نئے مالیاتی نظام کی ضرورت

جاسم محمد

محفلین
نئے مالیاتی نظام کی ضرورت

1583950-newmonetarysystemx-1552122313-740-640x480.jpg

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے کمزور ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کےلیے بنائے گئے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان اس وقت سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ قرضوں کی دلدل، بجٹ خسارہ، مالیاتی خسارہ، درآمدات و برآمدات میں عدم توازن، بیروزگاری، زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہونا، صنعتی ترقی میں تسلسل کا فقدان اور اس جیسے لاتعداد مسائل ہیں جو گنوائے جا سکتے ہیں، جو ہم پچھلے کئی سال سے سن سن کرتھک چکے ہیں اور اس وقت کا انتظارکر رہے ہیں جب ہم حقیقی ترقی کے سفر کا آغازکریں جس میں تمام قرضے چکادیئے جائیں، بجٹ سرپلس ہوجائے، مالیاتی خسارہ ختم ہوجائے، ایکسپورٹس امپورٹس سے بڑھ جائیں، بیروزگاری ختم ہوجائے، زرعی پیداوار میں اضافہ ہوجائے، صنعتیں چل پڑیں، ملک میں اشیاء و خدمات کی پیداوار بڑھ جائے۔ ایسا کس طرح ممکن ہے؟

کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی کی بنیاد اشیاء و خدمات (پروڈکٹس اینڈ سروسز) کی پیداوار میں اضافہ، گرانی پرقابو پانا، نظام ادائیگی میں توازن اور مالیاتی استحکام یقینی بنانا، زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھنا اور نجی سرمایہ کاری کے فروغ پر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرنسی کی قدر، اجرتوں کا نظام، بچت اور سرمایہ کاری میں اضافہ، اشیاء کی طلب و رسد ایسے عوامل ہیں جو معیشت کا اہم جزو ہوتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک خودمختار ادارہ ہے جو مالیاتی پالیسی نافذ کرتا ہے، مالیاتی حکام ملک میں قیمتوں کے استحکام، زر کی رسد اور شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک نجی بینک تھا۔ یکم جنوری 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا۔ فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ’’فائنانشیل ریفارمز‘‘ کے تحت خودمختاری دے دی۔ 21 جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خودمختار کردیا۔ اب یہ پاکستان کی حکومت کے ماتحت نہیں رہا۔ 2005 میں منی چینجروں کو قانونی درجہ دے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کردیا گیا۔ 2016 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پارلیمنٹ کو قرضوں کی تفصیلات دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ معلومات دینے کا پابند نہیں۔ دسمبر2018 میں اسٹیٹ بینک نے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر روپے کی قدر کم کی۔

جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد، دسمبر 1988 میں ایک امریکی ڈالر 18.60 پاکستانی روپے کے برابر تھا جو اب، فروری 2019 میں 139 روپے کا ہوچکا ہے۔

ایسے ادارے کا کونسا مؤثر کام ہے جو وہ کر رہا ہے؟ نہ کرنسی کی قدر کنٹرول کرتا ہے، نہ رسدِ زر کو، اور نہ زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم رکھنے میں کوئی کردارادا کرتا ہے۔

دنیا کا موجودہ عالمی سودی بینکاری اور کارپوریٹ نظام، دراصل طاقتور ملکوں کا بنایا ہوا ایک جال ہے، جس کی بنیاد بریٹن ووڈ معاہدے پر رکھی گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے کمزور ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کےلیے بنائے گئے۔ اس نظام کے بنائے ہوئے جال کا ثمر یہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ یہ لوری سناتے ہیں کہ اب ہمارے پاس آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اس عالمی سودی مالیاتی استحصالی نظام میں پاکستان نے 16 بار قرضہ لیا۔ قرض لینے والے ملک سے ہر بار ’’اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹس‘‘ کے نام پر دو شرائط منوائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ آئی ایم ایف/ ورلڈ بینک سے قرضہ لینے والا ملک اپنی کرنسی کی قدر فوری طور پر کم کرے، اس طرح اس ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور زیادہ ڈالرز ملیں گے اور قرضہ واپس ہوسکے گا۔ لیکن مقروض اور تجارتی توازن میں خسارے والے ممالک میں اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ ایسی اشیاء جو باہر سے آتی ہیں، وہ زیادہ مہنگی ہوجاتی ہیں، معیشت مزید بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔

دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ ٹیکس نظام کو بہتر بنایا جائے، عوام سے زیادہ ٹیکس لیا جائے اور اس کے ساتھ حکومت اپنے زیر سایہ چلنے والے اداروں کو پرائیویٹائز کرے تاکہ دنیا کے بڑے سرمایہ کاری وہاں آئیں اور بالآخر اس ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہوجائے۔

لیکن اس عالمی سودی مالیاتی استحصالی نظام کے گھن چکر سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

1970 کی دہائی سے لے کر 1990 کی دہائی تک، ترکی میں مہنگائی شرح بہت زیادہ تھی، جسے ’’کرونک انفلیشن‘‘ (Chronic Inflation) یعنی دائمی مہنگائی یا دائمی افراطِ زر کانام دیا جاتا ہے۔ یہ آگے چل کر ’’ہائپر انفلیشن‘‘ (Hyperinflation) یعنی حد سے زیادہ مہنگائی میں تبدیل ہوجاتی ہے؛ جو ایک ایسا معاشی مسئلہ ہوتا ہے جو کسی بھی طریقے سے حل نہیں ہوپاتا، جس میں کرنسی کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہوتی ہے اور مہنگائی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا ہے۔ 2001 کے مالی سال میں ترکی میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد سالانہ تھی۔ 2003 میں رجب طیب اردوان کے وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے مہنگائی میں اضافے اور ترکش لیرا کی دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں کم قدر کو قومی ذلت قرار دیا۔

دسمبر 2003 میں ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا، جس کی رو سے پرانے 1,000,000 لیرا کے چھ صفروں کو ختم کرکے نئے ایک لیرا سے تبدیل کیا گیا اور نئی کرنسی کو یکم جنوری 2005 سے نافذ العمل کیا گیا؛ جو نہ صرف ترکی بلکہ شمالی قبرص میں بھی رائج ہوئی۔ اس طرح ترکی کی کرنسی، جو دنیا کی سب سے کم قدر والی کرنسی شمار ہوتی تھی، ایک ایسے مقام قدر تک آگئی تھی جس سے ملکی معیشت کو عالمی مالیاتی استحصالی ساہوکاروں کی نظر بد سے بچایا جاسکے۔ خاصی مدت تک ایک ڈالر تین لیرا کے آس پاس رہا، پھر کچھ بے قدری کے بعد اب 5.27 لیرا کا ایک ڈالر ہے۔

دنیا کے جو ممالک اب ترقی کے سفر پر ہیں، ان کی کرنسیوں کی قدر مستحکم ہے۔ مثلاً 4.08 ملائشین رنگٹ کا ایک ڈالر، 3.62 اسرائیلی شیکل کا ایک ڈالر، 14.07جنوبی افریقن رینڈ کا ایک ڈالر، 3.64 قطری ریال کا ایک ڈالر، 6.77 چینی یوآن کا ایک ڈالر، 3.70 برازیلین ریال کا ایک ڈالر، 71بھارتی روپے کا ایک ڈالر، 66.29 روسی روبل کا ایک ڈالر، 38.53 ارجنٹائنی پیسو کا ایک ڈالر، اور 83.70 بنگلہ دیشی ٹکا ایک ڈالر کے برابر ہے۔

ہائپر انفلیشن ایک ایسی معاشی اصطلاح ہے جس میں مہنگائی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی کی قدر میں انتہائی تیزی سے کمی آتی ہے۔ ملک مزید مقروض ہوتا ہے، کرنسی کی قوت خرید گھٹ جاتی ہے، تجارتی توازن بے حد خراب ہوجاتا ہے۔ بہت سارے ممالک میں ہائپر انفلیشن ہوچکا ہے۔ مثلاً 1922 میں آسٹریا، 1795 میں فرانس، چین میں 1943-1945 تک، جرمنی میں 1920، شمالی کوریا میں 2009-2011 تک، سوویت یونین میں 1921-1922 میں؛ جبکہ اس کی تازہ مثالیں وینزویلا اور زمبابوے ہیں۔ وینزویلا میں ہائپر انفلیشن 2016 میں شروع ہوا۔ 2014 میں مہنگائی کی شرح 69 فیصد سالانہ تک پہنچ گئی، 2015 میں 181 فیصد، 2016 میں 800 فیصد، 2017 میں 4000 فیصد اور 2018 میں بڑھتے بڑھتے 1698488 فیصد تک پہنچ گئی۔ زمبابوے کی حالت بھی ایسی ہی ہوگئی تھی کہ لوگ ایک کلو سبزی خریدنے کےلیے پیسوں کی بوریاں بھر کر لے جاتے تھے۔ آخرکار انہوں نے ڈالر ہی کو اپنی کرنسی ڈیکلیئر کردیا۔ یہ ساری تفصیل اس لیے بیان کی گئی ہے کہ ہم بھی اب اسی راہ پر گامزن ہیں۔

موجودہ کرنسی کی قدر کے ساتھ ہم اپنے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتے، کیونکہ باربار قرضوں کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے روپے کی قدر میں بے حد کمی ہوچکی ہے۔ مصنوعی کاغذی کرنسی کی قدر کو آئے دن گھٹا کر ہمارے جیسے ملکوں کو مزید غریب کرنا بدترین استحصال ہے۔ اس کے آگے بند باندھا جائے، نئی کرنسی جاری کی جائے، اور کرنسی کی قدر اپنی قوت خرید کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی جائے۔ ساتھ ہی اجرتوں کے نظام کو سونے کی قیمت کے ساتھ نتھی کردیا جائے، ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر کردی جائے۔

نئی کرنسی بنانے سے ہی سودی بینکاری کاخاتمہ بھی ممکن ہے؛ اور یہ کام کوئی مغرب کے معاشی اسکولوں سے پڑھا لکھا نہیں کر پائے گا۔ یہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے ملک اور قوم کو عالمی استعماری قوتوں کے چنگل سے آزاد کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔

جیسے یکم جنوری 1986 کو اسرائیل نے پرانے ہائپر انفلیشن زدہ اسرائیلی شیکل کو 1000:1 کی نسبت سے بدل دیا تھا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مہنگائی قابو میں آگئی، ادائیگیوں میں توازن میں آگیا، 2010 میں کرنٹ اکاؤنٹ جی ڈی پی کے 3 فیصد سرپلس رہا اور 2000 سے 2010 تک اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top