میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مجھے بجھائے کیا

نور وجدان

لائبریرین
ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟ مایہ ء فن لُٹائے کیا


شعر تو خوب ہے مگر مشاہدے اور تجربے کے بر عکس -کیونکہ دل ٹوٹنے پر تو خوب آمد ہوتی ہے اور اشعار کا تانتا سا بندھ جاتا ہے -ہو سکتا ہے آپ کا معاملہ مختلف ہو -
شعر بناتے میں نے بھی خود سے یہی قیاس کیا تھا مگر آئنہ ٹوٹ جانے کا صدمہ بعض اوقات سکتے کا کیف طاری کردیتا تب شاید خیالات کم آتے ہیں .. ہوسکتا ہے کہ میرے ساتھ والا معاملہ کچھ الگ ہی ہو کہ زندگی سب کی مختلف تجربات پر مبنی ہوتی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کوئی سنائے حال کیا؟ اپنے بھی کیا؟ پرائے کیا؟


دوسرے مصرع میں تین بار "کیا " کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -آخری دو بار اچھی لگ رہی ہے اور "اپنے " اور "پرائے" میں دو معنی پیدا کر رہی ہے -ایک مراد اپنے ' پرائے حال -دوسری مراد اپنے ' پرائے لوگ -دوسرے مصرعہ کو اس طرح بدل دیں -

کس کو سنائیں حال ہم؟ 'اپنے ہی کیا؟' پرائے کیا؟
بہت خوب. اچھی تجویز ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست جو بنی
شور اسی گھڑی کا پھر خامُشی میں بھی جائے کیا

حشر کے لمحے تو ٹھہر! جو ہو قصور وارِ عشق
وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا


ان دو اشعار کے یہ دو مصرعے سنبھال کے رکھیے اور انھیں کے جوڑ اور ٹکّر کے مصرعے بطور گرہ لگائیے -کیونکہ فی الحال یہ دو شعر اپنا مطلب واضح نہیں ادا کر پا رہے -

" ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست بن گئی "


--------

"وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا"
اگر اسکو یوں کردیا جائے

وہ جو تھی حشر کی گھڑی، لے گئی خامشی میں مجھ کو
شور سکوت میں مگر اس گھڑی کا جائے کیا؟

یا
.
وہ جو تھی حشر کی گھڑی، سکتہ ء جان بن گئی
شور نشور کی گھڑی کا خامشی میں بھی جائے کیا

گو کہ میں اسکو غزل سے فی الحال نکال ہی رہی ہوں پر اک کوشش کے ساتھ، دیکھ لیجیے گا


دوسرے شعر کو دیکھیے .....

اے غمِ دل تو ہی ٹھہر، سن لے فسانے درد کے
وحشت ِِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا
 
Top