ناجائز ذرائع سے کامیابی حاصل کرنا اور برائیوں پر فخر کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند روز قبل عائشہ عزیز بہنا سے امتحانات کے متعلق بات ہو رہی تھی ، انہوں نے دو باتوں کی نشان دہی کی ۔
1- ناجائز ذرائع سے کام یابی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اب زیادہ نظر آتے ہیں۔
2- لوگ برائی کرنے کے بعد اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس کی تشہیر کرنے لگے ہیں ۔
عائشہ اور میں جس معاشرے کی بات کر رہے ہیں وہ مسلم اکثریتی معاشرہ ہے جہاں خوف خدا اور ایمان داری جیسے نظریات موجود ہیں اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اب صرف امتحانات تک محدود نہیں رہی ۔ یہ سب کچھ بہت عام ہو رہا ہے ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا ہم سب اس کے ممکنہ نتائج کی پرواہ کرتے ہیں ؟
۔۔ اور ویسے بھی نقل کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے ہاں بس یہ ہے کہ اس کے بعد حاصل کیے ہوئے نمبر میرے خیال میں آپ کو کوئی خوشی نہیں دیتے۔ اور یہ بہت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ اور بتاؤں اسٹوڈنٹس اپنی نقل کے قصے یوں بتاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے سرخ بھی نہیں ہوتے نہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات پر شرمسار ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نقل کر کے پاس ہونے والے معاشرے کو نقصان کتنا پہنچا رہے ہیں، یہ بھی تو دیکھیں۔

یہاں ایک ڈاکٹر صاحب نے ایک مریض کا معاینہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کے دل کی دھڑکن صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے مریض کو فوراً کسی بڑی ہسپتال میں جانے کو کہا۔
مریض ہسپتال جانے کی بجائے ایک ایسے ہی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جو نقل مار کے پاس ہوا ہو گا۔ اس نے کہا کوئی خاص بات نہیں۔

اگلے دن مریض دفتر نہ آیا۔ دفتر والوں نے اس کی رہائش پر جا کر دیکھا تو وہ اللہ کو پیارا ہو چکا تھا اور اس کی سائیڈ ٹیبل کر پانی کا گلاس اور panadol کا پیکٹ پڑا تھا۔
 
اور ان نقل کر کے پاس ہونے والوں کو نوکری کیسے ملتی ہے ؟ مزید برے لوگوں کی حمایت سے ۔ جو میرٹ پر فیصلے کی بجائے رشوت یا سفارش سے کام لیتے ہیں ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اپیا اچھا دھاگہ شروع کیا۔

چاچو بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔

جب ہم یوں ہی چھوٹے چھوٹے کاموں میں بے ایمانی کرنا سیکھ جاتے ہیں تو بڑے ہو کر پھر بڑے بڑے کاموں میں بے ایمانی کرنے سے ضمیر اتنا زیادہ شور نہیں مچاتا۔
 
جب ہم یوں ہی چھوٹے چھوٹے کاموں میں بے ایمانی کرنا سیکھ جاتے ہیں تو بڑے ہو کر پھر بڑے بڑے کاموں میں بے ایمانی کرنے سے ضمیر اتنا زیادہ شور نہیں مچاتا۔
اف کیا بات کہی ہے آپ نے ۔۔۔ ایک عرب شاعر نے یہی بات کہی ہے کہ چھوٹے گناہوں کو حقیر مت جانو ، کنکریوں سے ہی پہاڑ بنتے ہیں ۔۔۔ اب جب طیارے گرنے، سی این جی سلنڈر پھٹنے، جعلی دواؤں سے انسانوں کے مرنے اور عمارتیں زمین بوس ہونے کی خبریں آتی ہیں تو یہی لگتا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی کرپشن کے پہاڑ تلے پس رہے ہیں اور قوم کو بھی ساتھ میں مروا رہے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی کرپشن کو چھوڑنے کی بجائے دوسروں کی جانب انگلی اٹھاتا ہے ۔
اور بتاؤں اسٹوڈنٹس اپنی نقل کے قصے یوں بتاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے سرخ بھی نہیں ہوتے نہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات پر شرمسار ہونا چاہیے۔
ایک ایمان دار سٹوڈنٹ یہاں سے ہی حوصلہ ہارنا شروع ہوتا ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا نظام سے اعتبار ختم ہونے لگتا ہے ۔
 
Top