ناغہ برائے نیند

Abdul Azeem Azmi

محفلین
صبح کا سہانا وقت مگر آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں ۔ امی جگانے کیلئے آئیں اور کچھ انداز میں مجھ سے گویا ہوئیں ۔
عظیم اسکول نہیں جانا ہے کیا جو پڑے پڑے سو رہے ہو، اور یہ ٹفن کے اندر جو چھوٹا والا ڈبہ تھا وہ کہاں گیا ؟ ۔
پتہ نہیں امی ہوگا کہیں کسی کونے کھدرے میں ،نیند سے بوجھل آواز میں جواب دیا۔
کہیں تم نے اسکول میں تو نہیں چھوڑ دیا اُسے ۔
نہیں امی جب ٹفن لے کر آؤنگا تو پوری ہی لے کر آؤنگا نا، یا جزئیات لے کر! ۔
تمہارا کیا بھروسہ بھول گئے ہوگے۔کوئی کام تو ٹھیک سے کرتے نہیں ہو تم۔
جیسے ہی امی کی آواز آنا بند ہوئی نیند نے پھر سے مجھ پر حملہ کیا اور سویرے اٹھنے کا خواب بھی کہیں دور جا سویا ۔
ابھی پانچ منٹ بھی نہیں ہوا ہوگا کہ پھر سے آواز آئی
عظیم اٹھو اسکول نہیں جانا کیا؟
آنکھ کھول کر موبائل میں ٹائم دیکھا تو پتہ چلا کہ بس آنے میں صرف 20 منٹ اور ہے ۔ نیند کے نشے میں چور دماغ نے مشورہ دیا کہ اتنی جلدی میں کہاں جاؤگے سوئے رہو ویسے بھی ابھی چائے پینی ہے پھر باہر جا کر اسموکنگ بھی کرنا ہے اور 20 منٹ میں یہ سب کرنا ممکن نہیں ہے اور برسات کی نیند ہے چلی گئی تو پھر نصیب نہیں ہوگی اسی جھونک میں امی سے بول دیا کہ نہیں آج اسکول نہیں جانا ہے۔
ویسے تو بزرگوں نے بہت خوب کہا ہے مگر ایک بات کہنا بھول گئے کہ نیند کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ فیصلہ سانپ بن کر ڈستا رہے گا ۔
اب مجھے ہی دیکھ لو اچھا بھلا اسکول چلا گیا ہوتا تو سکون سے رہتا۔ اب پتہ نہیں کیسے گزارہ ہوگا ۔ کیونکہ اسکول جانا مجھے بہت پسند ہے ۔ نہیں یار پڑھائی کا دیوانہ نہیں ہوں بلکہ یہاں کام ہی ایسے ایسے ہوتے ہیں کہ بنده جانے پر مجبور ہو جائے ۔ یہاں مردانہ جنگوں کے بجائے زنانہ نوچ کھسوٹ ہوتی ہے ۔ میں جو کبھی ایک دن میں دو دو مووی دیکھ لیتا تھا اب ایک بھی نہیں دیکھ پاتا کیونکہ ساس بہو والے ڈرامے کے طرز پر ہونے والی جھڑپیں دماغ کو تہس نہس کر دیتی ہیں اور بندہ خالی وقت میں موبائل استعمال کرنے کے بجائے اُن اثرات کو ذہن سے نکالنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہیں میرے مسلسل اسکول نا جانے کا سبب وہ لڑائیاں تو نہیں جن سے میں لاشعوری طور پر بچنا چاہتا ہوں مگر پھر خیال کو جھٹکنا پڑتا ہے کیونکہ اگر یہ خیال شعور کی سطح پر آگیا تو پھر اسکول جانے میں اور زیادہ دقت ہوگی ۔ اور اسکول! اس کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں ۔ اسکول ایک ایسے ملک کی طرح ہے جہاں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے ۔ انصاف کا درس دیتے ہوئے ظلم کیا جاتا ہے اور انسانیت کی بات کرتے ہوئے حیوانیت دکھائی جاتی ہے ۔ ایسے میں کچھ حسین چہرے ہی ہیں جو لڑکوں کو اسکول میں روکے ہوئے ہیں ۔ اب وہ نظر نظر کی بات ہے کہ آپ کس طرز کے حسن کو پسند کرتے ہیں ۔
اوہ یہ کیا! بات کچھ تھی اور چلا کہیں اور گیا، سچ کہا ہے صوفیوں نے مگر میں نہیں بتاؤنگا آپ لوگ اپنی اپنی صلاحیت بروئے کار لاکر معلوم کر لیں ۔

عبدالعظیم اعظمی
 
Top