میں ہمیشہ سے باغی ہوں ۔ ۔ ۔ از ۔ ۔ ۔ آصف احمد بھٹی

میں ہمیشہ سے باغی ہوں
آصف احمد بھٹی


( مکالماتی افسانہ )

تم خاموش کیوں ہو ۔ تم نے پوچھا۔
ابھی میں دیکھنے کی منزلوں پہ ہوں ۔ میں نے جواب دیا۔
مگریہ تمہاری پلکیں کیوں بھیگی ہوئی ہیں ۔ تم نے سوال کیا۔
مجھے بارش اچھی لگتی ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
سوچ لو! آئینوں کی یاداشت نہیں ہوتی ۔ تم نے مجھے تنبیہ کی ۔
شاید ! اسی لیے میری تحریروں کے عکس جھلملاتے رہتے ہیں ۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
اِس بار کچھ تھکے سے لگ رہے ہو ۔ تم نے ایک اور سوال کیا۔
شاید ! خود سے اُگتا گیا ہوں ۔ میں نے جواب دیا۔
پچھلے ستمبرمیں تو تم ایسے نہیں تھے ۔ تم نے پوچھا۔
پچھلا ستمبر بھی تو ایسا نہیں تھا ۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔
یہ سب کچھ اتفاق بھی ہوسکتا ہے ۔ تم دھیرے سے بولی ۔
شاید ! میں نے بھی سر ہلا دیا۔
اچھا ! اس باررتجگوں کا رنگ کیسا ہے ۔ تم نے اپنے بالوں سے کھیلتے ہوئے پوچھا۔
خود ہی پڑھ لو , میری پلکوں پہ لکھا ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
پانی کی تحریریں اکثر ناہموارہوتی ہیں ۔ تم دھیرے سے بولی ۔ اور پھریہ سب اتنا اہم بھی نہیں ہے۔
تمہارے لیے نہ ہوگا ۔ میں نے جواب دیا۔
مجھے تمہاری باتوں سے ڈر لگتا ہے ۔ تم نے کہا ۔ خوف آتا ہے۔
کیسا خوف ؟ میں نے پوچھا۔
مجھے نیزے کی زہریلی انی تمہارے سینے کے آس پاس ہی دکھائی دے رہی ہے ۔ تم نے کہا۔
ہاں ! میں نے اقرار کیا ۔ یہ میں بھی جانتا ہوں کہ میں کوئی شہزادہ نہیں ہوں , مگر جانے کیوں اب کی بار خدا کی بادشاہت کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی ہے کہ اِس بار شفق میرے لبادے سے لپٹی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ جانے کیوں میں پانچوں براعظموں کو اپنی ہتھیلی پر محسوس کر رہا ہوں جیسے رستم و کئے میرے قدموں میں بیٹھے ہوں ۔
ایسا کیوں ہے ۔ تم نے سوال کیا۔
شاید میں زیست کے دائروں سے باہر نکل گیا ہوں ۔ میں نے جواب دیا ۔ شاید میری خواہشات اپنا جغرافیہ بھول گئی ہیں یا شاید میری لغت اپنے معنی کھو بیٹھی ہے۔
کیا ! یہ سماجی اصولوں سے بغاوت نہیں ۔ کچھ دیر بعد تم نے پوچھا۔
ہاں ! میں نے سر ہلادیا ۔ میں جانتا ہوں میں خود اپنے خلاف تعزیریں رقم کررہا ہوں۔
کیوں ؟ تم نے عجیب سا سوال کردیا۔
میں ایک نئی ابجد ایجاد کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے جواب دیا۔
مگر اِس شہر کے سارے لوگ تو ان پڑھ ہیں ۔ تم حیرت سے بولی۔
جانتا ہوں ! میں مسکرایا ۔ مگر میں یہ سب آنے والے دیوانوں کے لیے کر رہا ہوں۔
کیا تمہیں یقین ہے کہ اِس زمانے میں بھی بغاوت کا بیج نمو پا سکتا ہے ۔ تم نے پوچھا۔
ہاں ! میں نے جواب دیا ۔ کیونکہ ابھی خدا بھی نا اُمید نہیں ہوا کہ اب بھی چاند کی چھاتیوں سے چاندنی بہتی ہے۔
تم ! کیا کرنا چاہتے ہو ۔ تم نے پوچھا۔
میں ! میں ہنس دیا ۔ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں , کہ یہ وحشت بھری زندگی ختم ہوجائے میں چاہتا ہوں آبادیوں میں جنگلوں کا اور جنگلوں میں درختوں کا اضافہ ہو جائے ۔ ۔ ۔ سمندروں کا پانی اور نیلا ہوجائے ۔ ۔ ۔ اُن خوابگاہوں کے دروازے توڑنا چاہتا ہوں جن کے پیچھے بے بس جسموں سے لہو نچوڑا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اور بھی زیادہ معصوم ہوجائیں ۔ ۔ ۔ اسی لیے میں آخری سردار کو قتل کرنا چاہتا ہوں اور یہی میرا ارادہ ہے ۔
اور اگرایسا نہ ہوا تو؟ تم نے تشویش سے پوچھا۔
میں ہمیشہ سے باغی ہوں ۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا ۔ مگر ہر بار مجھے معافی مل جاتی ہے۔
( آصف احمد بھٹی )
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھا خیال مگر
مکالمہ الجھا الجھا سا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت نہ ملے تو سلجھاؤں کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت دعائیں
 
Top