ایک میلے میں بیچ دیا اور اب میں ایک شریف اور اونچے خاندان کا غلام ہوں۔"

"کیا تم نے اسے اس کے باپ کی حالت نہ بتائی؟ یہ نہ کہا کہ آنسو بہا بہا کر میری آنکھوں کا پانی خشک ہو گیا ہے۔"

"کیوں نہیں، ہم نے تمھارا سارا حال اس کو بیان کیا۔ اس نے کہا کہ میرے والد کو تسلی دینا اور کہنا کہ حوصلہ رکھے، غم نہ کرے۔ میں یہاں پر بہت آرام اور سکون سے ہوں۔"

"ہائے میری قسمت! پتا نہیں بے چارا کس حال میں ہوگا اور میرا دل بہلانے کو کہہ دیا کہ اچھا ہوں۔ ارے دوستو، کیا تمھیں یقین ہے کہ وہ میرا ہی بیٹا تھا؟"

"ہاں ہاں! اس معاملے میں تو ہمیں ذرا بھی شک نہیں۔ اس نے اپنا اور تمھارا نام بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا تھا اور اسے یہ بھی یاد تھا کہ اسے خیمے سے باہر کھڑے ڈاکوؤں نے اٹھایا تھا!"

حارثہ اپنے بھائی کعب سے کہنے لگا: "اے میرے ماں جائے۔ چلو ابھی اور اسی وقت چلو۔ مجھے تو بیٹے کو دیکھے بغیر ایک پل چین نہیں۔ ہم مکہ کی طرف چلتے ہیں۔"

چنانچہ ایک چھوٹا سا قافلہ اسی وقت مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ منزلوں پر منزلیں مارتے یہ لوگ مکہ پہنچ گئے۔ انھیں معلوم ہوا کہ بیٹے کو عکاظ نامی میلے میں فروخت کیا گیا تھا اور ان کے خریدار کا نام "حکیم" تھا۔ حکیم ایک معزز قبیلے کا شریف آدمی تھا۔ وہ اس کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس نے حارثہ کے بیٹے کو خریدا ضرور تھا لیکن پھر اسے اپنی ہمشیرہ کو تحفے میں دے دیا تھا۔ حارثہ کو دراصل اسی خاتون کے قبیلے "بنی معد" کا بتایا گیا تھا۔ اب وہ حکیم کی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

انھیں بتایا گیا کہ وہ جس گھر کی طرف جا رہے ہیں، وہ بڑے معزز لوگوں کا گھر ہے۔ وہاں پہنچ کر ان کی ملاقات ایک نہایت پر وقار شخص سے ہوئی۔ حارثہ اپنے بیٹے کے آقا کو دیکھتے ہی مطمئن ہوگیا۔ اس شخص کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس سے کسی کو نقصان پہنچ ہی نہیں سکتا!

اس نے میزبان سے اپنے آنے کا مطلب بیان کیا اور کہا:

"اے معزز سردار، آپ اور آپ کا خاندان اللہ کے گھر کا نگہبان ہے۔ آپ مصیبت زدوں کی مدد اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ میرا بیٹا آپ کی ملکیت میں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ جس قدر روپیہ پیسہ چاہیں لے لیں مگر میرے بیٹے کو آزاد کر دیں۔ میری آنکھیں اس کا چہرہ دیکھنے کوترس رہی ہیں۔"

"معزز مہمان، آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟" میزبان نے انتہائی میٹھے لہجے میں پوچھا۔

"میں حارثہ کے بیٹے زید کی بات کر رہا ہوں۔"

"اچھا!" انھوں نے کہا اور کچھ سوچ میں پڑ گئے۔

حارثہ نے میزبان کے چہرے پر کچھ بے چینی سی دیکھی تھی۔ وہ منزل کے اس قدر قریب آ کر ایک عجیب کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ تبھی اس کے کانوں میں آواز آئی: "کیا اس کے علاوہ آپ کے یہاں آنے کا کوئی مقصد نہیں؟"

"نہیں مہربان سردار، ہم تو بیٹے کو منہ مانگی قیمت پر لینے آئے ہیں۔"

"تو پھر سنیے! زید کو بلائے لیتے ہیں۔ اگر وہ آپ کو پہچان لے اور آپ کے ساتھ جانے کو راضی ہو جائے تو اسے لے جائیے۔ میں اس کے عوض ایک پائی بھی نہ لوں گا، لیکن اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر رضا مند نہ ہو تو پھر مجھے پسند نہیں ہو گا کہ آپ لڑکے سے زبردستی کریں۔"

حارثہ اور اس کا بھائی کعب ایک ساتھ بولے: "اے شریف زادے، اس سے بڑھ کر اور اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ آپ نے تو حق اور انصاف کی بات کی ہے۔"

اور پھر زید کو بلایا گیا۔ وہ باپ کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گیا اور جب اس سے پوچھا گیا : "کیا تم ان بزرگوں کو پہچانتے ہو؟" تو بولا: "کیوں نہیں آقا، یہ میرے پیارے والد ہیں اور یہ محترم چچا!"

"تو زید، تم مجھے بھی پہچانتے ہو۔ میرا خاندان بھی تمہیں معلوم ہے۔ میں نے تم سے جو معاملہ رکھا ہے اس سے بھی تم بخوبی واقف ہو۔ فیصلہ تمھارے اختیار میں ہے۔ تم پر کوئی زبردستی نہیں، تم چاہو تو خوشی کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ جا سکتے ہو۔ چاہو تو یہاں بھی ٹھہر سکتے ہو۔ تم پر کوئی زور نہیں۔"

زید کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی۔ بولا: "میں نے آپ کا حسن سلوک دیکھا ہے۔۔۔۔ خدا کی قسم اس کے بعد میں ہرگز آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔"

زید کی بات میں ایک جذبہ تھا، محبت کا ایک سمندر تھا۔ باپ اور چچا نے حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھا۔ باپ، جو نہ جانے کب سے بیٹے کی محبت کا چراغ سینے میں جلائے، اسے وادی وادی تلاش کرتا پھر رہا تھا، حیرت اور دکھ سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر بولا:

"اے زید! تم پر افسوس، تم آزادی پر غلامی کو قربان کر رہے ہو؟ خدا کی قسم تمھاری تلاش میں کون سا ایسا پتھر ہوگا جو میں نے نہ الٹا ہو اور اب تم کیا کہہ رہے ہو؟"

زید بولے: "اے والد محترم، آپ درست فرماتے ہیں لیکن میں نے ان کی ذات میں جو کچھ دیکھا ہے، ان کو جس طرح کا خوب پایا ہے، اس کے بعد یہ میرے بس سے باہر ہے کہ میں انھیں چھوڑ دوں۔"

زید کا فیصلہ اٹل تھا۔

باپ اور چچا حیرت سے بیٹے کا فیصلہ سن رہے تھے کہ وہ عظیم ہستی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے زید کا بازو پکڑا اور اس کے چچا اور والد کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا۔ کعبہ میں پہنچ کر انھوں نے کہا: "میں تم سب لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا وارث ہے اور میں اس کا وارث۔"

اس اعلان سے زید کے والد اور چچا کا چہرہ کھل اٹھا۔ سوچنے لگے کہ انھیں تو بیٹے کی عزت اور بہتری سے غرض ہے۔ اگر وہ یہاں خوش ہے تو میری خوشی بیٹے کی خوشی کے ساتھ ہے۔ گویا انھیں احساس تھا کہ بچوں کے معاملات میں ان کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انھیں اجازت دی کہ وہ جب چاہیں یہاں آ کر اپنے بیٹے سے مل سکتے ہیں اور زید کو بھی نصیحت کی کہ وہ اپنے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے ان کے ہاں جایا کریں۔ یوں زید بن حارثہ نے اپنے حقیقی باپ کے بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ اس سے چند برس بعد جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اپنا رسول منتخب کیا تو زید رضی اللہ عنہ آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے شخص تھے جو مسلمان ہوئے۔

انھیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حکیم نے عکاظ کے بازار سے خریدا اور تحفے میں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا تھا۔ تب سے زید کوآپ کی خدمت میں لگا دیا گیا تھا۔ زید رضی اللہ عنہ چند ہی دنوں کے بعد آپ سے اس قدر مانوس ہو گئے تھے کہ ساری زندگی آپ کے پاس رہے۔ زید کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ نے انھیں ساری زندگی کبھی نہیں ڈانٹا!


مضمون کا ماخذ
 
Top