ناکامی مقدر (ڈان اردو اداریہ)

حسان خان

لائبریرین
ہم لشکرِ جھنگوی، کراچی اور کوئٹہ کے بارے میں باتیں چاہے جتنی کرلیں لیکن جب تک ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ عسکریت پسندی ایک محدود مسئلہ ہے، تب تک بے گناہ شہری بدستور مرتے ہی رہیں گے۔
حقیقی چینلنج تو جہاں سے یہ مسئلہ آرہا ہے، اس سے نمٹنے کا ہے۔ اگر ایک طرف یہ ملک کے کچھ خاص حصوں میں لوگوں کے لیے مصائب کا سبب ہے تو سلسلہ وار، چھوٹے اور الگ تھلگ مسائل کو ٹکڑوں میں مقامی انداز سے حل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔​
یا پھر بے تکان جاری فرقہ وارانہ تشدد ان ہی مسائل کے مساوی رہ گیا ہے جیسا کہ کوئٹہ میں لوڈ شیڈنگ، کراچی میں ٹریفک جام یا پھر وہ تمام مسائل جن کا پاکستانی روزانہ کی بنیادوں پر سامنا کرتے ہیں۔​
حقیقت میں یہ قومی ہنگامی حالت یا نیشنل ایمرجنسی ہے اور جو بات اب تک سامنے نہیں، وہ یہ اعتراف کہ مسئلہ لشکرِ جھنگوی یا اس جیسی دیگر تشدد پسند جماعتوں تک محدود نہیں، ان سے کہیں آگے کا ہے۔​
اُس پر توجہ مرکوز کرنا تب تک بے سُود رہے گا جب تک فرقہ واریت کے تمام چہروں، بشمول اُن کے جنہیں برداشت کیا جاتا رہا ہے، کے خلاف مکمل اور بھرپور کریک ڈاؤن نہیں کیا جاتا۔​
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنہیں کچھ مخصوص حالات میں، ریاست، سیاستدانوں سے لے کر میڈیا کے بعض حصوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کی طرف سے فروغ بھی دیا جاتا رہا ہے۔​
اہلِ سُنت والجماعت کالعدم سپاہِ صحابہ کا دوسرا جنم ہے تو اس کا مطلب، مثال کے طور، کیا یہی ہوگا کہ وزارتِ داخلہ اس پر ‘پابندی’ لگادے؟​
ماضی میں اہلِ سُنت والجماعت کے بھی متعدد ارکان بدلے میں مارے گئے ہیں لیکن وجہ یہ ہے کہ اس کا عسکریت پسند لشکرِ جھنگوی سے زیادہ واضح اور قریبی تعلق ہے۔​
اس کے باوجود، جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کی طرف سے، عسکریت پسندی کے حوالے سے منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس میں جہاں ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا، وہیں اس تنظیم کے صدر کو بھی دعوت دی گئی۔​
انہوں نے کراچی کےایک مقتول پولیس اہلکار کی نمازِ جنازہ کی امامت کی، جس میں پولیس کے سینئر افسران بھی شریک تھے۔​
وہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے معروف سیاستدانوں کے ساتھ ٹی وی پر بھی نظر آتے ہیں جو اُن کے زیرِ اثر حلقوں میں ووٹ دلوانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ریاست انہیں عسکریت پسندوں سے سودے بازی کے لیے بھی استعمال کرتی رہی ہے۔​
اور اہلِ سُنت والجماعت ایسی واحد مثال نہیں۔ یہ لشکرِ طیبہ کے بنا پابندی کے چہرہ بنی، جماعت الدعوۃ کے ساتھ جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں، یہ مرکزی سیاسی دھارے کی جماعتِ اسلامی کے اجتماعات میں بھی شرکت کرتے ہیں۔​
اور اس میں حیرت کا کوئی پہلو نہیں کہ ہم نفرت پھیلانے والوں پر قابو نہیں پاسکتے۔ ہم خود کو باور کراتے ہیں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ وہ کون ہیں۔​
بند آنکھوں کے ساتھ کالعدم یا پابندی کے بعد نام بدل کر سرگرم تنظیموں کے ساتھ مراسم میں، اب مثال کےطور پر، طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بڑھتی باتوں کو بھی شامل کرلیں۔​
ان کے سوا دیگر گروہوں، جیسا کہ لشکرِ جھنگوی، تحریکِ طالبان پاکستان، القائدہ، یا افغان طالبان، یا قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکی جنگجو، یہ سب کسی پردے میں نہیں ہیں۔​
اگرچہ ان سب کے اینجڈے یکساں نہیں ہوسکتے لیکن وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور حکمتِ عملی کے تحت تعین کرتے ہیں کہ کون کہاں جائے گا، کیا کرے گا۔ اسی لیے اُن کے تشدد کو کو روکنے میں اب تک ناکامی کا سامنا رہا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، حالانکہ پاکستانی طالبان اور لشکرِ جھنگوی ایک یا مماثل نہیں ہیں۔​
لہٰذا اُن کے یہ باہمی رابطے شدید تقاضا کرتے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ غیر مشروط اور موثر بات چیت کے منصوبے پر ایک بار پھر اچھی طرح سوچ بچار کرلیا جائے، خاص کر ایسے وقت میں کہ جب آج ریاست کی کمزور پوزیشن بالکل عیاں ہوچکی ہے۔​
شاید موجودہ صورتِ حال کا ایک ہی پہلو امید افزا ہے اور وہ یہ کہ فرقہ وارانہ حملے اب تک مذہبی تنازع میں تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔​
شیعہ برادری اب تک برداشت کا مظاہرہ کررہی ہے اور شیعہ ۔ سُنّی دونوں جان چکے کہ یہ شدت پسند نظریات، ایک مختصر تششدد پسند گروہ تک ہی محدود ہیں۔​
یہی وجہ ہے کہ جوابی قتل نہ ہونے کی وجہ سے عسکریت پسند یا کالعدم تنظیموں کے ارکان کے مقاصد اب تک محدود ہیں تاہم اتوار کو کراچی میں ہونے والے حملے سے ایک پریشان کُن مثال سامنے آئی، جو سنگینی بڑھانے کی شدت رکھتی ہے۔​
سترہ فروری کو کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر حملہ ہوا، یہ پہلی مثال تھی کہ جب کسی رہائشی علاقے کو بم سے ہدف بنایا گیا۔​
مطلب کہ اب شیعہ مخالف لہر زیادہ شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اس سے قبل زائرین یا عوامی مقامات پر ہی انہیں ہدف بنایا جاتا تھا لیکن اب یہ اُن کے گھروں کے اندر تک پہنچ رہے ہیں۔​
اور کراچی جہاں فرقہ وارانہ حملے اب تک ٹارگٹ کلنگ یا محرم الحرام کی مجالس عزا یا پھر ماتمی جلوسوں پر حملوں تک محدود تھے، اب اتوار کو ہونے والے بم حملے کے حربے نے اس سلسلے پر زیادہ پریشان کُن، ایک نیا نشان لگادیا ہے۔​
یہ انسانیت کے خلاف تیزی سے پھیلنے والی مذموم مہم ہے۔ رہی ریاست تو وہی اس کا پرانا رویہ۔ عوام کے شور مچانے پر معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے، لشکرِ جھنگوی سے مبینہ تعلق رکھنے والے چند درجن مشتبہ ارکان کی گرفتاری۔​
وسیع النظری، بہادری اور ایمانداری کے ساتھ کیے گئے کسی اقدام کے بغیر یہاں صورتِ حال صرف بد سے بد تر ہی ہوگی۔​
 
Top